
2660 ارب روپے کا مزید قرض، ”کرے کوئی بھرے کوئی“
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پورے عالم انسانیت کی بقاء کو جوہری ہتھیاروں، ماحولیاتی تبدیلی کے باعث رونما ہونے والی تباہیوں اور اس سے بھی بڑھ کر نت نئی وباؤں کی صورت میں انتہائی خوفناک، ڈراؤنے اور سنجیدہ قسم کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے اور انسانیت کو درپیش انہی خطرات کی وجہ سے دنیا کی بیشتر اقوام اقتصادی، سیاسی، انتظامی غرض ہر طرح کی مشکلات سے دوچار ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ سے لے کر روس تک اور چین سے لے برطانیہ و یورپی یونین تک شاید ہی آج دنیا کا کوئی ایسا خطہ یا ملک ہو جہاں اندرونی یا بیرونی انتشار نہ پایا جاتا ہو، طاقت، اختیار اور وسائل پر تصرف کے لئے اس وقت پوری دنیا کو ایک میدان جنگ بنا دیا گیا ہے اور یہی سب سے زیادہ تشویشناک امر ہے۔ علاوہ ازیں عراق، شام اور سب سے بڑھ کر افغانستان میں جاری شورش بھی یا با الفاظ دیگر ان خطوں میں بھڑکائی جا رہی جنگ کی آگ کسی بھی وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یہ ساری تمہید ہم نے اپنا یہ مدعا سامنے رکھنے کے لئے باندھی ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں جو صورتحال پائی جاتی ہے وہ کاروبار، روزگار یا اقتصادی سرگرمیوں کے لئے ہرگز سازگار نہیں ہے بلکہ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی و بربادی کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں، اس وقت اگر ایک طرف امریکہ کی دکان محولہ بالا جنگوں کی بدولت یا خود امریکی عیاریوں اور مکاریوں کی وجہ سے تھوڑی بہت چل رہی ہے تو دوسری طرف چین کے علاوہ شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جو اقتصادی یا معاشی طور پر مستحکم اور طرح طرح کے خدشات سے دوچار نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس حتی کہ پڑوسی مگر روایتی حریف بھارت تک کے ساتھ پاکستان کی معیشت کا موازنہ قرین انصاف نہیں ہے، سادہ لفظوں میں اقتصادی اعتبار سے اقوام عالم میں وطن عزیز کا شمار ھما شما میں ہی ہوتا ہے، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ضرور رہا لیکن افسوس کہ غیروں کی وجہ سے کم اور بنیادی طور پر ”اپنوں“ ہی کے طفیل ترقی یافتہ قوم بننے کا ہمارا خواب آج تلک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا، ملک میں اس وقت جو حالات چل رہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی امید یا روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی، گستاخی معاف مگر اس کی بجائے ایسے دکھائی دے رہا ہے جیسے قوم کو قصداً و عمداً مایوسیوں اور تاریکیوں کی جانب دھکیلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس کے نتائج کیا نکلیں گے اس سے شاید کسی کو بھی کوئی غرض نہیں ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مالی و معاشی مسائل میں اضافے کی قیمت کون چکا رہا ہے، کیا حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ کے معیار زندگی پر کوئی فرق پڑا ہے؟ شاید کیا یقینااس کا جواب نفی میں ہے، لیکن پاکستان پر مسلسل چڑھتے جا رہے اس قرض کو چکائے گا کون؟ ظاہر ہے کہ یہ بوجھ بھی غریب عوام کو ہی برداشت کرنا ہو گا۔ آخر ملکِ عزیز میں یہ ریت کب تک چلتی رہے گی کہ اشرافیہ، حکمران، نوکر شاہی اور مقتدر حلقے عیاشیاں کرتے رہیں گے اور قوم ان کے نقصانات بھرتی رہے گی؟