36 ہزار 9 سو ارب روپے کا قرض اور غریب عوام

36 ہزار 9 سو ارب روپے کا قرض اور غریب عوام

یہ امر یا ناقابل بیان حقیقت وطن عزیز کے ہر محب وطن شہری کے لئے باعث تشویش ہے کہ اس وقت ملک تقریباً 37 ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے اور اس سے بھی زیادہ فکرمندی کی بات یہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے سر پر پڑے اس بوجھ میں وقت اور ہر حکومت گزرنے کے بعد کمی کی بجائے مسلسل اور ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ گستاخی معاف مگر اس مقروض ملک کے موجودہ وزیر اعظم جب بھی ٹی وی سکرینوں پر جلوہ گر ہوتے ہیں، کہیں خطاب کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کو انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں تو ان کے چہرے، وضع قطع اور سب سے بڑھ کر ہر وقت ان کے ہونٹوں پر پھیلی ان کی مخصوص اور بقول شخصے ”قاتلانہ“ مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے بالکل بھی ایسا دکھائی دیتا یا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں جس کا بچہ بچہ بلکہ ذرہ ذرہ قرضوں میں ڈوب چکا ہے، جسے کاروبار حکومت چلانے کے لئے درکار رقم کی خاطر اپنے اثاثے گروی رکھنا پڑ رہے ہیں اور باوجود اس حقیقت کے بھی کہ ملک و قوم پر چڑھے اس بے تحاشہ قرض میں خود ان کی حکومت کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں اس حوالے سے پیش کردہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ملک کا کل قرضہ اکیس ہزار چار سو ارب سے چھتیس ہزار نو سو ارب روپے ہو گیا ہے، جبکہ وزیر اعظم خود متعدد مواقع پر اس امر کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ہماری زیادہ تر آمدنی، جس کا بیشتر حصہ بھی قرض پر ہی مبنی ہوتا ہے، ”سابق“ حکومتوں کی جانب سے لئے گئے قرضوں کی اقساط کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے (اور اسی لئے حکومت کے پاس ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز نہیں ہوتے)۔ بہ الفاظ دیگر ہم قرض چکانے کے لئے مزید قرض لے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ایک عرصہ سے یونہی جاری و ساری ہے۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے واجبی سی واقفیت رکھنے والا ایک عام شخص بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ قرض لے کر قرضے چکانے والوں کا حتمی انجام کیا ہوتا ہے، لہٰذا جب تک ہم اپنا یہ لائحہ عمل تبدیل نہیں کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی قومی ترجیحات کا ازسرنو تعین نہیں کریں گے تب تک ہمارے اوپر قرضوں میں اضافہ ہی ہو گا، اس کے مزید کیا نتائج ہو سکتے ہیں ذمہ داروں یا صاحبان ارباب بست و کشاد کو اس پر غور کرنا چاہئے۔