پاکستان کے22  کروڑ عوام پر قریباً6  ہزار اشرافیہ قابض

پاکستان کے22  کروڑ عوام پر قریباً6  ہزار اشرافیہ قابض

تحریر: اعجاز احمد
کسی ملک کی ترقی اور کامرانی میں وہاں کی لیڈرشپ اور قیادت کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ لیڈر اور ملکی قیادت ملک اور عوام کی قسمت بدلتے رہتے ہیں۔ اگر ہم غور کر لیں یورپ اور بعض ایشیائی ممالک نے جو ترقی کی ہے یہ ترقی لیڈرشپ اور قیادت کی مرہون منت ہے۔ پاکستان1947  میں وجود میں آیا۔1947  یا اس کے بعد120  ممالک وجود میں آئے مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان ان120  ممالک کی فہرست میں سماجی اقتصادی اشاریوں میں سب سے نیچے ہے بلکہ افغانستان کا ایک روپیہ ہمارے 2.35 روپے کے برابر ہے۔ جب عمران خان سے حکومت لی گئی تو پاکستان کے خزانے میں کل 16 ارب ڈالر تھے جبکہ ان میں بھی3  ارب ڈالر سعودی عرب،4  ارب ڈالر چین کے  اور باقی  متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک کے تھے، پاکستان کے خزانے میں کل اپنے 3 سے 5 ارب ڈالر رہتے ہوں گے۔ جب کہ اس کے برعکس بنگلہ دیش کے خزانے میں 41 ارب ڈالر جبکہ نیپال جیسے غریب ملک کے پاس بھی 9 ارب ڈالر ہیں۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا جیسے8  غریب ممالک میں بھی پاکستان سماجی اقتصادی اشاریوں میں سب سے نیچے ہے۔ پاکستان کو وہ قیادت میسر نہیں ہوئی جو ملک کو بحران سے نکال لے اور اس کو ترقی دے۔1954  سے اب تک14  عام انتخابات ہوئے۔ وطن عزیز پر33  سال فوجی حکمران رہے اور44  سال تک سول حکومت ملٹری سائے میں رہی مگر پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی ایسا حکمران نہیں آیا جو ملک کو صحیح ٹریک پر چڑھا سکے۔ موجودہ دور میں جن جن لیڈروں نے اپنی ذہانت اور سمجھ بوجھ سے اپنے ممالک کو ترقی دی ہے ان میں وینزویلا کے آنجہانی ہوگو شاویز، چین کی قیادت، مہاتیر محمد اور طیب ار دگان شامل ہیں۔ وینز ویلا کے ہوگو شاویز نے اپنے دور اقتدار میں ویزویلا کی اقتصادیات میں6  گنا اضافہ کیا۔ اسی طرح چین، ترکی اور ملائیشیا کی لیڈرشپ نے ملک کو انتہائی ترقی دی۔ اگر ہم دنیا کے کئی ممالک پر نظر ڈالیں گو کہ یہ بہت چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں مگر وہاں کی لیڈرشپ اور قیادت نے اپنے اپنے ملک کو بہت ترقی دی۔ لگزمبرگ جو رقبے کے لحاظ سے سندھ کے برابر ہے مگر وہاں فی کس آمدنی ایک لاکھ10  ہزار ڈالرہے۔ سنگاپور کا رقبہ7  ہزار مربع کلومیٹر ہے مگر وہاں فی کس آمدنی 82 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ سوئٹزرلینڈ کا کل رقبہ41  ہزار مربع کلومیٹر ہے مگر وہاں فی کس آمدنی78  ہزار ڈالر فی کس ہے۔ ناروے اور فن لینڈ کا رقبہ بلوچستان کے برابر ہے مگر وہاں کی فی کس آمدنی بالترتیب71  ہزار ڈالر اور47  ہزار ڈالر فی کس ہے۔ آسٹریا کا کل رقبہ گلگت بلتستان کے برابر ہے مگر وہاں فی کس آمدنی45  ہزار ڈالر ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان کا کل رقبہ تقریباً9  لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، اللہ تعالی نے پاکستان کو بے تحاشا قدرتی وسائل سے بھی مالا مال فرمایا ہے مگر اس کے باوجود بھی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1190 ڈالر ہے۔ اور وہ بھی زرداری، نواز شریف، لاکھانی، سیٹھ عابد، ملک ریاض، جہانگیر ترین کے پیسوں کو22  کروڑ آبادی پر تقسیم کر کے فی کس آمدنی نکالی گئی ہے جس کا غریب سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہم غور کر لیں تو ملک اور قوم کے ساتھ مخلص قیادت اور لیڈرشپ ملکی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے نئی نئی راہیں اور طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان کو وہ قیادت میسر نہیں آئی جو اتنی لائق فائق، ذہین اور دوراندیش ہو کہ وہ ملک اور عوام کی قسمت بدل سکیں۔ پاکستان کے عوام خواہ ان کا تعلق پنجاب سے ہو یا سندھ سے، بلوچستان سے ہو یا خیبر پختون خوا سے، فاٹا سے ہو یا گلگت  بلتستان سے، یہ لوگ انتہائی جفاکش اور محنتی ہیں۔ اگر ہم مزید غور کر لیں ہمارے ملک کے لوگ لانچوں، کشتیوں موٹر کار کی ڈگیوں اور دوسرے ناجائز طریقوں سے بیرون ممالک جانے کی کو ششیں کرتے ہیں اور اکثر جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔ وہ اس لئے بیرون ممالک جاتے ہیں کیونکہ وہاں کی لیڈرشپ نے اپنے ممالک کو جنت نظیر بنایا ہوا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری لیڈرشپ اور قیادت کے لئے پاکستان کمانے کی جگہ ہے۔ وہ یہاں سے مختلف جائز اور ناجائز طریقوں سے دولت کما کما کر بیرون ممالک بینکوں میں منتقل کرتے ہیں۔ نہ تو وہ علاج پاکستان میں کرتے ہیں اور نہ ان کے بچے یہاں پڑھتے ہیں۔ اگر ہم مزید غور کر لیں تو  وطن عزیز کی6  ہزار نام نہاد اشرافیہ نے اس ملک کے22  کروڑ عوام کو معاشی، ذہنی اور ہر طریقے سے یرغمال بنایا ہوا ہے اور یہی نام نہاد اشرافیہ یکے بعد دیگرے مختلف طریقوں سے اقتدار میں آ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ پہلے ان کے دادے پردادے  اور اب ان کے بچے بچیاں اقتدار میں ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی سیاسی پارٹی میں جمہوریت نہیں۔ اب جبکہ2023  کی عام انتخابات میں ڈیڑھ سال ہے مگر میرے خیال میں عام انتخابات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ پھر وہی لوگ اقتدار میں آئیں گے اور عوام کو بے وقوف بنائیں گے اور ملک کو تباہ و برباد بھی کرتے ہیں۔ الیکشن2002  میں 140 ارکان اسمبلی مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے۔ الیکشن2008  میں 89 ارکان اسمبلی مسلم لیگ (ق) کو خدا حافظ کہہ کر پی پی پی میں شامل ہو گئے۔ الیکشن2013  میں121  ارکان اسمبلی پی پی پی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے۔2018  میں یہ پی ٹی آئی کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اکثریت عوام کو ان نام نہاد اشرافیہ نے ہر قسم کے مسائل میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کو کوئی سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں۔ وہ کبھی ایک کو ووٹ دیتے ہیں اور کبھی دوسرے کو، مگر حقیقت میں یہ لوگ ایک ہیں۔