
ٹی ٹی پی سے معاہدہ،عوام کو صورتحال سے آگاہ کیا جائے
پشاور پولیس لائنز میں نماز جمعہ کے دوران خود کش دھماکہ میں60افراد شہید اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئے, تحریک طالبان پاکستان نے اس حملہ کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔ لیکن پاکستان میں معاملات کا وہی عالم ہے ملک کو درپیش معاملات اور مسائل کی سنگینی کا الفاظ میں احاطہ کرنا اور شعوری لحاظ سے انہیں مکمل طور سے سمجھ کر کسی نتیجہ تک پہنچنا نہایت مشکل کام ہے۔ یہ مسائل تہ در تہ، دہائیوں کی غلطیوں کی بنیاد پر جمع ہونے والی مشکلات کا ایسا پہاڑ ہے جو اس ملک کی مسلسل بڑھتی ہوئی غریب آبادی کے سر پر لاد دیا گیا ہے۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ اللہ کی ذات پر بھروسا کرتے ہوئے عوام اس مشکل سے بھی نکل جائیں گے اور وہ سارا بوجھ جو اشرافیہ کی غلطیوں کی وجہ سے قوم پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کی صورت میں جمع کیا گیا ہے، اسے نہ صرف آسانی سے اٹھا لیں گے بلکہ اس میں متوقع اضافہ کو بھی بخوشی قبول کر لیں گے۔ کیوں کہ ملک کے لیڈر سنہری الفاظ میں اپنی غلطیوں کی ذمہ داری دوسرے پر لادنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ اس فن میں اس حد تک طاق ہوچکے ہیں کہ انہیں جھوٹ بولتے ہوئے یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ چند ہی روز بعد جب کہی ہوئی بات غلط ثابت ہوگی تو اس کا کیا جواب دیا جائے گا۔اس کی سب سے نمایاں مثال اسحاق ڈار ہیں۔ جو اپنی ہی پارٹی کے مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں کو ناکام قرار دے کر بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے وطن واپس آئے تھے لیکن ان دعووں کے زمین بوس ہو جانے کے باوجود وہ اترائے پھرتے ہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط پر ہو بہو عمل کرتے ہوئے بھی معاشی اصلاح کی بات کرنے کی بجائے، اس موضوع پر مذاکرے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کیوں کہ اب حکومت ہو یا اپوزیشن، تجزیہ نگار ہو یا اینکر پرسن، وہ الفاظ سے ہی عوام کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔ تاکہ ان کے اپنے گھر کا چولہا جلتا رہے۔عمران خان کا ایک مسئلہ تو اب سنجیدہ نفسیاتی گتھی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ انہیں ہر قومی معاملہ میں اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والی سازش دکھائی دیتی ہے اور وہ ہر سانحہ اور ہر واقعہ کو کسی بھی طرح اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سے جوڑنا چاہتے ہیں تاکہ قوم کو یقین دلایا جا سکے کہ تحریک انصاف کی حکومت جسے ملکی تاریخ میں ناکام ترین حکومت کہا جاسکتا ہے، وہی درحقیقت سب سے بہتر تھی اور بے ڈھنگوں کا وہی ٹولہ درحقیقت ملک کو تمام مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔البتہ جہاں تک تحریک طالبان کے ساتھ معاہدے اور انہیں پاکستان لاکر آباد کرنے کے وعدے یا معاہدے کا تعلق ہے تو یہ ایک سنجیدہ قومی معاملہ ہے جسے سابق وزیر اعظم کا نیا اچھوتا بیان قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔عمران خان کا موقف ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو معاہدے کے تحت پاکستان لایا گیا تھا۔ ان کی حکومت نے ان کی آباد کاری کا منصوبہ بنایا ہوا تھا لیکن حکومت کے خلاف سازشیں کر کے اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا جس کی قیمت اب معصوم لوگ اپنے خون کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ حکومت وقت اور عسکری قیادت کا فرض ہے کہ وہ سابقہ وزیر اعظم کی فراہم کردہ معلومات کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کریں۔ بتایا جائے کہ کیا واقعی کابل حکومت کے تعاون سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کوئی معاہدہ یا افہام و تفہیم طے پائی تھی اور کیا حکومت پاکستان نے چند ہزار دہشت گردوں کے تمام گناہ معاف کر کے انہیں پاکستان آنے اور باعزت زندگی گزارنے کے لئے وسائل فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا؟اگر یہ وعدہ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی کیا تھا اور دستاویزی طور سے اس کا ثبوت موجود ہے تو اسے سامنے آنا چاہیے۔ اور اگر شہباز حکومت نے اس معاہدے پر عمل درآمد میں کوتاہی کی ہے تو اس کی حقیقت بھی سامنے لائی جائے۔ دوسری طرف اگر عمران خان کے دعوے درست نہیں ہیں بلکہ وہ دہشت گردی کے واقعات اور معصوم انسانوں کی ہلاکت کے واقعات کو بھی اپنی سیاسی ساکھ بہتر بنانے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تو حکومت وقت کب ایسے غیر ذمہ دار اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہوئے لیڈر کو قانون کے سامنے جوابدہی پر مجبور کرے گی؟ قومی سطح پر جو مزاج استوار کیا جا چکا ہے اس کے ہوتے کسی اصول کی بنیاد پر اس ملک میں کسی معاملہ کو سنجیدگی سے طے کرنے کی کوئی روایت سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ ملک میں بے حسی اور لاتعلقی کا ناقابل فہم ماحول طاری ہے۔ کم از کم تنخواہ کی سرکاری حد اب بھی 20 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہے لیکن ایک ڈالر 270 روپے میں دستیاب ہے۔ آٹا ڈیڑھ سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے اور خبریں بتاتی ہیں کہ پیاز تین سو روپے کلو پر ملنا دشوار ہے۔ اس ملک میں ابھی وہ نسل بقائمی ہوش و حواس ہے جس نے اس قیمت میں ایک تولہ سونا خریدا تھا۔ آٹے اور پیاز کو سونے کی قیمت تک پہنچا دینے میں صرف ایک فرد یا ایک حکومت کا کردار تو نہیں ہو سکتا لیکن مجال ہے جو ہماری جبیں پر شکن بھی دیکھنے میں آئے۔عمران خان دس ماہ سے منفی سیاست کررہے ہیں اور اب مریم نواز نے اپنے طور پر تحریک انصاف کو نیچا دکھانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اسمبلیاں توڑی جا رہی ہیں، استعفے دئیے جا رہے ہیں، ضمنی انتخاب کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا غلغلہ ہے۔ کون کہتا ہے کہ اس ملک کو کسی مشکل کا سامنا ہے۔ دہشت گردی ہو رہی ہے تو مذمتی بیان بھی سرعت سے جاری ہو جاتے ہیں۔ سیاسی بیان بازی، اور انتقامی کارروائیوں کا ہر حربہ رو بہ عمل ہے۔ہو سکتا ہے ملک میں غربت ہو، مہنگائی ہو، کوئی بھوکا سوتا ہو لیکن منظر نامہ پر تو بھرے ہوئے ریسٹورنٹس اور سامان تعیش سے لبریز اسٹور دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت ٹیکس لگانے والی ہے لیکن جنہیں یہ قیمت ادا کرنی ہے ان کی بات سننے والا کوئی نہیں ہے۔ زمانہ قیامت کی چال ضرور چل گیا لیکن یہ قیامت اہل پاکستان کے سر پر سے گزر چکی ہے۔ پاکستان مسلسل اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور قوم کو اب بھی دیکھے اور ان دیکھے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہونے کی دعوت دی جاتی ہے' لیکن یہ دعوت دینے والوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان میں ہیں' وہ اپنے مخالفین سے عزت، شہرت، رتبہ حتی کہ زندہ رہنے تک کا حق تک چھین لینا چاہتے ہیں۔خدارا ذاتی مفادات کی بجائے ملکی مفادات کا سوچا جائے اور غریب عوام کی طرف توجہ دی جائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے عوام کی حالت سدھارنے کی طرف بھی دھیان دیا جائے یہی اس ملک کی خدمت ہے اور عوام کی بھی خدمت ہے ۔