اجمل خٹک'ایک دوراندیش شاعر'مفکراور سیاستدان تھے

اجمل خٹک'ایک دوراندیش شاعر'مفکراور سیاستدان تھے


روخان یوسف زئی

 خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان کی قیادت میں اٹھنے والی''خدائی خدمتگار تحریک'' کے کریڈٹ پر بے شمار کارنامے اور خدمات ہیں۔چاہے وہ اپنی قوم کی اصلاح ہو،قومیت اور انسانیت،عدم تشدد،رواداری،جمہوریت،تعلیم ،صحافت کا شعبہ ہو۔تمام شعبوں میں خدائی خدمتگار تحریک نے ایسی خدمات سرانجام دی ہیں۔جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ان میں پشتو ادب اور زبان کی آبیاری،ترقی اور ترویج کے لیے بھی باچاخان نے کارہائے نمایاں سرانجام دی ہیں۔اور سب سے بڑھ کر ان کی تحریک،نظریات اور عملی جدوجہد کی بدولت پشتو ادب میں ایسے ایسے شعراء و ادباء سامنے آئے جنہوں نے اپنی تخلیقات کی ذریعے اپنی قوم کی رگوں میں ایک نئی قومی، انقلابی اور مزاحمتی روح پھونکی۔ خدائی خدمتگار تحریک کے زیراثر پشتو ادب نے ہمارے نظام فکر و احساس کے افق کو وسیع اور روشن کرنے میں جو تاریخی کردار ادا کیا ہے اس سے انکار ممکن نہیں، یہی وجہ تھی کہ اس تحریک کو نہایت مختصر مدت میں مقبولیت حاصل ہوئی،باچاخان کافکر وفلسفہ معاشرے کوتبدیل کرنے کا فلسفہ ہے جس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں انسانی فکرونظرپرکوئی قدغن نہ ہوجس میں کسی پرظلم وجبرنہ ہوجس میں کسی کااستحصال نہ ہوجہاں عدم مساوات اور ناانصافیاں انسان کی لکھی ہوئی تقدیر نہ گردانی جاتی ہو یہی وجہ ہے کہ اس تحریک اورفلسفے کواپنے فکرونظر کی وجہ سے تاریخ کے ہردور میں عزت وتوقیر ملتی رہی اوراس تحریک  نے ہمیشہ ظالموں کے خلاف مظلوموں کی حمایت کی ہے اس کے زیراثرادب نے ایک نئی سوچ،نیا زاویہ نگاہ اور انسان دوستی کا ایک نیا درس عطا کیا ہے ۔اسی تحریک سے وابستہ شعراء و ادباء میں ایک بڑا اور نمایاں نام اجمل خٹک کا بھی ہے۔ جنہوں نے پشتو میں نئے ادبی انقلابی دبستان کی بنیاد رکھی۔ ایک حساس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور پختون قلم کار کی حیثیت سے انہوں نے بھی قوم پرست اور اشتراکی نظریات سے اثر لیا اور اس فلسفہ و نظریہ کے بہت بڑے فن کار، مبلغ اور شارح کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے اپنے تخلیقی تجربے اور فن شاعری کے تمام اصول و قواعد پر بے پناہ عبور حاصل کرنے کی مدد سے پشتو کی جدید نظم کو ایک نئی دنیا نئے خیالات اور نئے احساسات سے روشناس کروایا اپنی بیشتر نظموں میں ایسے ایسے نئے سوالات اٹھائے جس سے اس وقت کی ارتجاعی قوتوں نے ان کے خلاف ہنگامہ برپا کردیا،کفرکے فتوے لگائے لیکن اجمل خٹک نے بڑی ثابت قدمی اور استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مخالفین کی پروا کیے بغیر اپنی قوم کوجابروں،ڈکٹٹیروں اوراستحصالی قوتوں کے خلاف  انقلابی شعوراجاگرکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔ وہ اپنے ترقی پسند نظریئے اور وطن پرستی کی پاداش میں کئی سال تک پابند سلاسل رہے اور طرح طرح کی ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے گزرے مگر ہرحال میں ثابت قدم رہے۔ پہلو دار شخصیت، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مترجم، محقق، نقاد، ڈرامہ نگار، ناول نگار، دانشور،سیاست دان اور کئی زبانوں پر مکمل عبور رکھنے والے اجمل خٹک نے ادبی اورسیاسی کارناموں کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اجمل خٹک جدید پشتو ادب میں اپنے دیگر ہم عصر شاعروں، ادیبوں میں ایک منفرد اور جداگانہ علمی حیثیت کے مالک تھے ،انہوں نے پاکستان کے علاوہ افغانستان کے سینکڑوں شاعروں اور ادیبوں کی ذہنی اورادبی تربیت کی۔ اجمل خٹک کی ادب اور صحافت دونوں شعبوں میں اپنے نظرئیے کے ساتھ پوری وابستگی اور عقیدت ملتی ہے انہوں نے اپنی ساری زندگی پشتو زبان،ادب صحافت اور اپنی قوم کی ذہنی ترقی اور تعمیر کی خاطر ہرمل(کالا دانہ) کی طرح سلگائی اور اپنی انقلابی خو شبو سے پشتو ادب اور پختون قوم پرست سیاست کی فضاء کو معطر رکھا اس سلسلے میں انہیں اپنے صوبے کے کئی تھانوں اور ملک کے کئی  جیلوں میں ذہنی اور جسمانی تکالیف  اذیتوں اور  قیدوبند کی صعبتوں سے گزرنا پڑا  پندرہ سال تک جلاوطنی کی زندگی گزاری لیکن اس کے باوجود مرتے دم تک وہ اس بات کے قائل رہے کہ 
نیا ہے یا پرانا راستہ ہے 
یہ جیسا بھی ہے میرا راستہ ہے

 

 

وہ وزیرستان اور باجوڑ کے موجودہ حالات پر سخت پریشان رہتے تھے اور وہاں جاری سرگرمیوں کو امریکانوازی قرار دیتے تھے، وہ اپنے آپ کو سیاست دان کی بجائے شاعر 'ادیب کہلوانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے اور موجودہ دور کی سیاست کو سودا بازی کے نام سے موسوم کرتے تھے 


اجمل خٹک کثیرالجہت شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت پشتوکے ایک سربرآوردہ ترقی پسند شاعر ،ادیب اورصحافی بھی تھے اورایک ممتازسیاست دان اوردانشوربھی تھے اجمل خٹک بنیادی طورپرحقیقت پسنداورترقی پسندشاعروادیب تھے اوراس تحریک میں وہ فیض احمدفیض،ندیم قاسمی،فارغ بخاری،میرگل خان نصیر،شیخ ایازاوراس قبیل کے دیگرشعراء کے فکری ہم سفررہے ترقی پسندادبی تحریک سے وہ نہ صرف فکری اورنظریاتی طورپروابستہ رہیں بل کہ انہوں نے اپنی تمام ترزندگی اس تحریک کی بنیادی فکراورنظریے کے فروغ اوراشاعت میں گزاری اجمل خٹک کے لیے ترقی پسندانہ رویہ اورپیغام''حال''کا درجہ رکھتا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ان رویوں کے عملی اظہار کی متنوع صورتیں پیش کیں اورشایدپشتوکا کوئی دوسرا شاعرعملاً اس کی مثال پیش کرسکے

 

یہ 1943ء کا زمانہ تھا اجمل خٹک نے جو پہلے ہی سے خدائی خدمتگار تحریک اور باچا خان سے متاثر تھے سکول میں اس تحریک کی حمایت شروع کردی اور اپنے سکول میں خفیہ طور پر طالب علموں کے یونٹ کے انچارج مقرر کردیئے گئے ''ہندوستان چھوڑ دو '' کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے سے وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے نہیں بڑھاسکے ، 1943ء میں وہ محکمہ تعلیم میں 20روپے ماہوار پر ''معلم ''بھرتی ہوگئے


1925ء میں ایک عام کاشت کار حکمت خان کے ہاں اکوڑہ خٹک میں سات بہنوں کے بعد جنم لینے والے لاڈلے  اجمل خان نے ابتدائی دینی علوم  اپنے گائوں کی مسجد میں مولانا عبدالقیوم،مولانا عبدالحق اور قاضی محمد امین سے حاصل کیے، جب گھر میں ان کی پھوپی ''منفعتہ '' قرآن شریف اور پشتو کی دیگر منظوم کتابیں نورنامہ،جنگ نامہ اور قصے کہانیاں خوش آوازی اور ترنم میں پڑھتیں تو اجمل خان ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ان کا نام اپنے گائوں اور قبیلے کے اس وقت کے ''مشر''محمد زمان خان نے رکھا تھا 1935ء میں مسجد  سے گائوں کے سکول میں جماعت دوئم میں داخل کردیئے گئے بچپن ہی سے شکار کھیلنے کا شوق گائوں کے مشہور شکاریوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پیدا ہوا موسیقی سے لگائو حجروں میں روایتی موسیقی کی محفلوں میں باقاعدہ شرکت کرنے سے رہا خود بھی کئی مہینوں تک ستار اور رباب سیکھنے کا جنون پڑا تھا مگر بعدازاں دوستوں کے مشورے سے اپنے آپ کو صرف شاعری تک محدود کرلیا سکول سے فارغ ہوکر سیدھا گائوں سے دور دشت و صحرا میں جایا کرتے تھے اور وہاں کھلے ہوئے خودرو پھولوں کا اس  سوچ  کے ساتھ  نظارہ کیاکرتے تھے کہ اس دشت اور صحرا میں یہ رنگ بہ رنگ خوب صورت پھول کس نے بوئے ہیں؟اور اس کی پرورش اور نگہداشت کون کر رہا ہے؟گائوں کے علاوہ اردگرد علاقوں میں منعقدہ عوامی میلوں میں مداریوں کے قصے کہانیاں شوق سے سنتے تھے بچپن میں شعر کو موزون کرنے میں اجمل خٹک نے منظوم عوامی داستانوں سے کافی اثر قبول کیا ہے   جس وقت ان کے سکول میں اس وقت کے وزیر تعلیم ثمین جان خان بطور مہمان خصوصی آئے تھے تواجمل خٹک نے اس تقریب میں ایک ایسی نظم پڑھی تھی جس میں مہمان خصوصی سے منظوم مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان کے گائوں کے سکول کو ہائی کا درجہ دیا جائے جس پر انہیں خان بابا زمان خان نے پانچ روپے بطور انعام دیئے تھے۔اور جس وقت مزار خوشحال خان خٹک پر مشاعرہ منعقد کروانے کے لئے محمد زمان خان کی مسجد میں عبدالخالق خلیق 'سمندر خان سمندر 'عبدالحنان اور سید رسول رسا کا اجلاس ہورہا تھا تو اس اجلاس میں خان محمد زمان خان نے اپنی نظر کمزور ہونے کی وجہ سے اجمل خٹک کو اپنے اشعار سنانے کے لئے  دیئے جس سے اجمل خٹک کو اشعار پڑھنے کا بہت حوصلہ ملا اور جب اسلم خٹک کے لکھے  ہوئے ڈرامے ''دوینو جام'' پر مبنی کتاب اس نے سنی تو اپنے استاد میاں مشرف شاہ سے وہ کتاب پڑھنے کے لئے مانگی اور اپنے دوستوں اور حجرہ میں بیٹھے ہوئے بزرگوں کے سامنے اس کتاب کو پڑھتے تھے ان کی ادبی ذوق میں ''توبة النصوح '' نامی کتاب کے پشتو ترجمے نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سکول میں ہر ہفتہ منعقدہ ادبی محفل کے لئے پہلے انہیں اپنے استاد ''محمد آثم ''کچھ لکھ کر دیتے تھے بعد میں خود لکھتے رہے ۔آٹھویں جماعت میں ''بدمعاش ھلک (بدمعاش لڑکا) '' کے نام سے ایک چھوٹا سا ڈرامہ لکھا اور پیش کیا جس میں خود بھی مین کردار ادا کیا ۔ گھر میں ان کی بڑی بہن امر سلطان جب اونچی مترنم آواز میں ''پختون اخبار'' کی نظمیں اورغزلیں سناتی تو اجمل خٹک بھی ساتھ ساتھ بولتے تھے اور جس وقت  1938ء میں مزار خوشحال خان خٹک پر مشاعرہ منعقد ہوا تو اس مشاعرے میں جب پہلی بار اجمل خٹک اپنی نظم پڑھنے کے لئے سٹیج پر آئے تو اتنے چھوٹے تھے کہ انہیں کرسی پر کھڑے ہو کر اپنی نظم سنانی پڑھی ۔نظم پڑھنے کے دوران مشاعرے میں شریک اکثر لوگ چہ میگوئیاں کرتے رہے کہ یہ عبدالخالق خلیق کا بیٹا ہے اور یہ نظم انہوں نے اسے لکھ کر دی ہے چوںکہ ان کا اپنا گائوں خدائی خدمتگاروں کا مرکز تھا اور جب باچا خان ان کے حجرے میں آئے اور ان کی باتیں سنی تو اجمل خٹک ان کی باتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے  ان کے والد اس وقت بڑے خوش ہوئے جس وقت ان کے حجرے میں ایک شادی کے موقع پر قاضی شریف اللہ نے چھوٹے اجمل خان سے کہا کہ میرے ہاتھ میں موجود اس پرچے پر لکھا ہوا یہ نام کیا ہے اور اجمل خان نے فوراً کہا کہ ''انقلاب'' کیوںکہ وہ '' روزنامہ انقلاب '' تھا اس طرح لفظ ''انقلاب'' سے اس کی شناسائی بچپن سے ہوئی جو اس کے تحت الشعور میں جاگزیں ہوا ' بعد میں ان کے والد اپنے قابل اور ذہین بیٹے اجمل خان کے لئے دیوان خوشحال خان خٹک اور دیوان عبدالرحمان بابا لے آئے جس کے مطالعے سے اجمل خان کے اندر کا شاعر انگڑائیاں لینے لگا ۔ آٹھویں جماعت میں پورے صوبے کو ٹاپ کیا اور پشاور کے ہائی سکول نمبر ایک میں جونیئر سپیشل کلاس میں داخل کردیئے گئے ۔محکمہ تعلیم کی جانب سے ان کے لئے ماہوار چار روپے وظیفہ بھی مقرر کردیا گیا پشاور میں اجمل خٹک اور راج کپور ایک ہی سکول کے طالب علم تھے اس وقت راج کپور چھٹی جماعت میں  پڑھتے تھے دونوں کی دوستی ہوگئی چوںکہ اجمل خٹک ایک مانے ہوئے فٹ بال کے کھلاڑی تھے اور کوئی ٹورنامنٹ یا میچ ایسا نہیں رہا جس میں وہ ایک یا دو گول نہیں کیا کرتے تھے دیگر لڑکوں کی طرح راج کپور بھی اجمل خٹک کے ''ہیروپن '' سے متاثر تھے اپنی خوب صورتی کی وجہ سے سکول کے لڑکے جب راج کپور کوچھیڑتے تھے تو اجمل خٹک تمام لڑکوں کو وارننگ دیتے کہ اگر کسی نے میرے دوست راج کپور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو وہ اس کی ایسی کی تیسی کرلیں گے اس وجہ سے راج کپور کے والد اور اپنے زمانے کے سٹیج اور فلم کے معروف اداکار پرتھوی راج بھی اجمل خٹک کا اپنے بیٹے جیسا خیال رکھتے تھے اور جس وقت پورے متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ''ہندوستان چھوڑ دو'' کی تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک کی ہائی سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں نے بھی حمایت شروع کردی  ۔ یہ 1943ء کا زمانہ تھا اجمل خٹک نے جو پہلے ہی سے خدائی خدمتگار تحریک اور باچا خان سے متاثر تھے سکول میں اس تحریک کی حمایت شروع کردی اور اپنے سکول میں خفیہ طور پر طالب علموں کے یونٹ کے انچارج مقرر کردیئے گئے ''ہندوستان چھوڑ دو '' کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے سے وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے نہیں بڑھاسکے اور 1943ء میں ہی محکمہ تعلیم میں 20روپے ماہوار پر ''معلم ''بھرتی ہوگئے دوران معلمی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز 'منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کئے بعد میں ایف اے 'بی اے اور فارسی زبان میں ایم اے کیا ۔ ترقی پسند نظریات سے اس وقت واسطہ پڑا جس وقت انہیں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے  لئے اپنے ایک دوست  غلام محمد کے ساتھ پشاور جانا پڑا اور وہ اجمل خٹک کو اپنے ساتھ ایک بالاخانہ لے گئے جہاں ایک تنگ وتاریک اور گرد وآلود سے بھرے ہوئے کمرے میں ایک آدمی زمین پر دری بچھائے ہوئے بیٹھے تھے ان کے دوست غلام محمد نے اس آدمی سے کچھ خفیہ بات چیت کی اور وہاں سے جاتے وقت اس آدمی نے اجمل خٹک کو دو کتابیں بطور تحفہ دیئے جن میں ایک ''مشین اور انسان'' اور دوسری کتاب کا نام ''سرمایہ'' تھا ان کتابوں کے مطالعے نے اجمل خٹک کو مارکس ازم اور لینن ازم کی جانب ایسا راغب کیا کہ وہ پھر ایسی ہی کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے اس وقت انہوں نے اس آدمی کو نہیں  پہنچانا لیکن چالیس سال بعد جب کراچی کے ایک ہوٹل میں در نظامانی بلوچ اور علی احمد تالپور کے ساتھ اس آدمی کو دیکھا اورتعارف ہوا توپتہ چلا کہ وہ ہزارہ کے رہنے والے محمد حسین عطاء تھے جو اس وقت کمیونسٹ پارٹی پشاور کے سیکرٹری جنرل تھے اس کے علاوہ جب اجمل خٹک اپنے پھوپی زاد بھائی محمدعمر جو فتح پور کے ایک مدرسے میں پڑھتے تھے چھٹیوں میں ان کے ساتھ فتح پور گئے تو وہاں انجمن ترقی پسند مصنفین کے سجادظہیر 'عصمت چغتائی 'سعادت حسن منٹو 'پریم چند اور سرجیت سنگھ سے ملاقات ہوئی اور ان ادیبوں کے ساتھ کئی نشستوں میں بحث مباحثے سننے کا موقع ملا ۔ وہ کمیونسٹ پارٹی میں  شامل ہو کر مرکزی کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے تھے اس وقت اسے مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کہا جاتا تھا وہ اکثراس بات کااعتراف کیا کرتے تھے کہ افغانستان میں جلا وطنی کے دوران ان کے ساتھ بنگلہ دیش اور ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے  کافی مالی مدد کی تھی انہوں نے کئی کئی سالوں تک جیل کاٹی ۔ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوئے یہاں تک کہ قید کے دوران ''دا زہ پاگل اوم'' ( کیا میں پاگل تھا؟) جیسی کتاب بھی لکھی، اپنی معلمی کی ابتداء 1943ء میں زیارت کاکا صاحب کے سکول سے کی 1943ء تا 1948ء تک کبھی معلم اور کبھی بے روزگار اور ہر وقت خفیہ ایجنسیوں کے زیر عتاب رہے یکم اپریل 1948ء کو ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور سکرپٹ رائٹر ملازمت اختیار کی جہاں احمد ندیم قاسمی 'ن م راشد 'ناصر  انصاری 'احمد فراز اور خاطر غزنوی جیسے شعراء و ادباء کی رفاقت نصیب ہوئی ۔

 

دوران معلمی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز 'منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کئے بعد میں ایف اے 'بی اے اور فارسی زبان میں ایم اے کیا ۔ ترقی پسند نظریات سے اس وقت واسطہ پڑا جس وقت انہیں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے  لئے اپنے ایک دوست  غلام محمد کے ساتھ پشاور جانا پڑا 


1947ء میں پاکستان کا پشتو میں پہلا ملی ترانہ بھی انہوں نے لکھا جو اس وقت کے معروف گلوکار استاد سبز علی خان کی آواز میں نشر ہوا۔ہر وقت ان کے گھر پر پولیس کے چھاپوں کی ڈر سے  ان کی والدہ نے ان کی شاعری اور نثر کے بیشتر نمونے تندور میں پھینک کر جلا ڈالے ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ''دغیرت چغہ'' بھی ان کے دوستوں نے ادھر ادھر کی تلاش کے بعد یکجا کیا، جس ڈی ایس پی نے اجمل خٹک پر تشدد کرکے اس کا حال پاگلوں جیسا کیا تھا بعد میں اس ڈی ایس پی کو پشاور کے ایک بازار میں پاگل گھومتے پھرتے دیکھا انہوں نے اپریل 1953ء میں شادی کی اور ان کے پانچ بچوں میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں  اسی سال '' پختون لیگ ''کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بھی بنانے کے الزام میں چار مہینے پبی اور نظام پور کے تھانے میں قید رہے،اکتوبر 1953ء کو دس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا ہوئے لیکن دوبارہ ''تحفظ امن وعامہ '' کے تحت گرفتار ہو کر پشاور جیل میں چھ ماہ تک نظر بند رہے، وہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے جنرل سیکرٹری رہے، پشاور 'ڈیرہ اسماعیل خان 'ہری پور اور مچھ جیل میں کئی سالوں تک پابند سلاسل رہے،اپنے خون میں خوشحال خان خٹک 'سیاسی تربیت میں باچا خان اور ذہن کو جلا بخشنے میں کارل مارکس کا نام لیتے تھے، ریڈیو کی ملازمت سے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے فارغ کردیئے گئے 1956ء میں روزنامہ بانگ حرم کے ایڈیٹر رہے اور کئی سال تک مختلف اخبارات میں بطور ایڈیٹر کے فرائض سرانجام دیتے رہے ،وہ جب بھی اس واقعے کو بیان کرتے تھے تو سسکیاں لینا شروع کردیتے تھے جس وقت پولیس والے انہیں ہتھکڑیوں میں بندھا ہوا  اورمار پیٹ کر زخمی حالت میں اپنے گھر کی تلاشی لینے  کے لئے لائے اور سامنے چارپائی پر بیٹھی ہوئی ان کی والدہ نے اپنے لاڈلے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا تو پولیس والوں کو بد دعائیں دینے لگیں جس پر پولیس والوں نے اجمل خٹک کی آنکھوں کی سامنے ان کی والدہ کو بالوں سے پکڑ کر چارپائی سے نیچے گرایا اور زمین پر گھیسٹتے رہے، 1973ء میں لیاقت باغ فائرنگ کیس کا واقعہ پیش آیا تو نواب محمد اکبر خان بگٹی کے گھر کوئٹہ میں نواب خیربخش مری 'غوث بخش بزنجو 'اکبر خان 'عطاء اللہ مینگل 'اور ولی خان کے مشورے اور کہنے پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انہیں قریبی دوست ''تور لالے'' نے بڑی مشکل راستوں سے قبائلی راستے سے  افغانستان تک پہنچایا جہاں پندرہ سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1988ء میں پاکستان آئے اور 1990ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر اور پارٹی کے مرکزی صدر اور سینٹ کے ممبر بھی رہے،اکتوبر 1999ء میں نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ان سے ملاقات کی اور صدارت کاعہدہ پیش کیا اس ملاقات سے عوامی نیشنل پارٹی اور اجمل خٹک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئیں جس پر انہوں نے اے این پی چھوڑ کر ''اپنا کچکول اور رباب '' بجانے کا فیصلہ کرتے ہوئے دوبارہ نیشنل عوامی پارٹی پاکستان کے نام سے الگ جماعت بنائی تاہم چند سالوں کے بعد دوبارہ اے این پی میں شامل ہوگئے اور مرتے دم تک اسی پارٹی سے وابستہ رہے 
افغانستان میں جلا وطنی کے دوران انڈیا کی بے شمار فلمیں دیکھیں جن میں رامائن پر بننے والی اٹھارہ کیسٹوں پر مشتمل فلم بھی شامل  تھا فارغ وقت میں ان کامحبوب مشغلہ مطالعہ اور لکھنا تھا کئی سالوں سے  روزانہ ڈائری لکھتے رہے، ان کا پسندیدہ شہر ''پراگ (چیکو سلواکیہ ) '' تھا،وہ افغانستان 'روس اور مشرقی یورپ کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی رہے اور وہاں مختلف سیمینارز میں مقالوں اور تقاریر کے ذریعے اپنے افکار پیش کئے ۔ وہ اس وقت  بیس کے قریب کتابوں کے مصنف تھے تاہم ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ''د غیرت چغہ'' نے پختونوں کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا جس کی بازگشت آج بھی پشتو کی جدید شاعری میں سنی اور محسوس کی جاتی ہے ان کی اس کتاب کو جدید پشتو ادب اور پختون نیشنل ازم میں لوگ کارل مارکس  کی کتاب ''داس کیپٹال '' سے مماثلت دیتے ہیں ۔ اردو 'انگریزی 'روسی 'ہندی 'فارسی 'جرمنی 'عربی پر اچھا خاصا عبور رکھتے تھے انہوں نے پہلی فلم ''طوفان میل '' دیکھی ان کے پسندیدہ اداکاروں میں امیتابھ بچن ' امجد خان ' شبانہ اعظمی 'نصیر الدین شاہ شامل تھے، شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی کے ساتھ ان کی اچھی خاصی دوستی بھی رہی کابل میں نصیرالدین شاہ سے تفصیلی ملاقات کی تھی اور مرزا غالب پر بننے والی فلم میں ان کے کردار کو بہت سراہا تھا،انہیں  گلوکاروں میں احمد خان 'گلنار بیگم اور زرسانگہ جب کہ پسندیدہ شاعروں میں ساحر لدھیانوی 'قلندر مومند اور سیاسی شخصیات میں باچا خان کے سخت پیروکار اور عقیدت مند رہے جب کہ  پسندیدہ کتابوں میں جوش ملیح آبادی کی کتاب ''یادوں کی بارات'' تھی
اپنی بے پناہ سیاسی ادبی مصروفیات کی وجہ سے کسی خاص ترتیب سے زندگی نہیں گزارسکے بنگلہ دیش کے ادیب قوی جسیم الدین کے لئے ایک فلم کی کہانی بھی دس ہزار روپے کے عوض لکھی تھی جس میں یہ سوال اٹھایا گیاتھا کہ سب لوگ تو حسن کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن خود حسن کس کی تلاش میں ہے؟ وہ حسن کو ''موضوعی '' نہیں بل کہ ''معروضی ''اور تمام فنون کو انسانی ذہن کی پیداوار سمجھتے تھے، 

وہ ملک کی موجودہ سیاست اور سیاست دانوں کے کردار سے قطعاً مطمئن نہیں تھے مارکس ازم اور لینن ازم بھی ان کے اندر پختو ن ولی اور اسلام کو بدل نہیں سکے دوران جلا وطنی عید کی نماز چیکو سلواکیہ کے ایک بہت بڑے گرجاگھر میں اکیلے پڑھی وہ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ شاعرادیب کسی ایک سیاسی سٹیج پر ایک مخصوص نظریے اور پارٹی منشور کے لئے ترانے لکھے وہ خود بھی اعتراف کیاکرتے تھے کہ انہیں کئی بار غنی خان اور سیدتقویم الحق کا کا خیل نے سیاسی سٹیج پر نظمیں کہنے سے منع کیا تھا لیکن وہ یہ خطا کر بیٹھے، وہ بحیثیت شاعر ادیب اور صحافی ساری عمر سیاست کے خارزار میں گزار کر اب پچھتاوا محسوس کررہے تھے ،وہ خوشحال خان خٹک کو رول ماڈل قرار دیتے تھے وہ کہا کرتے تھیکہ جو لوگ امریکا سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ شہزادہ بہرام کی طرح اپنی آغوش میں اس خطے کے لئے ایک ''گل اندامہ'' (پری) لارہا ہے وہ جان لیں کہ امریکا کی آغوش میں چھپی ہوئی ''پری ''نہیں بل کہ ایک خونی ''بلا'' ہے،وہ ایسے ادب اور آرٹ کے طرف دارتھے جوزندگی میں حرکت 'سماج میںتغیر اور لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب برپا کردے ان کے خیال میں ہندوستان اور پاکستان کے کمیونسٹ مارکس ازم کو اپنے معاشرے کے اصل بنیادی سانچوں میں  ڈھالنے میں ناکام ہوئے اور مارکس ازم کو انسانی تمدن اور انسانی معاشرے کے فطری ارتقاء اور رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بڑی کوتاہی کے مرتکب ہوئے وہ یہ بھی کہاکرتے تھے  کہ اگر سابق صدر پرویزمشرف کے کہنے پر پاکستانی صدارت قبول کرلیتے تو ہزاروں لوگ انہیں سلام کرتے، وہ اپنے آپ کو ایک کامیاب شاعر اور ایک ناکام سیاستدان سمجھتے تھے جواس ملک کی موجودہ سیاست کی چوکاٹھ میں سمانہیں سکے تھے  سیاست کی بجائے اگر صرف افغان وار میں کسی انگریز صحافی یا نیوز ایجنسی کے لئے بطور ترجمان کام کرتے تو ہزاروں ڈالر کما سکتے تھے ،وہ وزیرستان اور باجوڑ کے موجودہ حالات پر سخت مضطرب اور پریشان رہتے تھے اور وہاں جاری سرگرمیوں کو امریکانوازی قرار دیتے تھے، وہ اپنے آپ کو سیاست دان کی بجائے شاعر 'ادیب کہلوانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے اور موجودہ دور کی سیاست کو سودا بازی کے نام سے موسوم کرتے تھے ان کی خواہش تھی کہ تمام پختون ان کی زندگی میں باہم متحد اور یکجا ہو کر  اپنے قومی حقوق حاصل کریں ،اجمل خٹک کی ذات کئی ادبی 'صحافتی اور سیاسی خصوصیات کی حامل رہی ان کے کئی ادبی اور سیاسی حوالے ہیں اور ہر حوالہ ان کی شخصیت کا ضامن اور محافظ رہے گا وہ بھی اپنے پردادا خوش حال خان خٹک کی طرح آخری دم تک اس بات کے آرزومند رہے                        
کہ توفیق د اتفاق پختانہ مومی
زوڑ خوش حال بہ دوبارہ شی پہ دا زوان
(اگر پختونوں میں اتفاق پیدا ہوجائے تو پیرانہ سال خوش حال خان دوبارہ جوان ہوجائیں گے )
مگرافسوس کہ ان کی یہ آرزوان کے جیتے جی پوری نہ ہوسکی اور سات فروری2010ء کو85سال کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔تاہم آج ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں وہی رونا روتی ہیں جس کا اظہار اجمل خٹک نے آج سے چالیس سال کیا تھا کہ
نن ٹول عالم د ھغہ محبوبا سندرے وائی
خٹک چہ بہ د زان سرہ جڑلہ کلہ کلہ