جدوجہد کا دوسرا نام عبدالرحمن خان 

جدوجہد کا دوسرا نام عبدالرحمن خان 

وفا  اور ایثار کا پیکر، حوصلے کا بے مثل نمونہ، باچاخان اور ولی خان کا پتنگ عبدالارحمن لالا چلے گئے

عزیز بونیری


کچھ لوگ دنیا میں جیسے امتحانات اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ مشکلات اور امتحانات کا سامنا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ صرف وہی لوگ مشکلات اور مصائب کا بخوبی مقابلہ کرسکتے ہیں جن کے اندر فطری حوصلہ اور برداشت ہو۔ ہم جس شخصیت کی بات کر رہے ہیں ان میں نہ صرف صبر کی قوت تھی بلکہ وہ فخر افغان باچاخان کے نظریہ عدم تشدد کے پیکر تھے۔ وہ ولی خان کی سیاست کے دلدادہ تھے اور خدائی خدمتگار سیاست کے طالبعلم تھے۔ ان پر زندگی میں جو قیامت ٹوٹی اس کے جھیلنے کے لئے پہاڑ جیسا دل او سمندر جیسا حوصلہ چاہئے۔ لیکن وہ اس امتحان کو  تین عشرو ں سے زیادہ عرصے کے لئے خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ ہم بات کر رہے ہیں صوابی کے گاوں زیدہ کے عبدالرحمن لالا کی۔ عبدالرحمن لالا بدھ کے روز  مختصر علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ عبدالرحمن پچھلے پینتیس سال سے ویل چیئر پر تھے۔ عبدالرحمن لالا کوئی چھوٹاآدمی نہیں بلکہ صوابی کے مشہور سیاستدان، خدائی خدمتگار او ر فخر افغان باچاخان کے دیرینہ اور  قریبی ساتھی عبدالعزیز خان المعروف خان کاکا کے اکلوتے پوتے تھے۔

 

باچاخان کی محبت، ولی خان سے پیار اور خدائی خدمتگاری عبدالرحمن لالا کو خون میں ملا تھا اور انہوں نے مرتے دم تک باچاخان اور قومپرست سیاست سے اپنا ناطہ جوڑے رکھا۔ عبدالرحمن لالا ابھی جوان تھے کہ گھر والوں نے ان کو تعلیم کے لئے کراچی بھیج دیا۔ وہاں انہوں نے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کو جوائن  کر لیا اور اپنی قابلیت اور سمجھ بوج کی بنا پر مختصر عرصے میں پی ایس ایف سندھ کے صدر بن گئے۔ مرحوم انتہائی قابل، زیرک اور متحرک تھے۔ ان پر نہ صرف فیڈریشن کے ساتھیوں کا بھرپور اعتماد تھا بلکہ پارٹی قیادت کے بھی قریب تھے۔ ولی خان کو ان سے خاص انسیت تھی۔ انہوں نے پی ایس ایف کو مضبوط کیا۔ بدقسمتی سے ایک دن کراچی میں ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوگئی جس کے نتیجے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ یہ کسی سانحے سے کم نہ تھا، نہ پی ایس ایف کے لئے اور نہ پارٹی کے لئے۔ یہ ایک نقصان تھا جس کا ازالہ مشکل تھا۔ انتہائی خوش اخلاق، خوش شکل اور نوجوان انسان اچانک ایک ہی حادثے میں اپنے آدھے بدن سے محروم ہوگئے۔ ایسے میں انسان کے خواب تو کیا زندگی جینے کا حوصلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔لیکن مرحوم عبدالرحمن لالا تو باچاخان کے پیروکار تھے، عدم تشدد کے روادار اور خدائی خدمتگار تحریک کے سپاہی تھے۔ اس لئے انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ انہوں نے جینے کا قصد کیا۔ صرف جینا نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی جینے کا حوصلہ بنے۔ انہوں نے دراصل لوگوں کو سکھایا کہ خوا ہ وقت کتنا ہی کٹھن اور امتحان کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو لیکن اگر انسان جینے کی ٹھان لے تو وہ نہ صرف زندہ رہ سکتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی مثال بن سکتا ہے۔  

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن سنھ کے سابق صدر سید عمر علی شاہ ایڈو کیٹ کے مطابق سال  1989 میں عبد الرحمن خان پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن سندھ کے صوبائی صدر تھے 5 فروری 1989 کو پی ایس ایف کے مرکزی صدر ساجد ترین ایک روزہ دورے پر کوئٹہ سے کراچی تشریف لائے تھے  6 فروری 1989 کو چار بجے عصر ویلہ انکی سیٹ کراچی سے کوئٹہ کیلئے کنفرم تھی میں ان دنوں پختون سٹوڈنٹس فیڈ ریشن کے سینٹرل کمیٹی کا رکن تھا اس لئے میں اوور عبد الرحمن خان اپنے مرکزی صدر ساجد ترین کو ایئر پورٹ چھوڑنے جارہے تھے چونکہ انکے کپڑے وغیرہ ہاسٹل گلشن اقبال میں پڑے ہوئے اس لئے میں اور عبد الرحمن خان اور ساجد ترین پارٹی میٹنگ میں شرکت کے بعد طارق روڈ سے کینسیا ہاسٹل گلشن اقبال کیلئے کریم مندو خیل جو کہ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی لیڈر تھے کے پیجارو گاڑی میں روانہ ہوئے کہ کینسیا ہاسٹل سے ساجد ترین کا بیگ اٹھاکر ایئر پورٹ کیلئے نکلے جیسے ہی ہم مذکورہ گاڑی میں ہاسٹل کے گیٹ پر پہنچ تو ہماری گاڑی پر انتہائی قریب سے چار سے پانچ افراد نقاب پوشوں نے بذریعہ کلاشنکوف فائرنگ شروع کردی اس وقت میں اور عبدالرحمن خان گاڑی کے پچھلے سیٹ پر جبکہ ساجد ترین فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے اور کریم مندوخیل ڈرائیونگ کررہے تھے جب فائرنگ تھوڑی سی تھم گئی تو عبد الرحمن نے مجھے بتایا کہ فائرنگ سے لگ چکا ہوں اور میرے پیر کام نہیں کررہے ہیں میں عبدالرحمن خان کو بمشکل گاڑی سے نیچے اتار اہاسٹل کے گیٹ کیساتھ زمین پر ڈال دیا تو دیکھا کہ ہمارے مرکزی جوائنٹ سیکرٹی حمید کاسی بھی انتہائی زخمی حالت میں زمین پر پڑا ہوا ہے ،حمید کاسی ہمارے ساتھ گاڑی میں موجود نہیں تھا لیکن مسکن سے گزرتے ہوئے کئی انہوں نے ہمیں دیکھا تھا اور وہ موٹرسائیکل پر ہمارے پیچھے آرہا تھا اور جب ہماری گاڑی پر دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کی تو انہوں نے اپنا پستول نکالکر دہشت گردوں پر فائرنگ کی اسلئے انکوں بھی نشانہ بنایا گیا ،ہمارے ایک دوست خالق سومرو جو کہ جئے سندھ کا ساتھی تھا نے بھی ہاسٹل کے چھت ستے دہشت گردوں پر فائرنگ کی اور وہ بھاگ گئے ورنہ اگر خالق سومرو ایسا نہیں کرتا تو آج میں ساجد ترین اور کریم مندوخیل بھی زندہ نہیں ہوتے ہاسٹل میں موجود سارے ساتھی جمع ہوگئے بمشکل دونوں زخمیوں کو ہاسٹل میں موجود ایک ساتھی ڈبل کیبین گاڑی میں ڈالکر آغاخان ہسپتال لیں گئے اور پھر وہاں سے میں گلچن اقبال تھانہ جرک وقوع کے نسبت رپورٹ درج کی واقع کی اطلاع لوگوں تک کافی دیر سے پہنچی کیونکہ ان دنوں موبائل فون یا سوشل میڈیا دستیاب نہیں تھا بحر حال کراچی یونیورسٹی ،این ای ڈی یونیورسٹی اور داود انجینئرنگ کالج کے دوست ہسپتال پہنچ گئے خون کیاشد ضرورت تھی ساتھیوں نے خون کے عطیات پیش کیئے علاج معالجہ شروع ہوا ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ سات فروری 1989 کو آل پختون اتحا کے سربراہ گل زرین نے پوری کراچی میں ہڑتال کا اعلان پہلے سے کیا ہوا تھا مذکورہ شخص اور آل پختون اتحا انتظامیہ کے ہوتے اور یہ واقع بھی انتظامیہ کے ایماء پر مذکورہ ہڑتال کا کامیاب بنانے کیلئے اور دہشت پھیلانے کیلئے رونما کیا گیا تھا اس لئے انتظامیہ اور آل پختون اتحاد کی سات فروری والا پڑتال انتہائی کامیاب ہوگیا چار ماہ تک عبد الرحمن خان اور حمید کاسی آغا خان ہسپتال میں زیر علاج رہے حمید کاسی کا خاندان دولت کے لحاظ سے بہتر تھے اس لئے اسکا خرچہ تو انہوں نے بذات خود اٹھایا تاہم ہمارے ساتھ خرچہ آدا کرنے کی رقم نہیں تھی جو تقریبا اس وقت ایک کروڑ سے سے زائد تھی اور پھر سنیٹر منظور گچکی مہربان ہوئے اور انہوں نے ہسپتال کا بل ادا کردیا ،عبدالرحمن خان کے والد محترم ،چچا اور دیگر رشتہ دار ہسپتال پہنچ چکے تھے اور خدائی خدمتگار وحید اللہ کاکا جو کہ سبزی منڈی میں رہائش پذیر تھے ہر شام اپنے گھر سے ہمارے لئے روٹی اور چائے لایا کرتا تھا کافی عرصہ بعد غلاعم احمد بلور ،عبدالرحمن خان اور حمید کاسی کے بیمار پرسی کیلئے آغاخان ہسپتال آئے اور پھر ولی خان اور اجمل خٹک بھی انکے بعد بیمار پرسی کیلئے آغان خان ہسپتال تشریف لائے تھے ،عبدالرحمن خان اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا نہ انکا کوئی تھا اور نہ بہن تھی ،عبدالرحمن اس دلخراش واقعہ میں سپینل کارڈ  ریڑھ کی ہڈی زخمی ہونے کیوجہ سے وہ ناپ کے نیچے معذور ہوچکا تھا ،اور ہمارا صحت مند  دوست عبدالرحمن گزشتہ 34 سال سے ویل چیئر پر رہا مگر پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آخری سانس تک وہ سیاسی سرگرمیوں میں پیش پیش رہا ،اس طرح سترہ فروری 2023 کو خدائی خدمتگار عبد العزیز خان کاکا کے آخری نشانی بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ،عبد الرحمن نے وئیل چیئر پر بھی عوامی نیشنل پارٹی میں تادم مرگ اپنی جدوجہد جاری رکھی ،انکے نماز جنازے میں پختون سٹو ڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر اور عوامی نیشنل پارٹی کے موجودہ مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین ،صوبائی جنرل سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی سردار حسین بابک،پی ایس ایف کے سابق مرکزی جنرل سیکرٹری خورشید علی خان ،پختون ایس ایف سندھ کے سابق صدور سعید خان خلیل ،سید عمر علی شاہ ایڈوکیٹ ،محمدپرویزخان ایڈوکیٹ ،صوبائی جنرل سیکرٹری پی ایس ایف سندھ عثمان خٹک ،حامد بنگش،ربنواز خان محسود ،خالد خان ،اور فضل امین کے علاوہ دیگر ساتھیواور پارٹٰ کے اراکین نے بڑی تعداد میں شرکت کی اس موقع پر عبالرحمن کے سیاسی جدوجہد پر سابق ممبر صوبائی اسمبلی سلیم خان ایڈوکیٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے اپنی خیالات کا اظہار کیا ۔

معروف سیاستدان، وکیل او ر خدائی خدمتگار سلیم خان ایڈوکیٹ المعروف سلیم لالا مرحوم عبدالرحمن کے بارے میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ بے مثل انسان تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کوئی چھوٹا آدمی نہیں بلکہ عظیم خدائی خدمتگار اور باچاخان بابا کے قریبی ساتھ عبدالعزیز خان المعروف خان کاکا کے اکلوتے پوتے تھے۔ خان کا کا کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ ضلع صوابی کے تاریخی گاوں زیدہ کے بہت بڑے خان اور صاحب جائیداد انسان تھے۔خان کاکا پختونوں، باچاخان اور خدائی خدمتگار تحریک پر اتنے عاشق تھے کہ انہوں نے اپنی جائیدادیں اس تحریک کے لئے قربان کر دیں اور اٹھارہ سال تک جیلوں میں رہے۔ان کے دو بیٹے تھے یعنی عبدالمالک اور عبدالمطلب۔ عبدالرحمن ، عبدالمالک کے بیٹے اور خان کاکا کے اکلوتے پوتے تھے۔خان کاکا انے اتنی زیادہ قربانیاں اپنے لوگوں اور تحریک کے لئے دی تھیں کہ آخر میں ان کے بڑے بیٹے کا چائے کا دکان اور چھوٹے کا مکینک کا دکان تھا۔خان کاکا وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے انگریز دور یعنی  انیس سو چھتیس میں صاحبزادہ عبدالقیوم خان کو نہ صرف شکست سے دوچار کیا تھا بلکہ ان کی ضمانت بھ ضبط کی تھی۔ اسی طرح دس سال بعد یعنی انیس چھیالیس میں بھی اپنی نشست بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے۔ ان کی مقبولیت عوام میں بہت زیادہ تھی اور لوگ ان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔

خان کاکا ایک طویل اور بھرپور سیاسی زندگی گزارنے کے بعد انیس سو ستاسی میں وفات پائے تھے۔ تو یہ عبدالرحمن انہی خان کے کے پوتے تھے۔ خان کاکا عبدالرحمن کو اپنے ساتھ ھر جگہ لے کر جاتے تھے اور اسی طرح عبدالرحمن میں سیاست پیدائشی طور پر موجود تھی۔بھری جوانی میں عبدالرحمن کے ساتھ ایک اتنہائی اندوہناک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ وہ سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خدمت بھی کرتے رہے۔انہوں نے پینتس سال اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں بتائے اور کبھی کسی سے اپنا دکھ شریک نہیں کیا۔ انہوں نے کسی سے نہ کچھ مانگا اور نہ کبھی شکایت کی۔ پارٹی کی حکومت میں بھی انہوں نے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا۔ وہ دوسروں کے لئے زندگی گزارنے کا ہنر جان چکے تھے۔میرے خیال میں ان کی جدوجہد نہ صرف مثالی ہے بلکہ بے مثال ہے۔میرے اپنی پارٹی کے اکابرین اور خاص کر ملی مشر اور مرکزی صدر محترم اسفندیار ولی خان سے اپیل ہے کہ مرحوم عبدالرحمن کی یاد میں باچاخان مرکز میں ایک بڑے پروگرام کا انعقاد کریں اور ان کو ایوارڈ سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجھد کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جائے اور ان کی ماں کو ایوارڈ دیا جائے جس سے ان کی تسلی ہوجائے گی۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی کلچر سیکرٹری اور دانشور ڈاکٹر خادم حسین مرحوم عبدالرحمن کے بارے میں ''عبدالرحمان: میرا دوست، میرا کامریڈ ''کے سرخط کے نیچے لکھتے ہیں کہ۔۔۔
یقین نہیں آتا کہ ہمارا ساتھی، کامریڈ اور ہمراہی عبد الرحمان ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگیا ہے۔ عبد الرحمان آف زیدہ صوابی کے ساتھ میرا ایک لمبے عرصے سے چاہت و محبت کا رشتہ تھا۔ یہ چاہت اس تحریک کی دین تھی جنکو باچا خان اور عبد الرحمان کے دادا عبد العزیز خان نے اپنے خون سے سینچا تھا۔ عدم تشدد، روشن فکری، قومی مساوات، پختونوں کا اتحاد اور سماجی انصاف اس تحریک کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ عبد الرحمان کو میں نے انہی خصوصیات کی مجسم شکل میں دیکھا ہے۔ جب بھی وہ اے این پی کے صوبائی کونسل کے اجلاس یا پھر پارٹی کے پروگرام کیلئے باچا خان مرکز آ تھے تو ڈھیر ساری تحریکی محبتوں کو ساتھ لیکر آتے تھے۔ کونسل کے ہر اجلاس میں انکی ٹھوس تجاویز اور پختہ فکر سے پورا ہاؤس تالیوں سے گونج اٹھتا تھا۔ میں نے ہمیشہ عبد الرحمان کو پارٹی کے تمام عہدیداروں اور باالخصوص ولی باغ کیلئے لامتناہی احترام کرتے دیکھا ہے۔ 

عبد الرحمان تحریک کے ساتھ سو سالہ وفا کا زندہ ثبوت تھا۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے عبد الرحمان نے پاپولزم، نفرت انگیزی، شدت پسندی، نیو لبرل سرمایہ داری، سیاست کا کاروبار بننے اور سیاسی نظریات کی پسپائی کے اس دور میں ٹھوس اور گہرے سیاسی کام کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دی۔ اس نے باچا خان کی خدائی خدمتگار تحریک کے تسلسل کے نظریے کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ میں نے جب بھی اسکو اپنے گاوں کے حجرے میں، کسی سیاسی جلسے میں اور یا پھر کسی اجلاس میں دیکھا، اسکو ایک ہی دھن میں مگن پایا۔ اسکا دھن نظریہ کی پرچار، عوام تک پارٹی کا پیغام پہنچانے کا جنون اور تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کیلئے ان تھک تگ و دو تھا۔ 

ایک ایسے دور میں جب بین الاقوامی ایسٹیبلشمنٹ، ریاستی ایسٹیبلشمنٹ، پاپولزم اور شدت پسندی سیاست کو خدمت سمجھنے والے کارکنوں  کو مایوسی اور تھکاوٹ کے اندھے غار میں دھکیلتے جا رہے ہیں عبدالرحمان ایک غیر متزلزل سیاسی نظریے کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا تھا۔ جسمانی معذوری کے باوجود میں نے کبھی بھی عبدالرحمان کی زبان سے مایوسی اور تھکاوٹ کا ایک لفظ تک نہیں سنا۔ باچا خان کی روشن فکر تحریک کی گہرائی و گیرائی کی بدولت پختونخوا کے ہر علاقے میں آپکو ایسے لوگ کثیر تعداد میں ملیں گے جو فکر و نظریے اور خدمت کی سیاست کی مجسم شکل ہوتے ہیں، عبد الرحمان ان میں بھی ایک بڑے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسکو فطرت نے نے ایسا متعدی حوصلہ عطا کیا تھا کہ آس پاس سب لوگ اس سے متاثر ہوتے تھے۔ وہ سیاسی کارکنان کیلئے لق و دق صحرا میں شجر سایہ دار کا کام کرتا تھا۔ عبد الرحمان کو میں نے کبھی بھی صرف اپنے اجداد کے نام پر اپنے لئے کوئی مقام حاصل کرنے کا خواہشمند نہیں پایا۔ اس نے سیاسی میدان میں اپنے بے لوث کام اور قابل تقلید حوصلہ مندی سے اپنے لئے ایک بڑا مقام حاصل کرلیا تھا۔ قربانی کا یہ حال کہ پختون ایس ایف کراچی کے صدر کی حیثیت سے نہ صرف وہاں تحریک کیلئے نوجوان طالب علموں کی پوری کھیپ تیار کرلی بلکہ ٹارگٹ کلنگ کے حملے کے بھی شکار ہوئے۔ اس قربانی کو کبھی بھی کسی مالی یا سیاسی حیثیت کے حصول کیلئے استعمال نہیں کیا۔ 

 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مشال خان کو وحشت و بربریت نے شہید کیا تو اسکے گاوں میں مشال خان کی سوئم پر مختلف الخیال لوگوں کا اجتماع اور پھر بازار میں ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا گیا۔ وہ پورا دن عبد الرحمان اپنے وہیل چئیر پر ہمارے ساتھ اجتماع میں بھی شریک ہوا اور بازار میں احتجاجی جلسے اور جلوس میں بھی شریک رہا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کئی بار کہا بھی کہ ایک جگہ رک کر جلوس کے واپس آنے کا انتظار کرلو لیکن وہ ہنس کر ٹالتا رہا۔ 

 

عبد الرحمان کی زندگی اور جدوجہد کو دیکھ کر مجھے فیض صاحب کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں:
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے 
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے 
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں 
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے 
دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے 
اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے 
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے 
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے