پولیس لائنز پر خود کش حملے کے بعد بے چینی

پولیس لائنز پر خود کش حملے کے بعد بے چینی


شمیم شاہد

 پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مرکزی انتظامی شہر پشاور کے پولیس لائنز میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد نہ صرف عام لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں بلکہ پولیس اہلکاروں نے بھی بدھ کے روز سڑک پر آکر اپنے تحفظ کا اور ہرقسم کی گاڑیوں کی بلا تفریق تلاشی لینے کے اختیارات کا مطالبہ کر دیا۔ مظاہرہ کرنے والے باوردی پولیس اہلکاروں نے بھی'' یہ جو نامعلوم ہے وہ ہمیں معلوم ہے '' کا وہی نعرہ لگا دیا جو اب تک دیگر حلقوں کی طرف سے لگایا جاتا تھایہ نعرہ کئی برس قبل مختلف مترقی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں بالخصوص پشتون تحفظ تحریک کے رہنماوں اور کارکنوں نے لگایا تھا۔ پولیس اہلکاروں میں پشاور پولیس لائنز کے جامع مسجد میں نماز ظہر کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کے بارے خیبر پختونخوا سپیشل برانچ پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے ایک روز قبل ایک اعلامیہ میں بتایا تھا کہ پشاور کے علاوہ نوشہرہ ، بنوں اور دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی پولیس اہلکاروں نے سڑکوں پر آکر اپنی حفاظت اور اختیارات کے حق میں نعرے بلند کئے ہیں۔ پشاور پریس کلب کے سامنے بدھ کے دن سہ پہر درجنوں پولیس اہلکاروں نے جمع ہو کر مظاہرہ کیا ۔ اس دوران متعدد افسران بھی مظاہرین سے فاصلے پر کھڑے رہے تھے تاہم نہ تو انہوں نے مظاہرے میں حصہ لیا اور نہ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی ، پریس کلب پشاور کے سامنے جمع ہونے والے پولیس اہلکاروں میں بہت سے با وردی اہلکار بھی شامل تھے وہ پولیس لائنز میںہونے والے خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے نہ صرف حکومت سے اپنی تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے بلکہ وہ اپنے لئے سرکاری عمارات میں داخل ہونے اور چیک پوسٹوں سے گزرنے والی تمام سرکاری اور نجی گاڑیوں کی مکمل تلاشی لینے کا بھی مطالبہ کر رہے تھے ۔ ایک روز قبل پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس چیف اعجاز خان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ خود کش حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں سوار ہوکر پولیس لائنز کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوا ہے ۔ تاہم انکے بقول اس سلسلے میں تحقیقات کے تکمیل پر حتمی رائے قائم کی جا سکے گی ۔مظاہرہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی برسوں سے صرف پولیس کیوں نشانے پر ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ۔مظاہرین میں موجود پشاور کے سینئر وکیل ہاشم رضا نے وائس اف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ پاکستان کی عدلیہ سمیت تمام تر ریاستی ادارے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں لہذا اس قسم کے واقعات کی تحقیقات اب بین الاقوامی اداروں بالخصوص عالمی ادارہ برائے انصاف یا انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس سے ہونی چاہیے ۔ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کی تاریخ میں پہلی بار پولیس کا احتجاج ہوا جس میں جونیئررینک کے پولیس اہلکاروں نے پشاور دھماکے کے خلاف امن چوک میں نعرے لگائے اور شدید الفاظ میں مذمت کی، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ۔ مظاہرین میں شامل اہلکاروں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ پشاور پولیس لائن دھماکے میں ہمارے ایک سو دس جوان شہید اور ایک سو ستاون زخمی ہوئے ہیں اور وہ اب مزید اس قسم کے واقعات کو برداشت نہیں کرسکتے ۔ مظاہرین نے اس واقعے کی تحقیقات کرنے کا بھی مطالبہ کیاہے ۔ مظاہرین نے پولیس کی ٹارگٹ کلنگ بند کرنے اور انکے بچوں سے سر کا سایہ نہ چھیننے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی نسل کشی بند کی جائے۔ ادھر سوموار کے روزہونے والے واقع کے بعد پولیس لائنز پشاور میں دو دن کے وقفے کے بعد معمول کی سرکاری سرگرمیاں بدھ کے روز سے شروع ھوگئیں ۔ منہدم ہونے والی مسجد کے ایک بیرونی ہال اور میدان کو نمازیوں کے لئے کھول دیا گیا ہے جبکہ اس موقع پر نماز ظہر بھی باجماعت ادا کی گئی جس میں اہلکاروں کے علاوہ افسران نے بھی شرکت کی۔