
باچاخان، ولی خان کے افکار اور اکیسویں صدی
عزیز بونیرے
فخر افغان باچاخان اور خان عبدالولی خان کی برسیوں کے حوالے سے منعقدہ پروگراموں کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں دو روزہ سیمینار کا انعقاد ہوا۔ اس سیمینار کا عنوان '' باچاخان، ولی خان اور ایکسویں صدی''تھا۔ ایک طرف اگر یہ دونوں شخصیات تاریخی اہمیت کی حامل ہیں تو دوسری جانب یہ سیمینار بذات خود ایک تاریخ رقم کرگئی ہے کیو نکہ پچھلے 75برس میں باچاخان او ولی خان کی زندگیوں پر ملک کے دارلخلافہ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیمینار ہے۔ باچاخان اور ولی خان کو ان کے سیاسی نظریات او رجدوجہد کی وجہ سے ساری دنیا جانتی ہے تاہم بدقسمتی سے اپنے ملک میں ان کو ہمیشہ غدار کہہ کر پکارا گیا ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان پر ملک دشمنی کے بھی الزامات لگائے گئے اور غدار بھی پکارا گیا۔ تاہم اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ نہ صرف ان کی جدجہد سے آگاہ ہورہے ہیں بلکہ ان کی اس ملک، آئین اور پارلیمانی نظام کے لئے کوششوں سے بھی آگاہ ہورہے ہیں۔ کانفرنس کی میزبانی عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا نے کی، کانفرنس میں ملک بھر سے سیاسی قائدین، صحافیوں، دانشوروں اور سیاسی و سماجی حقوق کے کارکنان اور مختلف مکتبہ فکر کے نمائندگان نے شرکت کی۔ کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے صوبائی جنرل سیکرٹری سردارحسین بابک نے مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کیں جو تمام شرکا نے متفقہ طور پر منظور کرلیں۔
قراردادیں
1)پختونخوا کی سیکیورٹی کو فوری طور پر پولیس کے حوالہ کیا جائے،
2)وزیرستان سمیت گیس کے ذخائر کے پہلے استعمال کا حق مقامی شہریوں کو دیا جائے
3)حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتیں 18ویں آئینی ترمیم پر من و عن عملدرآمد یقینی بنائے
4)یہ کانفرنس حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ نواں اور دسواں این ایف سی ایوارڈ جلداز جلد جاری کیا جائے
5)یہ کانفرنس ریاست پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ خودمختار اور آزاد خارجہ پالیسی کو یقینی بنایا جائے
6)یہ کانفرنس پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ ملک بھر میں پختونوں کے ساتھ ہونیوالے ناروا سلوک کوفوری طور پر بند کیا جائے
7)یہ کانفرنس افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی بھرپور مذمت کرتی ہے
8)جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں، انہیں فوری طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے اور مستقبل میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے
9)یہ کانفرنس اور تمام پشتون، بلوچ، پاکستان کے پرامن عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ پشتون ایم این اے علی وزیر کو فوری طور پر رہا کیا جائے
امیرحیدرخان ہوتی، سینئر نائب صدر اے این پی
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ باچا خان اور ولی خان جیسے قائدین صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔لاہور میں دوران تعلیم احساس ہوا کہ ہمارے قائدین کو یہاں پر غدار سمجھا جاتا ہے۔آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار اور خیرخواہ نہیںہیں ۔ ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم پچھلے 75 سالوں سے پاکستان کے شہری ہیں لیکن ہزاروں سال سے پختون بھی ہیں اگر پختون ہونے کی وجہ سے ہم سے تفریق ہوگی تو ایسے انصاف کو ہم بالکل نہیں مانتے۔ یہ آج پوری پختون قوم کا مقدمہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی جماعتوں کو استعمال کیا لیکن سوال یہ ہے کہ جماعتیں کیوں استعمال ہوئیں۔ عدلیہ اگر سمجھتی ہے کہ انکی آئینی گنجائش ناکافی ہے تو کھل کر بات کرے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر اپنے آئینی کردار سے خوش نہیں تو بھی کھل کر بات کرے۔ پچھلے میثاق کو بنیاد بنا کر ہم نے ہر قیمت پرایک نئے میثاق کی طرف جانا ہوگا۔ استحکام تب تک نہیں آئے گا جب تک ذاتی مفاد کو پس پردہ نہیں ڈالا جاتا۔ ملکی مفاد کو مقدم بنانا ہوگا تب ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔وہ دن چلے گئے جب مسائل کا سارا ملبہ سیاستدانوں پر گرتا تھا۔ تسلیم کرنا ہوگا کہ بدنامی سب کی ہورہی ہے اور جتنی جلدی یہ بات سمجھ میں آئے بہتر ہے اے این پی کل بھی شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کیلئے تیار تھی اور آج بھی ہے۔ پانچ بجے کے بعد جنات کی جانب سے بکسے بھرنے کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ تجربہ کرکے کیا حاصل ہوا۔ موجودہ حکومت کو پچھلی حکومت کا گند صاف کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے موجودہ حکومت کا ساتھ اس لئے دیا کہ عمران نے اپنی سیاست کیلئے پاکستان کو دا پر لگایا تھا۔ ہم نے اقتدار کی خاطر حکومت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس دھرتی کی خاطر دیا۔ آج بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بچایا جائے اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔سیاسی جماعت کی حیثیت سے انتخابات ہمارے لئے اہم ہیں لیکن اس وقت الیکشن سے زیادہ پاکستان کو بچانا ضروری ہے۔ اگر آئین پر عملدرآمد ہوتا تو آج ہمیں آئینی حقوق کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ این ایف سی ایوارڈ جاری نہیں ہورہا جس سے محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور بھوکا سوئے لیکن کسی اور کیلئے پختونوں کو بھوکا رکھنا بھی جائز نہیں۔ اس کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کی سیاسی سنجیدگی ضروری ہے۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے مالی وسائل کے بغیر ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتے۔ اے این پی دور حکومت میں مرکز سے این ایف سی ایوارڈ ملنے والے ایک پیسے کو بھی ضائع نہیں کیا۔ نئی یونیورسٹیز، کالجز اور سکول بنائے، سکالر شپس کا آغاز کیا۔ سود سے پاک قرضے دیئے اور روزگار کی فراہمی کو ممکن بنایا۔پاکستان کو موجودہ وقت میں میثاق جمہوریت کے ساتھ میثاق معیشت کی بھی ضرورت ہے۔ ایک دفعہ پھر پختون سرزمین پر آگ لگائی جارہی ہے۔ پرائی جنگ میں دہشتگردی کا نشانہ بھی پختون بنا اور بدنام بھی پختون ہوا۔ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ آگ نہ پختونوں نے لگائی ہے اور نہ بلوچوں نے۔ پوری دنیا سے دہشتگردوں اور دہشتگردی کو پختون خطے میں امپورٹ کیا گیا۔ ریاست اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مزید غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔ اباسین میں اتنی طاقت نہیں کہ اس نئی آگ کا سامنا کرسکے۔ اس کو ہر قیمت پر روکنا ہوگا ورنہ ہمیں بے تحاشا نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔
ایمل ولی خان، صدر اے این پی خیبرپختونخوا
عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اسلام آباد کی سرزمین پر ایک تاریخی دن ہے۔ یہ سرزمین چند دہائیاں قبل بھی باچا خان کو مان لیتے تو آج جن حالات کا سامنا ہے یہ نہیں ہوتے۔ان کا کہنا تھا کہ باچا خان نے بلاتفریق سب سے پہلے انسانیت کی بات کی اور آج اکیسویں صدی میں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ آج علی وزیر کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ انسانیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برداشت عدم تشدد کی بنیاد ہے، آج کی سیاست میں برداشت ختم ہوگئی ہے۔یہ بات ہمیں باچا خان نے سکھائی ہے کہ تشدد برداشت کرو لیکن اپنے نظریئے اور موقف سے پیچھے نہ ہٹو۔ جنگی اقتصاد کا ماحول ایک دفعہ پھر گرم ہے،پختونوں کو کبھی ایک شکل تو کبھی دوسری شکل میں مروایا جارہا ہے۔ مرنے والا بھی پختون ، سہولت کار بھی پختون اور مارنے والا بھی پختون ہے۔ یہ عہد کرتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں عدم تشدد کے فلسفے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ باچا خان نے ہمیں سکھایا ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو بچوں اور بچیوں دونوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ جب بھی پختونوں کے خلاف سازش ہوئی ہے پہلے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرکے پختونوں کو تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے۔ افغانستان میں کس قانون کے تحت بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں جہاد بھی امریکہ سے ہوکر آتا ہے۔ غلاموں کو قطر سے لاکر افغانستان پر مسلط کردیا گیاہے۔1970 سے لیکر آج تک پاکستان کا ہر فیصلہ امریکہ کی مرضی سے ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ ایسے لوگ بھی پاکستان پر مسلط رہے ہیں جو آئین اور قانون کو ردی سمجھتے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم محکوم قوموں کیلئے اے این پی اور اتحادی حکومت کا تحفہ ہے لیکن آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ آج بھی اس آئینی ترمیم پر حملے ہورہے ہیں، بتانا چاہتے ہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پاکستان کے بقا کا ضامن ہے۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے پاکستان اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔دفاعی اخراجات کے نام پر پاکستان کو کھایا جارہا ہے۔ ملک کو بچانا ہے تو دفاعی اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ مذاکرات جنرل فیض نے کئے اور شہادتیں پولیس کو اٹھانی پڑ رہی ہیں۔آج بھی ملک کی ترجیح قلم کی بجائے بندوق ہے،ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ دنیا میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت ہوتی ہے پاکستان باروداور خودکش حملوں کی تجارت کرتا ہے۔معاشی حالات سنبھالنے ہیں تو اخراجات میں کمی لانی ہوگی۔ شاہانہ طرز زندگی کو ختم کرنا ہوگا، فوج کو کلبز کی بجائے سرحدوں پر بھیجنا ہوگا۔ پارلیمان کو حقیقی معنوں میں آئین ساز اسمبلی بنانی ہوگی۔ اراکین پارلیمان آئین ساز بننے کی بجائے ٹھیکدار بن گئے ہیں۔ حکومت چلانا منتخب حکومت کا کام ہے نہ کہ سپریم کورٹ کا۔تمام اداروں کو انکے آئینی کردار تک محدود کیا جائے تب ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا اور اس سلسلے میں میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔
سیدیوسف رضاگیلانی، سابق وزیراعظم پاکستان
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ باچا خان اور ولی خان نے ہمیشہ آزادی،جمہوریت اور عوام کیلئے جدوجہد کی۔انہوں نے سیاسی، معاشی اور سماجی بیداری کیلئے کوششیں کیں۔ پختونخوا میں موجودہ علمی و سیاسی بیداری ان شخصیات کے سر ہے۔ تعلیم کے میدان میں بھی ان کی جدوجہد یاد رکھی جائے گی۔انکے نظریات اور وژن کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔نظریاتی لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، انکو کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔جمہوریت کی مضبوطی کیلئے باچا خان اور بھٹو خاندان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ 1973 کے آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے ولی خان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کے اب تک قائم رہنے کی ایک بڑی وجہ 1973 کا آئین ہے۔ 2008 سے لیکر 2013 تک اے این پی اور پی پی پی نے ملکر خدمت کی۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں دہشت کا راج تھا، ہم نے مل کر نا صرف دہشتگردی کا خاتمہ کیا بلکہ 25 لاکھ لوگوں کو دوبارہ انکے علاقوں میں آباد کرایا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جمہوری قوتیں اگر ارادے کرلیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں، 1973 کا متفقہ آئین اس کی مثال ہے۔ قانون اور آئین پر عملدرآمد کئے بغیر ہم کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکتے۔آئین میں تمام اداروں کے حدود درج ہیں، آئین کی پاسداری ہوگی تو جمہوریت میں استحکام آئے گا اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا، معاشی استحکام ممکن نہیں۔
سینیٹر اسحاق ڈار، وفاقی وزیرخزانہ
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان کا خاندان نظریاتی جدوجہد کا نام ہے۔باچا خان کی خدمت اور آزادی کی تحریک میں انکے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انکے جس کام نے پوری دنیا کو متاثر کیا وہ خدائی خدمتگاری تھی، جس کی آج بھی سیاست کو ضرورت ہے۔ افغانستان کے موجودہ حالات اور اسکے اثرات کی پیشنگوئی انہوں نے کئی دہائیاں قبل کی تھی۔انہوں نے جہادی قوتوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو آج بھی باچا خان کے عدم تشدداور بات چیت کے ساتھ مسائل کیحل کی ضرورت ہے۔باچا خان کے عدم تشدد کی آبیاری کی جاتی تو یہ خطہ امن، ترقی اور تعلیم سے فیض یاب ہوتا۔باچا خان نے مقامی مصنوعات کو آگے لانے کیلئے بھی کردار ادا کیا اور آج بھی معاشی مسائل کے حل کیلئے یہ ایک ضروری عمل ہے۔ تعلیم کے میدان میں بھی باچا خان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بچے اور بچیوں دونوں کو یکساں تعلیم یافتہ کرنا باچا خان کی ہی تعلیمات ہیں۔اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ دہشتگردی ایک چیلنج ہے جس نے قومی وجود کو زخمی کیا۔نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگردی دوبارہ شروع ہوئی۔ ہنگامی بنیادوں پر دہشتگردی کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔انہوں نیمزید کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی بنیاد میثاق جمہوریت تھی۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کو عملی بنانے میں ہر کسی نے کردار ادا کیا۔ اسفندیار ولی نے صوبے کے نام کیلئے اس ترمیم میں بہت جدوجہد کی تھی۔ آمریت ختم کرنی ہے تو جمہوریت اور معاشی استحکام و ڈسپلن کو ممکن بنانا ہوگا۔ملک کو آگے لے جانا ہے تو بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔پچھلے پانچ سال میں اتنی تباہی ہوئی ہے کہ ایک دو دن میں ازالہ ممکن نہیں۔ قوم کو بیرونی اداروں کے چنگل سے آزاد کرانا ہوگا، تب ہی ہم پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔
میاں افتخارحسین، سیکرٹری جنرل عوامی نیشنل پارٹی
اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے تعلیم کا آغاز باچا خان کے مدرسے سے کیا۔ عدم تشدد ایک پیغمبرانہ فلسفہ ہے۔باچا خان نے پختونوں کے پانچ ہزار سالہ تاریخ کو عدم تشدد سے تبدیل کرڈالا۔ انہوں نے پختونوں میں فکری اور ذہنی انقلاب برپا کیا۔ باچا خان نے معاشی تقسیم کا فلسفہ بھی پختونوں کو دیا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آج امریکہ جیسے ملک میں بھی باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے کو پڑھایا جارہا ہے۔ پاکستان میں نصاب سے باچا خان اور جی ایم سید جیسی شخصیات غائب ہیں۔ آج ریاست پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ فلسفہ باچا خان کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے اور امن کا قیام یقینی بنانا ہے تو باچا خان کے فلسفے کو اپنا ہوگا۔ ولی خان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو جتنا دوام ولی خان نے بخشا وہ دنیا کیلئے ایک مثال ہے، انقلاب روس کے دوران سب سے اونچی آواز ولی خان ہی تھے۔
حاجی غلام احمد بلور، سینئر رہنما عوامی نیشنل پارٹی
اے این پی کے سینئر رہنما حاجی غلام احمدبلور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان حضرت حسین کی قربانی کی تفسیر تھے، باچا خان پختونوں کے نہیں پورے ایشیا کے لیڈر تھے، انکی جدوجہد کی وجہ سے ایشیا میں آزادی کی تحریک اور بیداری کی بنیاد پڑی۔ بدقسمتی سے وہ پختونوں میں پیدا ہوئی تھے اس لئے کسی نے مانا نہیں۔ وہ پختون قوم اور دنیا کو ایک بڑا فلسفہ دے گئے ہیں۔انہوں نے انسانیت سے پیار کرنا سکھایا، باچا خان نے عدم تشدد کو اپنا عقیدہ بنایا تھا،ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ باچا خان اور ولی خان کا دامن پکڑ کر میں نے سیاست میں چلنا سیکھا۔باچا خان اور ولی خان اپنے آپ میں ایک اکیڈمی تھے۔آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ہمارے اکابرین نے پچاس سال قبل اس کا حل بتایا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اگر سیاستدانوں کو چھوڑ دیتی تو آج پاکستان کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ ولی خان نے بتایا تھا کہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہیئے بدلے میں انکو ایجنٹ قرار دیا گیا۔ گزارش کرتے ہیں کہ مزید پاکستان کو تباہ نہ کریں۔پاکستان بچانا ہے تو عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور فوج کواپنا فیصلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان پچاس سال سے حالت جنگ میں ہے لیکن اس پر بیرونی قرضے نہیں۔ ہم قرض کیلئے دربدر پھر رہے ہیں۔ولی خان نے ہمیشہ قومیتوں اور صوبائی حقوق کی بات کی تھی، پاکستان کو توڑنے والے سیاستدان نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔
زین شاہ، صدر سندھ یونائیٹڈ پارٹی
صدر سندھ یونائیٹڈ پارٹی زین شاہ کا کہنا تھا کہ باچا خان کی سیاست میں ہمیں سماجی بہتری، محکومی کا خاتمہ اور قومی تشخص کی فعالی نظر آتی ہے۔ ان کی سیاست بے لوث خدمت اور اصول پرستی سے بھرپور تھی۔ان کا عقیدہ تھا کہ خدا کی خوشنودی ہم مخلوق خدا کی خدمت سے حاصل کرسکتے ہیں۔ عدم تشدد انکا ہتھیار تھااور وہ بہادری کی مثال تھے ۔وہ اپنے نظریات کو برملا اور جرات کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ آج کی سیاست ان سب چیزوں سے محروم ہے۔ہم نے پرائی جنگیں لڑی ہیں، جس میں ہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ہمیں اپنے اکابرین کے افکار سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جب تک ہم خارجہ پالیسی کو نہیں بدلتے، ہماری حالت نہیں بدل سکتی اور نہ ہی ہم اپنے عوام کی فلاح کیلئے کچھ کرسکتے ہیں۔
عبدالرف مینگل، رہنما بلوچستان نیشنل پارٹی
رہنما بلوچستان نیشنل پارٹی عبدالرف مینگل نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان دنیا کے تمام پسے ہوئے طبقات کے لیڈر تھے۔ ان کی فلسفے، افکار، جدوجہد اور سوچ کو آگے لے جانے میں ہم ناکام ہوئے ہیں ۔ اکیسویں صدی ہم سے ان کے افکار کو آگے لیجانے کا تقاضہ کرتی ہے۔ ہم سب باچا خان کی سوچ اور انکی سیاست کی پیداوار ہے۔ آج ہمیں پہلے سے زیادہ کہیں اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں شناخت، ثقافت، زبان، وسائل اور تاریخ کا مسئلہ درپیش ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں ایک دفعہ پھر نیپ جیسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ خطے کے حالات ہم سے تقاضہ کررہے ہیں کہ ہم صف بندی کرے۔آج ہمیں ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔آج جمہوریت کے دور میں بھی ہم عقوبت خانے جیسے زندگی گزاررہے ہیں۔سب کو اپنی شناخت، تاریخ، سیاست اور اکابرین کے دفاع کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
سلیم صافی، سینئر صحافی و اینکر پرسن
سینئر صحافی واینکرپرسن سلیم صافی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان خطے میں حقیقی انقلابیوں کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیمات کا آغاز پہلے خود سے کیا۔ باچا خان نے قوم کو ہمیشہ آزمائش سے بچایا اور خود کو قربانی کیلئے پیش کیااور یہی انکی انفرادیت ہے۔ وہ قومی نہیں بلکہ عالمی سطح کی سیاست کرتے تھے۔باچا خان امام برحق تھے اور کسی کی پروا کئے بغیر ہمیشہ حق اور سچ کے ساتھ کھڑے رہے۔ وہ واحد شخصیت تھے کہ خان ہوتے ہوئے بھی قوم کی خاطر فقیر بنے۔ ان کا لباس، خوراک، عاجزی اور انکساری اس بات کا ثبوت ہے۔پختون قوم کو عدم تشدد کا سبق پڑھانا ہوا کے مخالف سمت میں چلنے کے مترادف تھا لیکن باچا خان نے یہ کرکے دکھادیا۔ وہ نہ صرف خود عدم تشدد پر چلے بلکہ قوم کو بھی اس راہ پر چلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ باچا خان نے پختونوں میں ذات پات کی تقسیم کو ختم کرنے کی شعوری کوشش کی۔باچا خان اپنے دور میں پختونوں کے مذہبی رہنما بھی تھے اور سیاسی رہنما بھی،وہ مسجد کے امام بھی تھے اور حجرے کے مشر بھی۔ انہوں نے جو آزاد اسلامی مدرسے بنائے تھے پاکستان کی ریاست اس ماڈل کا مدرسہ آج تک نہ بنا سکی۔باچا خان کی تعلیمات کو آج پاکستان کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ فلسفہ باچا خان کو آج پورے خطے میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔
عاصمہ شیرازی سینئر صحافی اینکر پرسن
عاصمہ شیرازی نے باچا خان اور ولی خان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ میں باچا خان کے افکار پر بات کروں ،میرا پہلا تعلق باچا خان کے ساتھ اس وقت ہوا جب میری عمر بہت کم تھی جب میں کالج میں تھی اور وہاں پر موجود کچھ خواتین جو انکے نظریئے سے واقف تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب ضیا الحق دور میں باچا خان پر غداری کی فتوے لگائے گئے اور انہیںسرحدی گاندھی کہا جاتاتھا ،آمریت میں یہ نعرے پروموٹ کیے گئے کیونکہ اس سوچ سے آمریت کو خطرہ تھا اور اسکے خلاف یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جارہا تھا مگر دوسری جانب باچا خان کے افکار اتنے بلند تھے کہ انہوں نے یہ تمام بے بنیاد پروپیگنڈا برداشت کیا باچا خان غدار نہیں تھے وہ باغی تھے غدار اپنی قوم ملک اور آئین کا غدار ہوتا ہے وہ آمریت کے باغی تھے ،باچا خان سے بڑا مسلمان ہم نے دیکھا نہیں میں ایک پنجابی ہوکر یہ بات کرتی ہوں ،باچا خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ نہیں لگایا اور نہ ریاست مدینہ پر کوئی سیاست کی بلکہ انہوں نے عملی کام کرتے ہوئے ریاست مدینہ کی پالیسی اپنائی ،گاندھی جی نے کہا کہ میں نے عدم تشدد کا فلسفہ باچا خان سے سیکھ لیا ہے انہوں نے پختون کا زیور سائڈ پر کرتے ہوئے پختونوں کو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کیا ،میری درخواست ہوگی کہ باچا خان کو پنجاب میں بھی پڑھایا جائے جو کام اے این پی گزشتہ حکومت میں نہ کرسکی اگر دوبارہ حکومت میں آئے تو باچا خان کو سلیبس میں پڑھایا جائے،ہم باچا خان کے زمانے میں نہیں تھے مگر آج باچا خان ہمارے زمانے میں ہے
سینئر صحافی اعزاز سید
اعزاز سید نے کہا کہ مجھے آج یہ اعتراف کرنے دیںکہ آج کہا جارہا ہے کہ نفرت اور انتہا پسندی کی سیاست ہے لیکن یہ اس وقت شروع ہوئی جب جوار لال نہرو اس وقت کے این ڈبلیو ایف پی تشریف لائے اور انہیں پتھر مادیئے گئے اور ڈاکٹر خان صیب کی حکومت کو ہٹا یا گیا یہ انتہا پسندی اور نفرت کی سیاست اس وقت شروع ہوئی تھی ،75سال لگے کہ باچا خان کی تعلیمات کو چارسدہ سے اسلام کنویشن سینٹر تک لانے میں، مجھے یقین ہے کہ یہاں سے باچا خان کی آواز لاہور ۔سیالکوٹ ،فیصل آباد اور دیگر پنجاب تک 75 سال نہیں لگیں گے ،پنجاب میں سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہاں پر باچا خان پیدا نہیں ہوئے یہاں ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کی ریاستی چھتری کی نیچے پرورش کی جاری ہے۔