
عدم تشدد کے عظیم رہنماباچاخان (گذشتہ سے پیوستہ)
حیران مومند
ملاؤں کی بات آگئی تو مناسب ہے کہ افغانستان کا ذکر بھی ہو کہ جب تخت کابل پر امان اللہ خان کی حکمرانی کا دور تھا تو انہوں نے کابل سے ''پشتون ژغ ''یعنی آوازِ پشتون کے نام سے اخبار جاری کیا اور سرکاری ملازمین کو تین سال کے اندر اندر پشتو سیکھنے کا حکم صادر کیا تھا کیونکہ تین سال بعد پشتو کو سرکاری اور قومی زبان قرار دینا تھا تو انگریزوں کو یہ ناگوار گزری اور اپنے درباری ملاؤں اور نام نہاد بزرگوں کے ذریعے کابل میں شورش برپا کر دی. پشتون ژغ کے نو شمارے شائع ہوچکے تھے تو انگریز سرکار کے تابعدار ملاؤں نے انہیں آگ لگا کر جلا دیا اور امان اللہ خان کو کافر قرار دیا اور انہیں افغانستان سے نکلواکر اٹلی جانے پر مجبور کیا تو ان شرپسند ملاؤں نے دم لیا.ہم کو احساس ہے کہ باچاخان اور ان کی تحریک کو کمزور کرانے کیلئے اس دور میں انگریز سرکار نے ملاؤں کے ذریعے مذہبی لبادے میں امان اللہ خان کی حکومت ختم کی اور موجودہ دور میں وہی چالیں امریکا اپنے حواریوں کے ذریعے استعمال کررہاہے اور یہ مذہبی لبادے میں پختون دشمن عناصر امریکا کو ورثے میں ملے ہوئے ہیں اور باوجود اس کے پختون قوم کو اپنے دوست دوشمن کی پہچان نہیں ہوسکی اور دن بہ دن زوال کی طرف جارہی ہے .باچاخان کا قول ہے کہ " دنیا میں دو ہی راستے ہیں جن پر چل کر قومیں ترقی کرسکتی ہیں، ایک مذہب اور دوسرا قومیت ،قومیں آباد ہوگئیں اور ہم برباد ہیں اور اس تباہی و بربادی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم میں نہ مذہب ہے اور نہ قومیت" باچاخان نے سماجی میدان میں بھی اپنا کردار کیا ہے اور 1929 میں" خدائی خدمتگاری " تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا اور وہ خالص ایک سوشل تحریک تھی مگر یہ بھی انگریز سرکار کو ناپسند تھی جس کی وجہ سے اس جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاتی رہی اور ان کے کارکنوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے.باچاخان نے انگریز سرکار کے مظالم کے خلاف ہی مین عدم تشدد کی تحریک شروع کی کیونکہ ازادی کے لیے تشدد کی تحریک تو پہلے سے چل رہی تھی مگر عدم تشدد کی تحریک نے لوگوں میں جرات پیدا کی اور ان کے اخلاق بلند کیے اور لوگوں کے باہمی محبت اور بھائی چارے کو پروان چڑھایا.اس تحریک نے پختونوں میں قومیت کی ایک نئی روح پھونک دی. باچاخان کا قول ہے کہ " تشدد نفرت ہے اور عدم تشدد محبت ہے"خدائی خدمتگار تحریک پختونوں کی سیاسی، مجلسی، اقتصادی اور روحانی تحریک کے طور پر کام کررہی تھی جبکہ انجمن اصلاح الافاغنہ کے تحت پختونوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے سکول قائم کیے جارہے تھے جبکہ ساتھ ہی فلسفہ عدم تشدد کی تحریک زور و شور سے جاری تھی جس سے انگریز سرکار بہت خوفزدہ تھی کیونکہ نہتے لوگوں کو پر گولی چلانا یا انہیں ڈنڈوں سے مارکر زدوکوب کرانے سے تحریک روز بروز زور پکڑ رہی تھی اور اس تمام صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کرانے کیلئے باچاخان نے صوبہ سے پہلا اخبار " پشتون " کا اجرا کیا تھا.پشتونوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور انہیں اپنے حقوق دلوانے کی پاداش میں باچاخان کو انگریز سرکار نے مختلف وقتوں میں کل ملاکر پندرہ سال قید میں رکھا اور اسی طرح پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستانی حکمرانوں نے پندرہ سال پاکستانی جیلوں میں قید رکھاساتھ ہی ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب، ان کے بیٹوں غنی خان اور رہبر تحریک ولی خان کو بھی جیلوں میں ڈالا گیا اور جو کچھ ان کے ساتھ پختون قوم کی مدعیت میں ہوا. پختون قوم کے حقوق مانگنے اور اور پختون وسائل پر اختیار مانگنے پر باچاخان، ان کے خاندان اور ان کے دیگر غیرتمند ساتھیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے.باچا خان نے خود لکھا ہے کہ انگریز تو ہمارے ملک اور وطن پر قابض تھا اور ہم ان کے خلاف تحریک چلارہے تھے مگر اس کے باوجود جو مظالم فرنگیوں نے پختونوں پر ڈھائے ان سے کئی گنا زیادہ پاکستانی حکومت نے ڈھائے،فرنگی سرکار تو پختون عورتوں کی بے عزتی نہیں کرتی تھی مگر پاکستان کے اسلامی حکومت نے پختون عورتوں کی بے عزتی بھی کی فرنگیوں نے ہمارے گھروں کو نہیں لوٹا، اخبار اور جلسے بند نہیں کیے لیکن پاکستان کے اسلامی حکومت نے ہمارے گھروں کو لوٹا اور جلسے جلوس اور اخبار بند کیے.جو سلوک جیلوں میں انگریزوں نے ہمارے ساتھ روا رکھا اس سے دس گنا زیادہ پاکستان کے اسلامی حکومت نے برا سلوک کیا. پاکستانی جیلوں میں بیمار ہوگیا تو غلط ادویات دیں گئیں یا بالکل نہ دی گئیں.پاکستان کے اسلامی حکومت کے جیلوں میں قید کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی لگتا اور بدلے میں ہماری جائیداد کو من مانی کرتے ہوئے اونے پونے داموں کرکے فروخت کیا جاتا رہا،باچاخان کا قول ہے کہ پاکستان کی تشکیل انگریزوں کی مرہونِ منت ہے، پاکستان کی بنیادوں میں نفرت، بغض و حسد، کینہ و دشمنی اور حقارت کے جزبات بھرے پڑے ہیں اور زندگی بھر کے لیے ہندو اور مسلمان میں فسادات ہوتے رہیں گے آج کل ہم دیکھ رہے ہیں اور محسوس کررہے بلکہ مشاہدہ کررہے ہیں کہ پاکستان کے انڈیا کیساتھ پچھتر سالوں سے نفرتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں اور پختونوں پر انگریز دور سے لیکر آج تک ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا گیا ہے.پختون کل بھی اپنے انسانی بنیادی حقوق سے محروم تھا اور آج بھی محروم ہے.پختون کل بھی حالتِ جنگ میں تھا اور آج بھی حالت جنگ میں ہے،پختون کل بھی ذلیل و خوار تھا اور آج بھی ہے،پختون کل بھی اپنے وسائل پر اختیار سے محروم تھا اور آج بھی محروم ہے،پختون مرتا بھی ہے اور بدنام بھی ہوتا رہا ہے،پختونوں کے گھر بار کل بھی محفوظ نہ تھے اور آج بھی مسمار ہورہے ہیں،پختون کل بھی ایک قوم نہ تھی اور آج بھی مختلف سیاسی نعروں، سیاسی وعدوں اور مذہبی جذبوں کے ذریعے تقسیم در تقسیم کا شکار ہے.باوجود اس کے پختون اپنی تاریخ سے بے خبر پرائیوں کے کارنامے پڑھتے رہتے ہیں.باچاخان رح نے اپنی زندگی کو مشکلوں اور صعوبتوں میں ڈال کر ہمیں واضح طور پر ترقی و کامیابی کا راستہ دکھایا ہے جس پر ہمیں ہرصورت میں عمل کرنا ہوگا وگرنہ اسی طرح خوار ہوتے رہیں گے ،''پورہ وی کہ سپورہ وی د ٹولو بہ شریکہ وی۔یو کیگو گنی ورکیگو۔خپلہ خارہ خپل اختیار''.یعنی اول یہ کہ ہم سب کو مل کر ایک جیسا کھانا پینا اور پہننا ہوگا جوکہ اسلامی مساوات کا درس بھی ہے.دوم یہ کہ متفق اور متحد ہونا ہوگا ورنہ ہم بکھر کر ختم ہوجائیں گے اور اسلامی تعلیمات بھی اتفاق و اتحاد کا درس دیتا ہے اور تیسرا یہ کہ اپنی سرزمین پر ہمارا اپنا اختیار ہونا چاہیے کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ''حب الوطن من الایمان''وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے.باچاخان نے لکھا ہے کہ میں نے یہ نعرے اسلامی تعلیمات اور حضور نبی اکرم ۖ کے اسوہ حسنہ کو مدنظر رکھ کر دیئے ہیں.باچاخان کے ان نعروں اور اس کے پس منظر و پیش منظر کو دیکھ کر، ان کی جدوجہد و افکار اور تحاریک کو دیکھ پرکھ کر برملا اور بغیر کسی شک و شبہ کے کہتے اور مان سکتے ہیں کہ وہ فطرتا امن پسند اور خادم عوام تھے اور حقیقی طور پر فخر افغان تھے، ہے اور رہینگے.