پسماندہ شانگلہ قدرتی حسن کی دولت سے مالامال ہے

پسماندہ شانگلہ قدرتی حسن کی دولت سے مالامال ہے

    عزیز بونیرے

قدرتی حسن سے مالا مال ضلع شانگلہ جہاں چاروں طرف سیاحت کے بڑے مواقع موجود ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی یہ ضلع کئی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جس کی وجہ سے ضلع شانگلہ کے زیادہ تر نوجوان میٹرک سے قبل کوئلہ کان کنی میں مزدوری کیلئے ملک کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بیشتر ممالک اپنی سیاحت سے سالانہ اربوں روپے کے محاصل حاصل کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ضلع شانگلہ میں سیاحت کے سب بڑے مواقع ہونے کے باوجود مقامی سطح پر لوگوں کو روزگار مہیا کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتے جس کی اصل وجہ شانگلہ کی سیاحت کو حکومتی سطح پر نظر انداز کرنے کے علاوہ اور کیا ہو  سکتی ہے؟

 

یہ وہ ضلع ہے جس میں آپ جہاں بھی چلے جائیں آپ کو ہر طرف گھنے جنگلات، چشمے اور آبشار نظر آئیں گے جن سے دور دراز علاقوں سے آئے سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس وقت خیبر پختونخوا کے دیگر سیاحتی مقامات کو دیکھا جائے تو چھٹیوں میں ان مقامات پر سیاحوں کی بڑی تعداد کی آمد سے وہاں پر سیاحوں کو رہائش کی بہتر سہولیات نہ ہونے کے ساتھ ساتھ روڈز جام جیسے مسائل کا سا منا کرنا پڑتا ہے۔ اگر خیبر پختونخوا حکومت ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع کے سیاحتی مقامات کو توجہ دیں تو نہ صرف پہلے سے موجود سیاحتی مقامات پر لوگوں کا رش کم ہو گا بلکہ دوسری جانب ان اضلاع میں بسنے والے ہزاروں مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے جو نا صرف ان کے معاشی حالات کو بہتر کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے بلکہ ہر سال کوئلہ کان کنی میں جاں بحق ہونے والے ضلع شانگلہ کے درجنوں جوان اپنا روزگار کر کے مو ت کے کنویں میں جانے سے بچ جائیں گے۔

 

شانگلہ کا ضلعی ہیڈ کوارٹر الپورئی مینگورہ شہر سے54  کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ضلع شانگلہ کے مشرق میں ضلع بٹگرام، ضلع تورغر، مغرب میں ضلع سوات، شمال میں ضلع کوہستان جبکہ جنوب میں ضلع بونیر واقع ہے۔ وادی شانگلہ بے حد خوبصورت ہے، گھنے جنگلات، اونچے اونچے پہاڑ، گنگناتے آبشار اور ٹھنڈے چشموں نے اس کے قدرتی حسن کو اور بھی نکھار دیا ہے۔ وادی شانگلہ کو اللہ تعالی نے قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ شانگلہ تک پہنچنے کے لیے خوازہ خیلہ سے بشام روڈ پر ہی سفر کرنا پڑتا ہے، تاہم خوازہ خیلہ کے مقام پر ایک سڑک سیدھی مدین بحرین اور کالام تک جاتی ہے جبکہ دوسری پختہ سڑک پہاڑی راستے پر مشرق کی جانب شانگلہ ٹاپ تک اوپر ہی اوپر موڑ در موڑ چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد ڈھلان شروع ہو کر الپوری کے مقام پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ضلع شانگلہ کا صدر مقام ہے اور ایک حسین وہ جمیل قصبہ ہے۔ یہاں الپوری میں سوات یونیورسٹی کیمپس، ڈگری کالج، ہائی سکول، ہسپتال، ٹیلی فون ایکسچینج اور ضلعی دفاتر ہیں۔ الپورئی بازار پہنچنے پر ایک سڑک ضلع شانگلہ کے تاریخی گاوں لیلونڑئی کی طرف جاتی ہے جبکہ دوسری روڈ بشام کی طرف جہاں پر پشتو زبان کے مشہور صوفی شاعر حافظ الپورئی کا مزار بھی ''کوزہ'' الپوری (الپوری پائین) میں آتا ہے۔



ضلع شانگلہ کا سب سے زیادہ حسین اور دل فریب مقام یخ تنگے جو ملک خیل کوٹکے سے12  کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ سیاحوں اور فطری مناظر کے شائقین کے لئے دنیاوی جنت کی حیثیت رکھتا ہے، سیاحوں کی نگاہوں سے پوشیدہ یہ مسحور کن وادی مناظرِ فطرت اور حسن و دل کشی کے لحاظ سے مدین، بحرین اور ملم جبہ جیسے صحت افزا مقامات سے کسی طرح کم نہیں، لیکن سیاحتی سہولتوں کے شدید فقدان کے باعث یہ خوب صورت مقام عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے



ضلع شانگلہ کے یخ تنگے نامی علاقے، جسے پہلے ہی سے سیاحتی مقام کے طور پر لوگ جانتے ہوں گے، اب وہاں پر مقامی لوگوں نے ضلع  شانگلہ میں سیاحت کو فروع دینے کیلئے نیا مقام برج بانڈہ میں سیاحوں کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت انتظامات کئے ہیں جہاں پر پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں مقامی اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے سیاح لطف اندوز ہوئے۔ یہ مقام ضلع شانگلہ کے مشہور گاؤں شاہ پور سے23  کلومیٹر کے فاصلے پر واقع برج بانڈہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس حسین وادی کو دیکھنے کیلئے بہتر راستہ ضلع سوات الپورئی روڈ ہے، خوازہ خیلہ سے الپورئی روڈ پر شانگلہ ٹاپ اور شانگلہ ٹاپ سے الپورئی کے راستے، جہاں پر راستے میں ضلع شانگلہ کا خوبصورت سیاحتی مقام یخ تنگے واقع ہے، برج بانڈہ کیلئے سیاح کو الپورئی بشام روڈ استعمال کرنا ہو گا جہاں پرالپوری سے پہلے بورڈ نامی ایک مقام آتا ہے جہاں سے ایک سڑک سیدھی الپوری تک پہنچتی ہے جبکہ دوسری سڑک جنوب کی طرف یخ تنگے کی جانب مڑ جاتی ہے۔ یخ تنگے میں چار سے چھ ماہ تک مکمل طور پر برف پڑی رہتی ہے، اور سخت گرمی میں بھی یہاں پر آنے والوں کو سردی محسوس ہوتی ہے۔ اس علاقے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ پہاڑوں سے نکلنے والے پانیوں کو وہاں کے باشندوں نے ایک ٹینکی نما خوص میں جمع کیا ہوا ہوتا ہے، اور اس میں فروٹ، کولڈرنکس رکھ کر ان کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے جو اتنے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں کہ ان کو کھانا یا پینا بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے۔

 

الپوری  بازار سے سے آگے کوزہ الپورئی اور بیلے بابا کا ایک خوبصورت بازار آتا ہے جس میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی اشیاء بہ آسانی مل سکتی ہیں۔ بیلے بابا سے آگے ڈھیرئی کا ایک خوبصورت بازار آتا ہے۔ ڈھیرئی سے آگے ایک حسین و جمیل قصبہ کروڑہ آتا ہے، کروڑہ کا ایک طویل بازار آتا ہے جس میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء بہ آسانی مل سکتی ہیں۔ آس پاس تمام علاقوں کے لوگ اس بازار سے اشیاء کی خرید وفروخت کرتے ہیں۔ الپورئی سے بشام راستہ آگے شمال میں کوز کانڑہ، شاہ پور، بر کانڑہ جہاں بچیوں کی تعلیم کیلئے خصوصی ادارہ ملالہ یوسفزئی سکول بھی اس راستے میں آتا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کا آبائی گاؤں بر کانڑہ بھی سیاحوں کیلئے ایک بہتر پکنک سپاٹ ہے۔ آگے داموڑہ، اولندر اور اجمیر تک یہ سڑک ضلع شانگلہ کے خوبصورت سیاحتی مقام برج بانڈہ پر ختم ہوتی ہے۔ شاہ پور سے23  کلومیٹر کے فاصلے پر واقع برج بانڈہ تک جگہ جگہ سر بفلک چوٹیاں، سرسبز و شاداب کھیت اور بلند و بالا درخت، د ل آویز اور حسین مناظرآتے ہیں۔ یہاں پر اجمیر کے مقام تک پختہ سڑک ہے جبکہ اجمیرسے آگے برج بانڈہ تک کا چار کلومیٹر کا سفر فور ویل گاڑی کے ذریعے طے کرنا ہو گا۔ اس روڈ پر اب صوبائی حکومت کی جانب سے ترقیاتی کام جاری ہے، اگر یہ روڈ مکمل ہو جائے تو یہاں پر سیاح عام گاڑی کو بھی برج بانڈہ تک استعمال کر سکیں گے۔



قدرتی حسن سے مالا مال ضلع شانگلہ جہاں چاروں طرف سیاحت کے بڑے مواقع موجود ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی یہ ضلع کئی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جس کی وجہ سے ضلع شانگلہ کے زیادہ تر نوجوان میٹرک سے قبل کوئلہ کان کنی میں مزدوری کیلئے ملک کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں



خیبر پختونخوا کے دیگر نئے سیاحتی مقامات اور ضلع شانگلہ کے شاہ پورہ میں واقع برج بانڈہ کے رہائشیوں میں ایک فرق واضح نظر آیا کہ پہلی مرتبہ یہاں ہزاروں سیاح کی آمد پر مقامی لوگوں نے بڑی گرم جوشی سے آئے ہوئے سیاحوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا، خیبر پختونخوا میں اگر دیگر نئے سیاحتی مقامات کو دیکھا جائے تو شروع میں مقامی لوگ اپنے علاقے کے پردے کی وجہ سے سیاحوں کی آمد سے گھبراتے ہیں مگر یہاں پر زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے کھلے دل سے سیاحوں کی آمد قبول کی جاتی ہے اور اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہاں پر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ کوئلہ کان کنی سے وابستہ ہیں جس میں  اگر دیکھا جائے تو ہر سال درجنوں جوانوں کی لاشیں شانگلہ لائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہاں بیشترگھرانے کوئلہ کان کنی کے حادثے کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے سینکڑوں خوتین بیوہ ہو چکی ہیں اور سینکڑوں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ اب یہاں کے لوگ ضلع شانگلہ کی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں سیاحت کو فروغ دینے سے ضلع بھر میں ہزاروں جوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے اور کوئلہ کی کان کنی کے بجائے وہ اپنے ہی گھر پر رزق حلا ل کما سکیں۔

 

ضلع شانگلہ کا سب سے زیادہ حسین اور دل فریب مقام یخ تنگے جو ملک خیل کوٹکے سے12  کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ سیاحوں اور فطری مناظر کے شائقین کے لئے دنیاوی جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیاحوں کی نگاہوں سے پوشیدہ یہ مسحور کن وادی مناظرِ فطرت اور حسن و دل کشی کے لحاظ سے مدین، بحرین اور ملم جبہ جیسے صحت افزا مقامات سے کسی طرح کم نہیں، لیکن سیاحتی سہولتوں کے شدید فقدان کے باعث یہ خوب صورت مقام عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کے بلند و بالا پہاڑ اور رعنائی سے بھرپور مناظر مصروف شہری زندگی کے بکھیڑوں کے ستائے ہوئے لوگوں کے لئے ایک پرسکون اور خاموش گوشہ عافیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یخ تنگے فر اور کائل کے خاموش اور مسحور کن جنگلات کے ڈھلوان پر واقع ہے۔ یہاں سیاحتی سہولتیں  پہلے نہ ہونے کے برابر تھیں، اب محکمہ سیاحت نے یخ تنگی کے مقام پر کیمپنگ سپاٹ لگا دیئے ہیں جہاں پر اب سیاح آن لائن بکنگ کر کے یہاں پر قیام کر سکتے ہیں۔ تاہم شانگلہ ٹاپ میں اب چھوٹے چھوٹے ہوٹلز بھی کھول دیئے گئے ہیں جہاں پر سیاحوں کو رات گزارنے کیلئے رہائشی کمرے بھی دستیاب ہیں جبکہ شانگلہ ٹاپ پر ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس بھی ہے جو محکمہ جنگلات کے دائرہ اختیار میں ہے اور اس میں رہائش کے لئے متعلقہ محکمے سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہ ریسٹ ہاؤس رہائش کی جدید سہولتوں سے آراستہ ہے اور اس کے چاروں طرف دل فریب مناظر کی صورت میں حسن و جمال بِکھرا ہوا ہے۔ اس کی چاروں جانب سر بفلک چوٹیاں، سرسبز و شاداب کھیت اور بلند و بالا درخت اس کی دلآویزی اور حسین مناظر کی خوب صورتی کو درجہ کمال تک پہنچانے کا باعث ہیں۔



آج بھی اگر حکومت ضلع شانگلہ کی خوبصورتی سے فائدہ اٹھانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے تو یہاں کے نوجوان نسل کی تقدیر بدل جائے گی، یہاں سیاحت کو فروغ دینے سے نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے بلکہ حکومت کو بھی سالانہ اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہو گا



ضلع شانگلہ اونچے پہاڑوں، تنگ دروں، صنوبر، چیڑ، فر، پنڈرو، کیل اور دیودار کے گھنے جنگلات کی سر زمین ہے۔ جنگلات لوگوں کی معاشی زندگی اور آمدن کا ذریعہ ہیں اور کچھ دروں میں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ ضلع شانگلہ کا کل رقبہ1586  مربع کیلومیٹر ہے۔ دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ کل قابل کاشت رقبہ41750  ہیکٹرز ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر کوئلہ کان میں مزدوری کرتے اور کچھ باہر کے ممالک میں رزق حلال کمانے کی نیت سے گئے ہیں۔ وادی شانگلہ سطح سمندر سے تقریباً2000  سے3000  میٹر بلند ہے۔ یہاں کا بلند ترین مقام کوز گنڑشال ہے جو3440  میٹر بلند ہے اور ضلع کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ جنگلی سبزیوں کی پیداوار کے لحاظ سے یہ علاقہ موزوں ترین تصور کیا جاتا ہے اور یہاں پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنے کے کئی مواقع دستیاب ہیں۔ ضلع شانگلہ کے سیاحتی مقامات میں جھیل تخت بہرام خان، لوگے، اجمیر، کنڈاو، شومانو بانڈہ، کاپر بانڈہ، برج بانڈہ، شلخو سر، رنڑہ سر، پیر سر، بہادر سر، چنگا سر اور شنہ ڈھیرئی شامل ہیں۔ 

 

انتظامی طور پر ضلع شانگلہ پانچ تحصیلوں الپوری، پوران، چکیسر، مارتونگ اور بشام پر مشتمل ہے، جبکہ اب کانا کو بھی تحصیل کا درجہ دے دیا گیا ہی۔ انسانی ترقی کے پیمانے میں شانگلہ کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ مردم شماری کے مطابق شانگلہ کی کل آبادی757812  ہے جس میں تحصیل الپوری کی 307382، تحصیل پورن کی 145202، تحصیل چکیسر کی 109326، تحصیل بشام کی105890  اور تحصیل مارتونگ کی آبادی90012  نفوس پر مشتمل ہے۔  ضلع شانگلہ کے پسماندگی کو دیکھا جائے تو اس کی تمام تر ذمہ داری ان سیاسی قائدین پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے ضلع شانگلہ سے منتخب ہونے کے باوجود اس علاقے کی خوبصورتی سے فائدہ اٹھانے کیلئے اور مقامی لوگوں کو گھر کی دہلیز پر روزگار فراہم کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ ضلع شانگلہ میں اب تک ایوان اقتدار تک پہنچنے والوں میں سابق سینیٹر شیر محمد خان، سابق ایم پی اے سلطان شام خان، سابق ایم پی اے حاجی بدیع الزماں، سابق ایم پی اے حاجی محمد ظاہر شاہ، سابق صوبائی وزیر پیر محمد خان، سابق سینیٹر مولانا راحت حسین، سابق وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام، صوبائی وزیر شوکت علی یوسفزئی، ایم این اے ڈاکٹر عباد اللہ، سابق صوبائی وزیر حاجی عبد المنعیم، سابق ایم پی اے ڈاکٹر افسر ملک، سابق ایم پی اے انجینئر حامد اقبال، سابق ایم پی اے محمد رشاد خان، سابق ایم پی اے فضل اللہ خان، ایم پی اے فیصل زیب خان کے نام شامل ہیں۔ ان منتخب ارکان نے اگر ضلع شانگلہ کی پسماندگی کیلئے تھوڑے سے اقدامات کئے بھی ہوتے تو آج شانگلہ ضلع خیبر پختونخوا میں سیاحت کا سب سے بڑا مرکز ہوتا جس سے یہاں کے مقامی لوگوں کو نہ تو بیرونی ممالک مزدوری کیلئے جانا پڑتا اور نہ ہی ضلع شانگلہ کے وہ سفید فام نوجوانوں کا چہرہ سیاہ فارم میں تبدیل ہوتا۔ 

 

آج بھی اگر حکومت ضلع شانگلہ کی خوبصورتی سے فائدہ اٹھانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے تو یہاں کے نوجوان نسل کی تقدیر بدل جائے گی، یہاں سیاحت کو فروغ دینے سے نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے بلکہ حکومت کو بھی سالانہ اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہو گا۔ 

 

سیاسی لحاظ سے شانگلہ بہت زرخیز ہے۔ یہاں پر سیاست کا آغاز وادی چکیسر کے خان بہادر خان نے1956  میں کیا تھا۔ آپ مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔1972  سے1977  تک وادی کانا کے شیر محمد خان سینیٹر رہے۔ 1985  سے1987  تک وادی میرہ کے سلطان شام خان شانگلہ کے ایم پی اے رہے،1987  میں ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی حاجی محمد ظاہر شاہ نے ایم پی اے سیٹ جیت لی۔ ایم ایم اے دور حکومت میں وادی کانا کے مولانا راحت حسین سینیٹر رہے،1988  کے انتخابات میں شانگلہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا: شانگلہ 1، اور شانگلہ 2۔ 

 

شانگلہ:1 

1988 سے2007  تک وادی پورن کے پیر محمد خان شانگلہ1  سے کامیاب ہوتے رہے۔ آپ1997  سے1999  تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ پیر محمد خان کی شہادت کے بعد ان کے فرزند فضل اللہ خان2008  سے2013  تک ایم پی اے رہے۔  2013سے2018  تک وادی پورن کے حاجی عبد المنعیم اس سیٹ پر ایم پی اے رہے، آپ وزیر اعلی کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔2018  سے وادی مارتونگ کے فیصل زیب خان اس سیٹ پر کامیاب ہو کر موجودہ ایم پی اے ہیں۔ 

 

شانگلہ2 

1988 سے1990  تک وادی کانا کے حاجی بدیع الزماں اس سیٹ پر کامیاب رہے۔1990  سے1993  میں وادی میرہ کے حاجی محمد ظاہر شاہ اس سیٹ پر کامیاب قرار پائے۔1993  میں ایک بار پھر وادی کانا کے حاجی بدیع الزماں اس سیٹ پر کامیاب ہوئے، لیکن بدقسمتی سے3/11/1994  کو سوات میں آپ کو قتل کر دیا گیا۔ حاجی بدیع الزماں کی شہادت کے بعد ضمنی انتخابات میں آپ کے فرزند ڈاکٹر افسر ملک اس سیٹ پر کامیاب ہوئے۔2002  سے2008  تک وادی کانا کے انجینئر حامد اقبال اس سیٹ پر کامیاب رہے۔2008  سے2011  تک وادی میرہ کے حاجی محمد ظاہر شاہ منتخب ممبر رہے۔2011  میں حاجی محمد ظاہر شاہ کی وفات کے بعد ان کے فرزند محمد رشاد خان نے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔2013  الیکشن تک محمد رشاد خان نے اپنی کامیابی جاری رکھی اور2013  الیکشن میں کامیاب ہو کر2018  تک ایم پی اے رہے۔ 2018  کے الیکشن میں وادی بشام کے شوکت علی یوسفزئی نے کامیابی حاصل کی اور اس سیٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ شوکت یوسفزئی2013  سے تاحال مختلف صوبائی وزارتوں پر بھی رہ چکے ہیں۔

 


ایم این ایز_شانگلہ


 2002 سے2013  تک وادی پورن کے انجینئر امیر مقام شانگلہ کے ایم این اے رہے۔ وہ وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے مشیر بھی رہ چکے ہیں اور موجودہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر بھی ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں انجینئر امیر مقام کے بھائی ڈاکٹر عباد اللہ نے کامیابی حاصل کی اور ایم این اے منتخب ہوئے،2018  کے الیکشن میں ڈاکٹر عباد اللہ نے اپنی کامیابی برقرار رکھی اور تاحال آپ ضلع شانگلہ کے ایم این اے ہیں۔

 

ضلع شانگلہ کے مسائل

ضلع شانگلہ کا شمار پاکستان کے سب سے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ ضلع کے بنیادی مسائل میں صحت، تعلیم، روزگار، بجلی اور سڑکیں ہیں۔ پورے شانگلہ میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں جس میں عوام کا صحیح علاج کیا جا سکے۔ شانگلہ کے عوام علاج کے لیے سوات، بٹگرام، ایبٹ آباد، پشاور اور اسلام آباد جاتے ہیں۔ ضلع شانگلہ میں تعلیمی نظام بھی بہتر نہیں، پورے ضلع میں ایک یونیورسٹی کیمپس اور چند کالجز ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں کے طالبِ علم زیادہ تر دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ ضلع شانگلہ کا65  فیصد علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے، یہاں روڈ اکثر کچے ہیں، جس کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آتا رہتا ہے۔ شانگلہ کے عوام کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ یہاں کے عوام روزگار کے سلسلے میں زیادہ تر اپنے گاؤں سے دور کوئلہ کانوں میں مزدوری کرتے ہیں اور کچھ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اس طرح ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہیں اور زیادہ تر پردیس میں روزگار کی غرض سے رہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شانگلہ کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ کا بھی ہے۔ شانگلہ خان خوڑ میں ایک منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی مدد سے13  میگاواٹ بجلی بنتی ہے، شانگلہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ12  سے18  گھنٹے ہوتی ہے، جبکہ خان خوڑ سے حاصل شدہ بجلی ملک کے دوسرے حصوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرا کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی ہے لیکن بدقسمتی سے ان دونوں پراجیکٹس سے اب تک شانگلہ کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔


 

ٹیگس