طالبان حکومت: کاروباری سرگرمیوں، عوامی اعتماد کی بحالی اصل چیلنجز

طالبان حکومت: کاروباری سرگرمیوں، عوامی اعتماد کی بحالی اصل چیلنجز

   عزیز بونیرے

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد حکومت کو مالی بحران کے ساتھ ساتھ بجلی اور تیل کے بحران کے خدشے کا بھی سامنا ہے، دوسری جانب تمام تجارتی سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کو بھی مالی بحران کا سامنا ہے۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کو تین ہفتوں سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد نئے حکومتی سربراہ اور دیگر اہم عہدوں پر اتفاق رائے پیدا ہوا جبکہ نامزدگیاں بھی کر دی گئی ہیں تاہم عام لوگوں کے اعتماد، کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو تاحال پہلے کی طرح بحال نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے لوگوں کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت افغانستان کو500  میگاواٹ بجلی کی فراہمی ازبکستان سے ہو رہی ہے، موجودہ صورتحال میں اگر طالبان حکومت معاہدے کے مطابق ادائیگی نہیں کر پاتی تو ازبکستان سے بجلی کی فراہمی معطل ہونے کا خدشہ ہے جس سے افغانستان میں پہلے سے معطل تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی مشکلات میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔ 

 

افغانستان کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ اس وقت افغانستان کے مرکزی بینک کے نو ارب ڈالر اثاثوں میں افغان طالبان کو صرف ایک فیصد اثاثوں تک رسائی ہے، جب تک افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثوں تک طالبان کی رسائی نہیں ہوتی اس وقت تک ملک کو چلانے کیلئے طالبان کے پاس کوئی اور مکینزم ہو گا جس سے وہ افغان حکومت کے امور کو چلا سکیں۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کی بینک اثاثوں تک عدم رسائی سے سابق افغان حکومتوں کی جانب سے کئے گئے معاہدے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے افغان عوام کے لئے خوراکی اشیاء اور ادویات پر مشتمل امدادی سامان بھی کابل پہنچایا گیا ہے جبکہ چین کی جانب سے نئی افغان حکومت کو تین کروڑ کی امداد دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے مگر ان تین کروڑ ڈالر سے کیا موجودہ افغان حکومت کو چلایا جا سکے گا، یہی وہ اہم سوال ہے جو ہر جانب سے اٹھایا جا رہا ہے۔

 

اس وقت طالبان حکومت کو سب سے بڑا چیلنج لوگوں کو روزگار کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات، جن میں تعلیم، صحت، بجلی اور اس طرح کی دیگر بنیادی ضروریات شامل ہیں، کی فراہمی کا درپیش ہے۔ اس وقت افغانستان کے کئی شہروں کو بجلی کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے جہاں پر نہ صرف عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں بلکہ وہاں پر موجود تجارتی مراکز اور صنعتوں کو بھی خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں قندھار کے صنعت کاروں اور تاجروں پر مشتمل ایک وفد نے نئے تعینات گورنر محمد یوسف وفا سے ملاقات کی ہے جس میں تاجروں نے گورنر کو بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے صنعتوں کو ہونے والے نقصان سے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق اس وقت افغانستان میں بجلی کی پیدوار255.9  میگا واٹ ہے جو افغانستان کی ضرورت پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے جس کی وجہ سے آئندہ دنوں میں افغانستان میں بجلی کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں چھوٹے بڑے 11 بجلی پیدا کرنے والے منصوبے فعال ہیں جن میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا نغلو ہائیڈرل پراجیکٹ ہے جس سے100  میگاواٹ حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ماہی پر ہائیڈرل پراجیکٹ سے66  میگاواٹ، کجکی ہائیڈرل پراجیکٹ سے33  میگاواٹ، سروبی ہائیڈرل پراجیکٹ سے22  میگاواٹ، درونٹہ ہائیڈرل پراجیکٹ سے11.5  میگاواٹ، پل خمری ہائیڈرل پراجیکٹ سے13.8  میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہو رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں نئی حکومت سازی نہ ہونے کی وجہ سے ازبکستان کے ساتھ500  میگا واٹ بجلی اور دیگر ملکوں کے ساتھ معاہدوں کو برقرار رکھنے کیلئے تاحال کوئی حکمت عملی نظر آ رہی ہے جس کی وجہ سے افغانستان کو ایک نئے بحران کا سامنا ہو گا۔ افغان طالبان نے افغانستان پر مکمل کنٹرول کے بعد ملک میں موجود تمام تیل کا سٹاک بھی قبضے میں لیا ہے، اب اگر سابق حکومت کا سٹور کردہ تیل ختم ہو جائے تو ایران یا دیگر ممالک کن معاہدوں کے تحت افغانستان کو تیل کی سپلائی یقینی بنائے گا اور ان کو تیل کی قیمت کی ادائیگی کہاں سے کی جائے گی؟ ذرائع کے مطابق طالبان کی جانب سے نئی کابینہ میں ایران کے ہم خیال لوگوں کو شامل نہ کرنے پر اس کی ناراضگی سے تیل کی فراہمی بھی معطل ہو سکتی ہے جس سے افغانستان کی نئی حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

 

ذرائع کے مطابق تاجکستان اور کرغزستان کے ساتھ عالمی بینک کے تعاون سے1126.5  ملین امریکی ڈالرکا منصوبہ CASA پر کام جاری ہے جس سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی فراہمی پاکستان اور تین سو میگا واٹ بجلی کی فراہمی افغانستان کو ہو گی جو راہداری کے عوض افغانستان کو فراہم کی جائے گی۔ افغانستان میں غیریقینی صورتحال کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی التوا کا شکار ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ چند ماہ پہلے ہی ورلڈ بینک نے افغانستان کی معیشت کے بارے میں یہ پریشان کن تجزیہ پیش کیا تھا۔ افغانستان کا معاشی مستقبل اب مزید مخدوش ہو گیا ہے کیونکہ اس کو ملنے والی مالی امداد مستقبل میں بھی ملتی رہے گی یا نہیں اس پر شک و شبہات ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورتحال کے تناظر میں امداد دینے کا عمل عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔

 

اسی طرح افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سے ملک کے مختلف سرکاری اداروں اور سیکورٹی فورسز سے وابستہ ساڑھے چھ لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ سابق افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کو طالبان کی جانب سے باربار یقین دہانی کے باوجود آج بھی لوگ نوکریوں پر جانے سے کتراتے ہیں، ان کو ملازمت کے دوران جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تنخواہوں کی بھی فکر ہے کہ حکومت کہاں سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرے گی کیونکہ اس وقت افغانستان کے مرکزی بینک کے99  فیصد اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح نجی اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں لوگ بھی بے روزگار ہو گئے ہیں کیونکہ گزشتہ حکومت کے ساتھ بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے چلنے والے سبھی پراجیکٹ ملازمین طالبان کی آمد سے قبل ہی افغانستان چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کابل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ کابل یونیورسٹی سے دو سو سے زائد استاذہ طالبان کی آمد کے بعد بیرونی ملک جا چکے ہیں۔