
توہین عدالت کیس: کپتان معاف مانگیں گے
قریباً ایک ماہ تک سیاسی بیان بازیوں سے ملک و قوم کو ایک ہیجان میں مبتلا رکھنیکے بعد سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک خاتون جج کو دھمکی دینے پر معافی مانگ لی ہے اور یہ یقین دلایا کہ وہ خاتون جج کے پاس جا کر بھی معافی مانگنے کو تیار ہیں جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ان کے خلاف فرد جرم عائد کئے جانے کے حوالے سے کارروائی روک دی ہے۔ قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی نے اسی کیس میں گیرمشروط معافی مانگنے کی بجائے اپنے الفاظ واپس لینے یا ان پر افسوس کا اظہار کرنے پر اکتفاء کیا تھا۔ کیس میں حالیہ پیش رفت کے بعد اب یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرح کپتان کو کم از کم موجودہ حالات میں ملک کے سیاسی میدان سے ایک مخصوص عرصہ یا مستقل طور پر باہر نہیں کیا جائے گا۔ بہرکیف توہین عدالت کی اس کارروائی میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے اور اس موقع پر معافی مانگنے سے کم از کم ملک میں جاری سیاسی خلفشار، اور سیاسی عدم استحکام میں کسی حد تک کمی ضرور آئے گی۔ اب اس ضمن میں کپتا سے مزید توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے اسی طرح اعلیٰ ظرفی، تحمل و برداشت، اور مصالحت و مفاہمت پر مبنی رویہ اور طرزعمل اپنائیں گے، وہ ملک کے تین ٹکڑے ہونے، ملک کو سری لنکا بنانے اور اس قسم کی مزید اشتعال انگیز بیانات، تقاریر سے باز آئیں گے۔ کیونکہ سیاست میں مفاہمت و مصالحت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا بلکہ فریقین کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کرتے ہیں۔ اسی طرح سیاست میں مستقل دشمن ہوتا ہے نہ ہی مستقل دوست بلکہ ہر سیاسی جماعت اپنے منشور کو آگے بڑھانے اور اپنے مفاد کو ''سیکیور'' کرنے کے لئے پوزیشن بھی بدلتی ہے اور اپنا لائحہ عمل بھی، لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر سیاسی جماعت ملک و قوم کا بھلا چاہتی ہے، ان کی خدمت کرنا چاہتی ہے اور آج ملکِ عزیز جس قسم کے مسائل سے دوچار ہے، بیرونی و اندرونی طور پر جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ سب اس امر کے متقاضی ہیں کہ ملک کی تمام قیادت باہم اتفاق سے، صلاح مشورے سے اور قوم کو اعتماد میں لے کر ان مسائل کا حل نکالے یا حل نکالنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرے۔ اس ضمن میں بنیادی ذمہ داری کپتان اور ان کی جماعت پر ہی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ کل کی اپوزیشن اور آج کی مقتدر جماعتیں روز اول سے کپتان کی طرف دستِ تعاون بڑھاتی رہی ہیں، آج بھی، باوجود اس کے کہ کپتان اور ان کے فالورز اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے میں ہر حد پار کر چکے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ ملک و قوم، اور ملک کو درپیش مشکلات کے حل کی خاطر تمام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کپتان کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوں گی۔ لیکن بنیادی سوال پھر وہی ہے کہ کیا کپتان اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہیں؟