زوال پذیرمعاشرتی روایات

زوال پذیرمعاشرتی روایات

کڈوال ناصر

سوشل میڈیا پر کل سے ایک ویڈیو گردش کررہی ہے جس میں سندھ پولیس کے کچھ اہلکاروں نے کچھ افغان بچے ، جوان اور بزرگوں کو ایک رسی سے جانوروں کی طرح باندھ کر ان بیگناہ لوگوں کے لائن بنا کر بس سٹاپ سے تھانے لے جارہے ہیں ۔ اس ظلم کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا ۔ اس سے پہلے بھی کراچی سمیت سندھ اور پاکستان کے باقی علاقوں میں ایسے کہیں عورتیں بچے بزرگ اور جوان قیدی فارن ایکٹ پر گرفتار پڑے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے یہاں پر انسانی حقوق کے علمبردار اور ظلم کے خلاف بولنے والے نام نہاد سیول سوسائٹی اور صحافی حضرات میں سے کوئی بھی اس ظلم پر اب تک دو لفظ تک منہ سے نکال نہیں سکے ہیں اور نہ حکومتی اہلکاروں کو اس ظلم پر کوئی تنقید کا نشانہ بنا سکے ہیں ۔ اگر کوئی آواز سنائی دے رہا ہے یا پھر کوئی انصاف کے لئے دوہائی دے رہے ہیں تو وہ پشتون جوان جو اپنے خون سمجھ کر تھوڑا بہت آوازیں ادھر ادھر اس ظلم کے خلاف لگاتے سنائی دے رہے ہیں ۔ ان کی بھی آوازیں سننے والے اس ریاست میں کہاں ۔ ان جوانوں پر تو صرف ریاست دشمن غدار اور تعصب نسل پرستانہ الزامات ہی صرف آسانی سے لگائے جاتے ورنہ ان کے مظلمین کے لیے آواز پر کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ۔ ان مظلوم افغانوں کا جہاں تک میں نے معلومات لیے ہیں تو ان میں سے اکثریت علاج کے غرض سے پاکستان آئے ہیں ۔ اب فارن ایکٹ کے نام پر انھیں کراچی پولیس گرفتار کرچکی ہیں ۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جو ایسا ہوتا ہے مگر ایسے ظالمانہ رویہ پہلے دیکھنے کو نہیں ملا اس لیے بھی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے ۔ اس سے پہلے کوئٹہ سے ایک صحافی اور سوشل ایکٹیوئسٹ جمال ترہ کئی نے بھی ایسے کئی رپورٹیں اپنے سوشل میڈیا اکاونٹوں پر شئیر کئے ہیں ۔ پہلے تو ان افغان باشندوں کو بارڈر پر کچھ پیسوں کے عیوض چھوڑ دیا جاتا ہے جب وہ بارڈر کراس کر کے چمن کے راستے کوئٹہ یا کراچی علاج کے لیے جاتے ہیں تو پہلے وہاں کے ٹرانسپورٹرز لوٹتے ہیں پھر اس کے بعد کبھی ایف سی ، کبھی پولیس تو کبھی لیویز کے ہاتھوں چڑجاتے ہیں ، کوئی بھی پیسے لئے بغیر انھیں نہیں چھوڑتے ، اکثر وبیشتر تو لوکل ٹرانسپورٹ والے انھیں کراچی تک پہنچانے کے نام پر ہزاروں کرایہ بٹور کر انھیں راستے میں چھوڑ دیتے ہیں ،جہاں سو روپے کرایہ لگتا ہو وہاں ان افغانوں سے ہزار سے دو ہزار روپے تک بٹورے جاتے ہیں ، سو سے لے کر دو سو فیصد تک اضافی رقم ان سے لیا جاتا ہے ، ان میں سے اکثریت کو اردو سمجھ نہیں آتی اور کچھ پھر فارسی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ ان غریب مجبور لوگوں کا یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ ان کے ساتھ ہونے والے ایسے ظلم پر نہ تو کوئی انسانی حقوق کے علمبردار کچھ کرتے ہیں ، اور نہ کوئی قانونی ادارہ ۔ روئیے ہر جگہ ان مظلوموں کے ساتھ اس حد تک گھٹیا اور غیرمناسب ہوچکے ہیں چاہے ان کے ساتھ جتنا بھی ظلم ہوچکا ہو جب قانونی یا انسانی حقوق والے کو معلوم ہوجاتا ہے کہ افغان ہے تو اسی وقت ان مظلوموں کو حق دلانے یا ان کے تاوان کا مداوا کرنے کے بجائے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ میں نے خود ایسے سینکڑوں افغان باشندوں کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ کئی افراد سے خود حال احوال پوچھا ہے ۔ جب تک اشرف غنی حکومت تھا تو یہ لوگ اپنے سفارتخانے سے کسی بھی ضرورت اور مسئلے پر رابطہ کرتے تو اسی وقت ان کے پوچھنے والے اور ان کے ضروریات کے لیے سفارتخانے کے اہلکار کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتے تھے ، مگر اب جب سے طالبان اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں تو حالات کافی خراب اور بدتر ہیں ۔ پہلے تو ان مجبور بیماروں کو اپنے وطن میں علاج کی کوئی سہولت میسر نہیں تو دوسرے جانب ان کو ویزے بھی نہیں ملتے ، اور جب مصیبت اور مشکل سے چمن کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو پھر یہاں ظالموں کے ہاتھوں چڑجاتے ہیں ۔ کوئی کرایے کے نام پر لوٹتے ہیں تو کوئی علاج کے نام پر اور خوف خدا تو کسی کو ہے نہیں اوپر سے قانونی ادارے بھی کافی سارے بہانے رکھتے ہیں ان مظلموں کو مزید زلیل اور خوار کرنے کے ۔ ایک غریب جو بمشکل ڈاکٹر کے علاج کا پیسہ لوگوں سے ادھار مانگ کر پاکستان آتا ہے تو اسے کیا پتہ ہوتا کہ اس سے نوچنے والے ظالم پاکستان میں اس کا انتظار کررہے ہیں ۔ آخر کب تک یہ ظلم ہوتا رہیگا ؟ کب تک قانونی ادارے اس ظلم پر خاموش ہوں گی ؟ اور یہ ظلم انسانی حقوق کے علمبرداروں کو(جو ویسے تو ہر معمولی بات پر زمین آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں)آخر کیوں نظر نہیں آتا ؟ یا تو پاکستانی حکومتی اہلکار بطور ریاست ان لوگوں کے یہاں علاج کے لیے بغیر ویزے آنے پر سخت پابندی عائد کرئے یا پھر تو ان کو پہلے سے بتایا کریں اگر زیادہ رقم نہیں لاوگے تو یہاں پر ذلیل ہونے کے لیے نہ آیا کرو ۔ اسطرح یہ مظلوم لاچار اور مجبور لوگ ادھر اپنے گھروں میں آرام سے مرا کریں گے کم از کم یہاں اتنے در در کی ٹھوکریں کھانے سے تو بچ جائیں گے ۔