صوابی کے ڈاکٹر نذیر خان: پشتونوں کا فیثا غورث 

صوابی کے ڈاکٹر نذیر خان: پشتونوں کا فیثا غورث 

تحریر: عزیز بونیری/ساجد ٹکر

ریاضی کو اگر آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ ساخت، ترتیب اور جوڑ کا علم ہے یعنی ہم ریاضی یعنی میتھس کو ساخت، ترتیب اور تعلق یا جوڑ کی سائنس کہہ سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ایسا سسٹم یا نظام نہیں جس میں ریاضی کسی نہ کسی طرح دخیل نہ ہو۔ ہم اگر دیکھیں تو اس کا مظہر ہر جگہ نظر آتا ہے بس دیکھنے والی آنکھ چاہئے ہوتی ہے۔ ہاں مگر ریاضی کو ریاضی سمجھ کر سیکھنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ یہ علم جتنا بڑا ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے اور ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ 

 

دنیا میں بڑے بڑے ریاضی دان گزرے ہیں جنہوں نے دنیا کے مسائل حل کرانے کے راستے ہموار کئے ہیں اور آج ساری دنیا کے لئے مثال بنے بیٹھے ہیں۔ فیثا غورث ہو یا ارشمیدس، آئزک نیوٹن ہو یا آئن سٹائن، اپنے ان علوم کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں۔ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی دیدہ ور ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی، شہرت، نام اور عزت اس کی قوم پر منحصر ہوتی ہے۔ جو قومیں زندہ ہوتی ہیں اور اپنے مشاہیر کی قدر جانتی ہیں، ان کے ہیروز بھی زندہ رہتے ہیں جبکہ جو قومیں خواب غفلت کا شکار ہوں تو ان کے ہیروز بھی زمانے کی گردش کا شکار بن کر وقت کی دھول میں اڑ جاتے ہیں۔ ہمارا یہ ایک بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ ہم جیتے جی اپنے کسی ہیرو یا بڑے آدمی کی اتنی عزت نہیں کرتے لیکن جیسے ہی ان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو ہمیں نہ صرف ان کے کارنامے یاد آ جاتے ہیں بلکہ ان کی قدر بھی معلوم ہو جاتی ہے۔ پھر ہم قصیدے تو پڑھتے ہیں لیکن وقت پھر گزر چکا ہوتا ہے۔ یہاں مشہور ادیب اور ماہر تعلیم پریشان خٹک مرحوم کی یہ بات بالکل صائب ہے کہ پشتونوں کی خوش نصیبی ہے کہ ان میں بہت بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں لیکن ان بڑے بڑے لوگوں کی بدنصیبی ہے کہ وہ پشتونوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ تاہم یہ بھی اچھا ہے کہ مرنے کے بعد ان کو سراہا جائے تا کہ نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لئے تاریخ محفوظ کی جا سکے۔ 

 

آج ہم جس شخصیت پر لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کئی حوالوں سے ایک عظیم شخصیت تھی۔ تاہم بدقسمتی سے اتنی عظمت اور لیاقت کے باوجود وہ عوام میں شہرت نہیں رکھتے کیونکہ ایسا ہمارا وطیرہ ہے کہ کام کے لوگوں کو منہ نہیں لگاتے۔ بھلا ہو سینئر صحافی عزیز بونیری کا، جن کا نہ صرف اس عظیم شخصیت کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے بلکہ ان کی بہت سی باتیں بھی انہوں نے بتائیں جو یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔ زمانے کے دستور کے مطابق ہی سہی لیکن یہ ایک صفحہ یا چند ہزار الفاظ ان کا حق ادا نہیں کر سکتے بلکہ ان پر کتابیں لکھنے اور تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان کی زندگی، کارناموں اور کام سے ہمارے نوجوان واقف ہو سکیں۔

 

پختون فیثا غورث ڈاکٹر نذیر خان کا بنیادی تعلق صوابی کے گاؤں گلہ سے ہے لیکن ان کی پیدائش25  جولائی1925  کو بڑے لاہور کے قریب ہوئی تھی کیونکہ ان کے والد انگریزوں کے زمانے میں پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ ڈاکٹر نذیر خان بچپن سے انتہائی ذہین اور فطین تھے۔1942  میں میٹرک کے امتحان میں سارے ریجن میں ٹاپ کیا تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد مگر خاندان سمیت واپس صوابی اپنے گاؤں آ گئے اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تاریخی اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا۔ اسلامیہ کالج سے ہی انٹرمیڈیٹ، گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کر لی۔ والدہ صاحبہ پشاور جانے کے حق میں نہیں تھیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے شائستگی سے ان کو منوا لیا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد1950  میں ائیر فورس میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ان کو محسوس ہوا کہ وہ کسی اور کام کے لئے بنے ہیں۔ اور جیسے ہی ایڈورڈز کالج میں لیکچررشپ کی آفر ہوئی تو ائیر فورس کی نوکری چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب کو کچھ نیا کرنا تھا تو ایک سال بعد لیکچررشپ کی نوکری بھی چھوڑ دی اور کاکول میں داخلہ لینے کے لئے پہنچ گئے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک آدمی سے ہوئی جو کہ جرمن سفارت خانے میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر نذیر خان کو بتایا کہ کیوں نہ وہ جرمنی سے اعلی تعلیم حاصل کر لیں۔ ان کے مشورہ کے بعد انہوں نے جرمنی کے گوٹنگن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے داخلہ لیا اور1957  میں ریاضی میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لی جو کہ اس خطہ کی ریاضی میں پہلی ڈاکٹریٹ ہے۔ 

 

پی ایچ ڈی کے بعد ڈاکٹر نذیر خان کو وہاں کی اعلی یونیورسٹی میں نوکری کی پیشکش ہوئی جہاں کچھ وقت کے لئے پڑھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنے لوگوں کی خدمت کے لئے واپس پشاور پہنچ گئے اور یونیورسٹی آف پشاور میں میتھس ڈپارٹمنٹ یعنی شعبہ ریاضی میں انتظامی سیکشن میں نوکری شروع کر دی۔ اپنی محنت اور قابیلت کی بدولت ترقی کرتے کرتے ڈاکٹر نذیر خان1974  میں اس ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین لگ گئے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے تھے کہ جب میں آیا تو ڈپارٹمنٹ کا جو بجٹ ہوتا تھا وہ کافی تھا لیکن پھر بھی مالی مسئلے ہوتے تھے تو میں نے انتظام سنبھالنے کے بعد ریاضی کے اصولوں کے تحت ایک ایسا نظام بنایا کہ خوردبرد کا راستہ روکا جا سکے اور اسی طرح قلیل وقت میں ڈپارٹمنٹ نے ترقی شروع کر لی۔ ستائیس سال ریاضی ڈپارٹمنٹ کی خدمت کے بعد 1984 میں اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئے لیکن ریاضی سے ناطہ منقطع نہ ہو سکا اور اس کی محبت میں دیس دیس گھومتے رہے۔ 

 

ریاضی کی اسی محبت میں سویڈن میں ان کو زندگی کی دوسری محبت ملی جس سے ڈاکٹر صاحب نے شادی کر لی کیونکہ ان کی پہلی بیوی وفات پا چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب بہت ہی نفیس اور سچے انسان تھے۔ کہتے تھے کہ سویڈن میں، میں جس خاندان کے ساتھ رہتا تھا، اس خاندان کی ایک جوان لڑکی نے مجھے شادی کی آفر کر دی لیکن اس وقت میری دوسری شادی کو صرف ایک ہفتہ ہو گیا تھا تو میں نے ہنستے ہوئے معذرت کر لی۔ ریاضی کو عام طور پر ایک خشک مضمون تصور کیا جاتا ہے اور ریاضی دان دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں لیکن ڈاکٹر نذیر خان نے ریاضی کے اس رنگ کو خود پر چڑھنے نہیں دیا۔ وہ بلا کے ملنسار، گھومنے والے اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ یورپ میں اتنا گھومے ہیں کہ یورپ کی ساری تاریخ ان کو ازبر تھی۔ ماہر وہ ریاضی کے تھے لیکن تاریخ پر ان کو ایسا عبور حاصل تھا کہ بندہ رشک کئے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔ مشاہدہ بھی ان کا غضب تھا۔ امریکہ میں کچھ عرصہ پڑھانے کے دوران مشاہدہ کیا تھا کہ امریکہ میں ایک بغاوت پنپ رہی ہے، کہتے تھے کہ امریکی لوگوں سے مجھے بغاوت کی بو آ رہی ہے لیکن وقت کا بتا نہیں سکتا۔ گھومنے اور دنیا دیکھنے کے اتنے شوقین تھے کہ انگلینڈ سے فورڈ ویگن خود ڈرائیو کر کے یورپ، ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچے تھے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی شفیق تھے، یورپ سے آتے ہوئے ایک ترکی خاندان کو دیکھا جن کے پاس سامان تھا اور مشکل میں تھے تو ڈاکٹر صاحب نے ان کا سامان لاد کر ان کی خاطر طویل راستوں سے ترکی گئے تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔ پھر آتے ہوئے ایران میں سابق گورنر اسلم خٹک مرحوم سے، جو کہ اس وقت ایران میں پاکستان کے سفیر تھے، رابطہ کیا اور ان کے ساتھ دو دن گزارے۔

 

ڈاکٹر صاحب یاری دوستی اور رشتہ داری نبھانے والے انسان تھے۔ دوسری شادی تب کی جب پہلی بیوی فوت پا گئی۔ پہلی بیوی سے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ بچے تینوں ڈاکٹر اور اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر نذیر خان دیکھنے میں ملنگ نما انسان لگتے تھے اور یہی عاجزی ان کی ذات میں بھی تھی۔ پشاور کے حیات آباد میں ان کا ایک کنال کا بنگلہ تھا جو انہوں نے دو یتیم بچیوں کو دیا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں ایک غریب عورت کام کرتی تھی جس کی دو بیٹیاں تھیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس کا شوہر مر گیا جس کے بعد اس عورت نے دوسری شادی کر لی لیکن دوسرا خاوند اس عورت کی بیٹیوں پر ظلم کرتا تھا۔ جب ڈاکٹر نذیر خان کو پتہ چلا تو انہوں نے ان بچیوں کو اپنے پاس بلا لیا اور ان کی دیکھ بھال، تعلیم اور خرچ کا ذمہ خود اٹھایا۔ ان بچیوں میں سے ایک سے بچپن میں ڈاکٹر صاحب نے پوچھا تھا کہ تم بڑی ہو کر کیا بنو گی تو اس نے کہا تھا کہ وہ بڑی ہو کر جج بنے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے دونوں کو پڑھوایا اور آج وہ دونوں یتیم بہنیں وکالت میں ماسٹرز کر چکی ہیں اور کامیاب زندگیاں گزار رہی ہیں۔ 

 

ڈاکٹر صاحب کتابوں کے دیوانے تھے۔ جب بھی جہاں کہیں بھی کوئی کتاب دیکھ لی، خرید لی۔ صرف خود کتاب سے پیار نہیں کرتے تھے بلکہ ملنے والوں کو تحفہ میں بھی کتاب دیا کرتے تھے۔ یورپ سے نایاب کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا تھا اور لوگوں کو خوشی کے ساتھ کتاب دیتے تھے۔ ڈاکٹر نذیر خان انتہائی مخلص، سخی اور علم دوست تھے۔ اسلامیہ کالج کے لئے108  کنال زمین وقف کر رکھی تھی جس پر بدقسمتی سے کوئی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا کیونکہ کسی نے ان کے جائیداد پر قبضہ کیا ہوا تھا جس کے کیسز وہ خود لڑتے تھے اور انتظامیہ سے شاکی رہتے تھے۔ خیر یہ تو ہمارے سسٹم کا حصہ ہے اور کسی بھلے انسان کی جب تک ہم توہین نہ کریں تو ہمیں چین نہیں آتا۔ 

 

نذیر خان صرف ایک ورلڈ کلاس ریاضی دان نہیں تھے بلکہ وہ سیاست سے بھی باخبر تھے اور سیاسی حالات پر ان کی گہری نظر تھی۔ خود بھی پراگریسیو قوم پرست تھے اور ان کا اٹھنا بیٹھنا بھی ایسے ہی لوگوں میں تھا۔ مشہور شاعر، ادیب اور بزرگ سیاستدان اجمل خٹک مرحوم کے ساتھ ان کا قریبی تعلق اور انس تھا۔ انسانی حقوق کے علمبردار تھے، اسی لئے پیرانہ سالی میں بھی پشتون تحفظ مومنٹ کے حامی تھے اور ان کے جلسوں میں باقاعدگی سے شمولیت کرتے تھے۔ ڈاکٹر نذیر خان ایک عجیب بے غرض اور مختلف قسم کے انسان تھے۔ ان کو ڈریسنگ کی کوئی پرواہ نہیں تھی، جو ملا وہ پہن لیا۔ ایک دفعہ بتا رہے تھے کہ پشاور میں پیدل جا رہا تھا تو ایک عورت نے ایک بچے کو20  روپے کا نوٹ دے کر مجھے دینے کے لئے بھیج دیا، بچے سے میں نے نوٹ لے کر جیب میں رکھ دیا۔ وہ عورت مجھے فقیر سمجھی تھی اور میں نے اس لئے بیس روپے کا وہ نوٹ لے لیا تا کہ اس خاتون کے خیرات اور صدقے کا جذبہ ختم نہ ہو جائے۔ ہاں مگر اس کے بعد کوشش کرتا تھا کہ اچھے کپڑے پہنوں۔ 

 

ڈاکٹر نذیر خان نے96  برس کی عمر پائی اور رواں ماہ11  اکتوبر کو سویڈن میں انتقال کر گئے۔ وفات سے ایک دن پہلے بھی ان یتیم بچیوں سے باتیں کی تھیں اور ان کی کامیابی کے لئے خوش تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بیٹے ان کے جسد خاکی کو لانے کے لئے انتظام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو یہاں آبائی گاؤں میں دفنایا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک طویل اور بھرپور زندگی گزاری۔ زندگی کے آخری سانس تک وہ متحرک رہے۔ کھانے پینے میں سادہ مزاج تھے۔ براؤن آٹے کی روٹی اور ساگ ان کی خوراک کا لازمی حصہ تھا۔ انتہائی مہمان نواز تھے لیکن پشتو محاورے (چی سہ تیار وی، ہغہ د یار وی) پر عمل کرتے تھے اور جو چیز تیار ہوتی تھی اس کو مہمان کے سامنے پیار سے پیش کر دیتے تھے۔ فضول خرچ بالکل بھی نہیں تھے لیکن ضرورت مندوں کی مدد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ سینیئر صحافی عزیز بونیری کے ان کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ بونیرے صاحب کے بقول ان کی بھتیجی نے میتھس میں بی ایس سی اور ماسٹرز کیا ہوا ہے، جب ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ میں اس بچی کو خود پڑھاؤں گا، یعنی اتنا زیادہ ان کو پڑھائی کا شوق تھا اور خصوصی طور پر خواتین کی تعلیم کے بڑے حامی تھے۔ یہ عظیم انسان اپنی بھرپور اور کامیاب زندگی گزارنے کے بعد اس دنیا سے تو رخصت ہو گئے لیکن ہمارے لئے کچھ قیمتی یادیں چھوڑ گئے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہوئے چلے گئے کہ خدارا اب تو بیدار ہو جاؤ اور اپنے مشاہیر کی قدر سیکھو۔

 

بڑے ریاضی دان تو تھے ہی عظیم انسان بھی تھے۔ نورالامین یوسفزئی

معروف ادیب، دانشور، ناقد اور عصر حاضر کے بے مثال افسانہ نویس نورالامین یوسفزے ڈاکٹر نذیر خان مرحوم کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ان کو کوئی20  سال پہلے اکوڑہ خٹک میں مرحوم اجمل خٹک صاحب کے حجرہ میں دیکھا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یا تو یہ بندہ عملی طور پر کوئی صوفی ہے یا پھر اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن جب باوقار انداز میں بیٹھ گئے تو میں سمجھ گیا کہ یہ تو کوئی دُر دوراں ہے۔ ان کی داڑھی، بالوں، باڈی لینگویج اور رویے سے انسانیت ٹپک رہی تھی۔ مجھے پتہ نہیں کیوں انشراح صدر ہو گیا کہ یہ کوئی بہت پہنچی ہوئی شخصیت ہیں۔ ان کی چال چلن پرانے لوگوں جیسے کہ نیوٹن اور آئن سٹائن جیسی تھی۔ میں ان سے ملا تو تعارف پر پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر نذیر خان ہیں اور اجمل خٹک بابا کے قریبی ساتھی ہیں۔ ان کی باتیں جیسے پھول جڑ رہے ہوں، بہت آہستہ آہستہ باتیں کرتے تھے۔ جب میں نے ان کی اپنی قوم سے محبت اور معصومیت دیکھ لی تو سمجھ گیا کہ یہ تو بڑے ریاضی دان ہیں ہی لیکن ساتھ میں ایک عظیم انسان بھی ہیں۔ ان کی اجمل خٹک کے ساتھ عجیب سا رشتہ اور پیار تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ عظیم شخصیت صوابی کی ہے تو میں اور بھی حیران بلکہ خوش بھی ہوا۔ اس کے بعد میں ان سے جب بھی ملا تو میں نے ان میں سادگی، انسانیت، اخلاقی قدریں، محبت اور بڑا پن ہی دیکھا۔ وہ ریاضی کے بڑے ماہر تھے، مجھے ان کو دیکھ کر نہ جانے کیوں علامہ مشرقی یاد آ گئے۔ ایک دفعہ انگریزوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ پختون بڑا گوشت کھاتے ہیں اس لئے یہ ریاضی نہیں سیکھ سکتے۔ لیکن ڈاکٹر نذیر خان نے ریاضی سیکھ کر بلکہ اس میدان میں کمالات کر کے انگریزوں کو حیران کر دیا۔ علامہ مشرقی کی اپروچ مذہبی اور ڈاکٹر نذیر خان کی اپروچ بالکل قومیت کی تھا۔ ایک بات یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اجمل بابا کے ساتھ ان کی محبت صرف اس لئے نہیں تھی کہ وہ بڑی شخصیت تھی بلکہ اس لئے تھی کہ اجمل بابا غیرتی انسان تھے، قوم پرست تھے، ڈاکٹر صاحب کو ان کے ساتھ (د غیرت چغہ) اور (دا زہ پاگل وم) کے لئے محبت تھی۔ ڈاکٹر نذیر خان واقعی نابغہ تھے۔ اجمل بابا کی وفات پر بہت پژمردہ تھے اور مجھے ان پر بہت پیار آیا تھا۔ ان کی زندگی سادہ تھی اور شخصیت میں وقار، متانت، سنجیدگی اور ملنگی تھی۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

 

مجھے لگا کسی زندہ کارل مارکس کے پہلو میں بیٹھا ہوں۔ روخان یوسفزئی

معروف ادیب، شاعر، ناقد اور صحافی روخان یوسفزے ڈاکٹر نذیر خان مرحوم کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے پہلی بار جب انہیں پشتو زبان کے معروف انقلابی شاعر، ادیب اور بزرگ سیاستدان مرحوم اجمل خٹک صاحب کے حجرہ واقع اکوڑہ خٹک میں دیکھا اور ان سے ہاتھ ملایا تو سرگوشی کی طرح مجھ سے صرف یہ کہا کہ مجھ ناچیز کو ڈاکٹر نذیر خان کہتے ہیں۔ میں نے بھی اپنا تعارف کرایا۔ بعد میں جب ان کے پہلو میں بیٹھا اور چپ چپ کے ان کے چہرے، ناک نقشے، لمبے بال، بڑی بڑی مونچھیں مطلب ان کے پورے سراپے کو گور گور کر اور غور غور سے دیکھ رہا تھا تو پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگا کہ میں کسی زندہ کارل مارکس کے پہلو میں بیٹھا ہوں کیونکہ ان کا سراپا، ان کے دانشورانہ بال، چہرے پر جھریاں یعنی فلسفیانہ جھریاں، متانت اور مارکسی سٹائل کی داڑھی مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ اور جب انہوں نے دھیمے لہجے اور پرسکون انداز میں باتیں شروع کر دیں اور سیاست، ادب، تاریخ اور بالخصوص اجمل خٹک صاحب کے بارے میں اپنی قربت اور اپنے گہرے تعلق کے جو واقعات اور جو یادیں انہوں نے بیان کر دیں تو تب مجھے پتہ چلا کہ واقعی میں میرا اس شخصیت کے بارے میں جو گمان تھا اور پہلی ہی ملاقات میں ان کی سحر انگیز اور فلسفیانہ شخصیت کے جو نقوش میرے دل و دماغ پر ثبت ہوئے تو مجھے طمانیت کا ایک احساس ہوا اور خوشی بھی بڑی محسوس ہوئی، اعزاز بھی اپنے لئے سمجھا کہ اس وقت ایک زندہ پختون فلسفی اور کارل مارکس کے ساتھ پہلو میں نہ صرف بیٹھنے کا موقع ملا ہے بلکہ ان کی باتوں سے بہت سارا فیض بھی حاصل ہوا۔ لہذا مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ میرے دل و دماغ پر جس شخصیت کی تصویر نقش ہوئی تھی وہ اب بھی جیتی جاگتی ہے، بولتی بھی ہے اور پھرتی رہتی ہے۔ میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پیرانہ سالی کے باوجود ان کا حافظہ  بلا کا تیز تھا۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے۔