حالیہ مہنگائی سے دہشت گردی سے متاثرہ بیو ہ خواتین فاقوں پر مجبور 

حالیہ مہنگائی سے دہشت گردی سے متاثرہ بیو ہ خواتین فاقوں پر مجبور 

 

 

رپورٹ:- مانور ملک

 ڈیرہ اسماعیل خان جو پچھلے کئی عشروں تک شدید ترین بدامنی اور دہشت گردی کا شکار رہا اور جہاں آئے روز ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملے اور بم دھماکے ہوتے رہے ان واقعات کے نتیجے میں نہ صرف سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں جن میں زیادہ تعداد نوجوان شادی شدہ افراد کی تھی بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین بھی بیوہ ہوگئی ہیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1984 سے اب تک ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے تقریبا 400 سے زائد  وارداتوں میں 700 سے زائد افرادشہید ہو چکے ہیں۔ جس کے لواحقین کو سرکاری سطح پر فی خاندان تین لاکھ روپے شہدا پیکچ دیا گیا تھا ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی دہشت گردی پر ملکی و غیر ملکی میڈیا میڈیاکے ساتھ رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی توقیر زیدی کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار سے تقریبا تین سو کے قریب خواتین بھی بیوہ ہوگئیں ہیں اور ان بیوہ خواتین کی دادرسی کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات ہوتے رہے لیکن یہ امداد ان کے لئے آٹے میں نمک کے برابر ہے، آج بھی کئی بیوہ خواتین حکومتی امداد کی منتظر ہیں اور یہ بیوہ خواتین بہت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہیں، ان میں سے کئی خواتین انتہائی کسمپرسی کی حالت میں محنت مزدوری کر کے یا چھوٹی موٹی نوکری کر کے اپنے یتیم بچوں کا سہارا بنی ہوئی ہیں،

 


خاتون  سیدہ نسرین اختر بیوہ خاتون ہے ان کا تعلق مدینہ کالونیڈیرہ اسماعیل خان سے ہے ان کے شوہر سید نزاکت علی زیدی بھی 19 اگست 2008 کو سول ہسپتال بم دھماکے میں دشہید ہو گئے ہیں۔ نزاکت کی توپانوالہ بازار میں جنرل سٹور تھا۔ نسرین اختر کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے ایک بیٹی۔ شوہر کی وفات کے وقت بیٹوں کی عمر 8 اور 12 سال تھی۔ نسرین اختر کے مطابق شوہر کی وفات کے بعد زندگی بہت مشکل ہو گئی۔ بچے چھوٹے تھے۔ میری میٹرک تعلیم تھی۔ نزاکت کی جانے کے بعد زریعہ معاش بھی کوئی نہیں تھا  نسرین اختر کا کہنا ہے کہ 2009 میں حکومت کی جانب  نزاکت کے بچوں کے لئے صرف تین لاکھ دئیے گئے تھے اس کے بعد آج تک حکومت نے شہدا کی فیملیز کی طرف موڑ کر بھی نہیں دیکھا 
 

 

ڈی آئی خان میں ماضی قریب میں دہشت گردی کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی کئی خواتین میں سے ایک عفت پروین بھی ہے ان کا تعلق چاہ سید منور شاہ سے ہے۔عفت پروین نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا ہوا ہے ان کے شوہر سید صابر علی زیدی 19 اگست 2008 کو سول ہسپتال بم دھماکے میں شدید زخمی ہو گئے کافی عرصہ علیل رہنے کے بعد دم توڑ  گئے۔ عفت پروین کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے ایک بیٹی۔ شوہر کی وفات کے وقت بیٹوں کی عمر دو اور تین سال تھی جبکہ بیٹی والد کی وفات کے تین ماہ بعد پیدا ہوئی۔ عفت پروین کے مطابق شوہر کی وفات کے بعد زندگی بہت مشکل ہو گئی۔ بچے چھوٹے تھے سوائے ماں باپ کے کوئی آثرا نہ تھا۔ذریعہ معاش بھی کوئی نہیں تھا انہوں نے بتایا کہ ان کے سر سے سایہ اٹھتے ہی تمام رشتے داروں نے آنکھیں پھیر لیں اور ان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا حکومت نے میرے شوہر کی شہادت کے بعد میرے لیے امداد کا اعلان کیا لیکن وہ امداد ناکافی ہے، اب حالت یہ ہے کہ نوبت فاقوں تک آگئی ہے اور میں اپنے بچوں کے لئے گھر پر کڑھائی سلائی کرکے گزر بسر کر رہی ہوں لیکن موجودہ وقت کے تقاضوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اب گزارا کرنا مشکل ہو گیا ہے حکومت کو چاہیئیں کہ دہشت گردی سے متاثرہ بیوہ خواتین کیلئے اور انکے بچوں کی کفالت کیلئے پروگرام شروع کریں ،

 


کئی خواتین انتہائی کسمپرسی کی حالت میں محنت مزدوری کر کے یا چھوٹی موٹی نوکری کر کے اپنے یتیم بچوں کا سہارا بنی ہوئی ہیں، ڈی آئی خان میں ماضی قریب میں دہشت گردی کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی کئی خواتین میں سے ایک عفت پروین بھی ہے ان کا تعلق چاہ سید منور شاہ سے ہے۔عفت پروین نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا ہوا ہے ان کے شوہر سید صابر علی زیدی 19 اگست 2008 کو سول ہسپتال بم دھماکے میں شدید زخمی ہو گئے کافی عرصہ علیل رہنے کے بعد فوت ہو گئے۔ عفت پروین کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے ایک بیٹی۔ شوہر کی وفات کے وقت بیٹوں کی عمر دو اور تین سال تھی جبکہ بیٹی والد کی وفات کے تین ماہ بعد پیدا ہوئی۔ عفت پروین کے مطابق شوہر کی وفات کے بعد زندگی بہت مشکل ہو گئی۔ بچے چھوٹے تھے سوائے ماں باپ کے کوئی آثرا نہ تھا

 

خاتون  سیدہ نسرین اختر بیوہ خاتون ہے ان کا تعلق مدینہ کالونیڈیرہ اسماعیل خان سے ہے ان کے شوہر سید نزاکت علی زیدی بھی 19 اگست 2008 کو سول ہسپتال بم دھماکے میں دشہید ہو گئے ہیں۔ نزاکت کی توپانوالہ بازار میں جنرل سٹور تھا۔ نسرین اختر کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے ایک بیٹی۔ شوہر کی وفات کے وقت بیٹوں کی عمر 8 اور 12 سال تھی۔ نسرین اختر کے مطابق شوہر کی وفات کے بعد زندگی بہت مشکل ہو گئی۔ بچے چھوٹے تھے۔ میری میٹرک تعلیم تھی۔ نزاکت کی جانے کے بعد زریعہ معاش بھی کوئی نہیں تھا  نسرین اختر کا کہنا ہے کہ 2009 میں حکومت کی جانب  نزاکت کے بچوں کے لئے صرف تین لاکھ دئیے گئے تھے اس کے بعد آج تک حکومت نے شہدا کی فیملیز کی طرف موڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ وہ کس حالت میں ہے  انہوں نے کہا اب میں ایک پرائیویٹ سکول میں بچوں کو پڑھا کر گھر کا خرچہ چلارہی ہوں، میں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ دہشگردی سے بیوہ ہونے والے خواتین پر ترس کھائیں اور ان کے مالی معاونت کے لئے مزید اقدامات اٹھائیں تاکہ گزراوقات بہتر طریقے سے کر سکیں،  

 

لواحقین کو سرکاری سطح پر فی خاندان تین لاکھ روپے شہدا ء پیکچ دیا گیا تھا ان بیوہ خواتین کی دادرسی کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات توہوتے رہے لیکن یہ امداد ان کے لئے آٹے میں نمک کے برابر ہے، آج بھی کئی بیوہ خواتین حکومتی امداد کی منتظر ہیں اور وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہیں

 

سول انتظامیہ کے مطابق ان بیوہ خواتین کے لیے حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کا اعلان کیا اور شہید کے خاندان کو تین لاکھ روپے مالی امداد فراہم.کیا ہے جو سرکاری ملازمین تھے ان کو اسی ہی محکمہ میں فی خاندان ایک نوکری بھی گئی ہے لیکن یہ امداد یا تو انہیں مل نہیں سکی اور یا پھر ان کے نام پر سیاسی دکانداری چمکانے والے نمائندوں اور انکے مذیبی پیشواوں نے ہڑپ لی ہے،

 

 1984 سے اب تک ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے تقریبا 400 سے زائد  وارداتوں میں 700 سے زائد افرادشہیدہو چکے ہیں

 

اس حوالے سے صحافی توقیر زیدی نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ماضی میں بہت شدید بدامنی اور دہشتگردی کا شکار رہا اس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جن میں زیادہ تعداد نوجوان شادی شدہ افراد کی تھی جنہیں بے دردی سے مارا گیا،  ان افراد کی شہادت کے بعد ان کے خاندان خصوصا" انکی بیوہ اور بچے تنہا رہ گئیے گو کہ ان بیوہ خواتین کے لیے  گاہے بہ گاہے حکومتی سطح پر امدادی رقوم کے اعلانات ہوتے رہے لیکن ان میں سے بہت کم خواتین کو یہ رقوم مل سکیں، زیادہ تر سرکاری رقوم ان خواتین کے رشتے داروں،  سیاسی نمائندوں اور مذہبی پیشواں نے ہڑپ لیں  ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ماضی کے ان واقعات کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کا ازسرنو سروے کرے اور ان کو نہ ملنے والی رقوم کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے جب کہ خواتین کو نئے سرے سے رقوم دے کر انکے زخموں پر مرہم رکھے.تاہم.سرکاری حکام کا کہنا کہ شہدا کی فیملیز کو تنہا نہیں چھوڑینگے اور ان کے مشکلات کو کم کرنے اور داد رسی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائینگے۔