فخر افغان باچاخان اور فلسفہ فلسفہ عدم تشدد (گذشتہ سے پیوستہ)

فخر افغان باچاخان اور فلسفہ فلسفہ عدم تشدد (گذشتہ سے پیوستہ)

مابت کاکا

(صوبائی جنرل سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی )

 اپنے بے مثال مشاہدے کے باعث ایک نبض شناس کی حیثیت سے اپنے عوام کی رہنمائی کا فریضہ انہوں نے جس استقامت کیساتھ سر انجام دیا اس کا اعتراف تاریخ دانوں اور عوام کے علاوہ ان کے بد ترین مخالفین بھی کرتے ہیں۔ باچاخان اور ان کی تحریک نے امن، ترقی اور علاقائی استحکام کیلئے جو لوازمات بتائی تھیں وہ نہ صرف ماضی کے حالات سے نمٹنے کیلئے ناگزیر تھیں بلکہ ان پر عمل کرنے سے پاکستان اور خطے کے مستقبل کو محفوظ بھی بنایاجاسکتا تھا، تاہم ان کی بالغ نظری،وڑن، موقف اور طرز سیاست کو غداری کا نام دیا گیا اور اس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔فخر افغان باچا خان نے بچپن ہی سے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ پشتون بیک وقت کئی قسم کے عذابوں کا سامنا کررہے ہیں ایک طرف ان پر ہزاروں میل دور سے آکر لوگ حکمرانی کررہے ہیں دوسری طرف ان میں علم اور شعور کی کمی ہے۔ یہ بات بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ عصری علوم سے یہ دور بھاگتے ہیں اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے نہیں رہتے۔ باچاخان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ پشتونوں کو جدید اور سائنسی و علمی خطوط پر استوار تنظیم سے بھی روشناس کرایا اور انہیں علم و آگہی کی طرف بھی بلایا فخر افغان باچاخان اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ جب تک کوئی قوم تعلیم یافتہ نہیں ہوگی اس وقت تک ان کی آزادی اور معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔ اس وقت نہ تو حکومت کی جانب سے پختونوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا کوئی معقول انتظام تھا اور نہ ہی قوم کے صاحب ثروت افراد میں اس بات کا احساس اور جذبہ تھا کہ اپنی قوم کو جہالت کے ان اندھیروں سے نکالنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت سکولز کھولے جائیںاگر کسی گاوں میں پرائمری سکولز تھے بھی تو وہاں بھی ہمارے مولوی حضرات کسی کو جانے نہیں دیتے تھے، مگر باچاخان بابا اپنی قوم پرمرمٹنے والی ہستی تھے وہ قوم کے تمام بچوں کو اپنے ہی بچے سمجھتے تھے لہذا قوم کے بچوں کو علم و تعلیم کی روشنی سے روشناس کرانے کے لیے انہوں 1910ء میں مولوی عبدالعزیز کے ساتھ اتمانزئی چارسدہ میں پہلے مدرسہ کی بنیاد رکھی اور دیگر مدارس کے قیام کے لیے دوسرے علاقوں کا دورہ شروع کردیا اور پختونوں کی توجہ علم وتعلیم کی جانب راغب کردی اور ان کے دلوں میں علم کی ضرورت کا احساس پیدا کردیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی مدارس قائم کردیے گئے1921میں آپ نے اتمان زئی میں آزاد سکول کی بنیاد رکھی جس میں قاضی عطااللہ خان، میاں احمد شاہ، عبداللہ شاہ، حاجی عبدالغفارخان، محمد عباس خان، عبدالاکبرخان اکبر، تاج محمد خان اور خادم محمد اکبر ان کے ساتھ رہے۔ان مدارس کے قیام کا اصل مقصد پشتونوں میں مروج غلط رسوم ورواج کا خاتمہ، جنگ وجدل اور تشدد سے نفرت اور ان میں اپنی قومیت یعنی اپنی زبان، ثقافت، تاریخ اور اپنی مٹی سے پیار ومحبت کا جذبہ اور احساس پیدا کرنا تھا۔ چونکہ یہ ایک مشکل کام بھی تھا اور اکیلے ایک فرد کے بس کی بات بھی نہیں تھی لہذا اس اصلاحی کام کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے کے لیے ایک تنظیم یا انجمن کی ضرورت لازمی تھی۔ چنانچہ باچاخان بابا اور ان کے ساتھیوں نے باہمی مشاورت سے 1921اصلاح الافاغنہ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد رکھ دی جس کے ممبران میں محمدعباس ، خان، صدر عبدالغفار خان(باچاخان)، حاجی عبدالغفارخان اتمانزئی، حاجی محمد اکرم خان خان مائی، جمعدارنورمحمدترنگزئی، محمدزرین خان ترنگزئی عبدالاکبرخان اکبر عمرزئی، غلام محی الدین تنگی، فخرقوم میاں صاحب، میاں جعفرشاہ کاکاخیل، فضل کریم نرئی قلا، فضل ربی بدرگہ،، میاں احمدشاہ قاضی خیل، میاں عبداللہ شاہ قاضی خیل، خادم محمداکبرچارسدہ، تاج محمدخان چارسدہ، مولانا شاہ رسول گڑھی امازئی، شادمحمدمیرزو، شیربھادرکوترپانڑ، جلیل خان، خوشحال خان باریکاب، شاہ پسندخان چارغولئی، امیرممتازخان،بیرسٹر محمدجان بنوں، محمدرمضان ڈیرہ اسماعیل خان،حکیم عبدالسلام ہری پور، میاں صاحب پکلئی، قاضی عطااللہ مردان، ثمین جان محب بانڈہ، علی اصغرخان ایڈووکیٹ ہزارہ اورآفندی صاحب ملاکنڈ شامل تھے۔1921میں قائم ہونے والی انجمن کی ثمرات آج پشتون خوا میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن باچاخان نے جن مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کی تھی آج بھی وہ حل طلب ہیں باچاخان کی سر زمین پر غیروں کے ایما پر پشتونوں کی قومی ملی اقداروروایات کو پامال کرنے پشتو زبان پشتون کلچر کو داغ دار کرنے اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے مکمل منصوبہ بندی کے تحت عمل درآمد ہورہی ہے اس کیلئے ضروری کہ باچاخان کے پیروکار ان پروپیگنڈوں کے  توڑ کیلئے میدان عمل میں نکلے اور پشتونوں کے گھر گھر قریہ قریہ نوجوانوں باالخصوص خواتین کو قومی نجات کی اس راہ میں شریک عمل کیا جائے انجمن اصلاح الافاغنہ سے شروع کردہ جہد کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمیں آج اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ باچاخان نے جس عظیم جدوجہد کی شروعات کیں ہم اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور اکیسویں صدی کے علم و ہنر اورٹیکنالوجی سے لیس ہو کر قوم کو شعور وآگہی کا سبق دیں گے جس کا درس فخرافغان باچاخان نے دیا تھا۔