زندگی کی پانچ سال

زندگی کی پانچ سال


کومل خان

 جمیل الدین عالی اور ابن انشا کا شمار بہترین دوستوں میں ہوتا تھا۔ ابن انشا جو کینسر کے مریض تھے اور اس وقت ان کا مرض تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ طبیعت کی خرابی کے باعث جب ابن انشا کو لے کر جمیل الدین عالی ہسپتال گئے تو ڈاکٹروں نے ان کی حالت کے پیش نظر ان کو داخل کر لیا مگر کوئی امید افزا خبر نہ سنائی اور بتایا کہ ابن انشا کے پاس اب کم وقت بچا ہے-راولپنڈی کے سی ایم ایچ میں زندگی کے آخری ایام،ابن انشا راولپنڈی کے سی ایم ایچ میں کینسر کا علاج کافی عرصے سے کروا رہے تھے مگر اس بار جب جمیل الدین عالی ان کو ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹروں نے کینسر کے خطرناک حد تک بڑھنے کی خبر دی- ابن انشا کے چاہنے والوں کے لیے یہ خبر قیامت سے کم نہ تھی مگر ہونی کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ہے-عمر کی نقدی ختم ہوئی،جمیل الدین عالی اس وقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک شام جب دونوں ہسپتال میں تھے تو ایک نوجوان خاتون ابن انشا کے کمرے میں داخل ہوئی اس کے ہاتھوں میں ایک بڑا سا پھولوں کا گلدستہ تھا-اس خاتون نے گلدستہ ابن انشا کے ہاتھ میں تھمایا اور بتایا کہ وہ ابن انشا کی شاعری کی مداح ہیں اور اس وجہ سے ان سے بہت محبت کرتی ہیں۔ انہوں نے جب سے ابن انشا کی بیماری کا سنا اس وقت سے وہ بہت غمزدہ ہیں۔اس وجہ سے انہوں نے اپنے اللہ سے دعا کی ہے کہ اللہ ان کی زندگی کے پانچ سال لے کر ابن انشا کو دے دیں۔ اس خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ابن انشا جیسے شاعر کو اپنی پوری زندگی دینا چاہتی ہیں مگر اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی پرورش اس کی ذمہ داری ہے،اس وجہ سے وہ اپنی عمر کے 5 سال ابن انشا کو دینے کو تیار ہیں-یہاں ایک ایک دن قیمتی ہے،اس خاتون کے جانے کے بعد ابن انشا نے جمیل الدین عالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عورت جو مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینے آئی ہے اس کو کیا پتہ کہ زندگی کا ایک ایک دن کتنا قیمتی ہے-ابن انشا نے اس موقع پر اس خاتون کے لیے دعا کی کہ اللہ اس کو اس کے بچوں کے ساتھ خوش و خرم رکھے اور لمبی زندگی دے-خاتون تو چلی گئیں مگر ادھار نہ ملاان خاتون کی اس بے غرض آفر نے ابن انشا کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعرانہ فطرت ابھر آئی اس وقت میں ابن انشا نے اپنی مشہور زمانہ نظم اب عمر کی نقدی ختم ہوئی تحریر کی،اس نظم میں انہوں نے اس خاتون کا ذکر بھی کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
کیا پانچ برس !!
تم جان کی تھیلی لائی ہو؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
جینے کی ہوس نرالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟اس عورت کے رخصت ہونے کے چند ہی دنوں بعد ابن انشا اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر اس عورت کی پانچ سال کی آفر اور ابن انشا کا جواب اس نظم کی صورت میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیاابن انشا کا شمار اردو ادب کے ان شعرا اور مضامین نگار میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو ادب کو ایک نیا اسلوب دیا،سال 1927 میں پیدا ہونے والے ابن انشا بہت مختصر زندگی بسر کرنے کے لیے لائے تھے اور گیارہ جنوری 1978 کو کینسر کے مرض کے سبب کراچی میں صرف 51 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے-ابن انشا جن کا اصل نام شیر محمد خان تھا ان کے حوالے سے معروف مصنف جمیل الدین عالی نے ان کی زندگی کے آخری ایام کے حوالے سے کچھ ایسے واقعات تحریر کیے جس نے ان کے چاہنے والوں کو جذباتی کر دیا-ابن انشاء کی نظم
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا 
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا 
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی 
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا 
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں 
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا 
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی 
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا 
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے 
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانہ کیا 
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں 
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانہ کیا 
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن 
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا 
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے 
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا 
 انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس دنیا میں اب جی کا لگانا کیا بہت مشہور ہوئی تھی یہ نظم جو سنتا ہے اس پر ایک رقت طاری ہوجاتی ہے ابن انشاء جب اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو ان کی میت جس طیارے میں لائی جارہی تھی اس میں ابن انشاء کی یہ نظم لگائی گئی تھی پورے سفر کے دوران یہ نظم سنتے ہوئے لوگوں کی انکھوں سے آنسونہ تھم سکیمعروف مزاح نگار ابن انشا صرف مزاح نگار ہی نہیں بلکہ مقبول شاعر بھی تھے۔ان کی شاعری اردو ادب میں خاص مقام اور مرتبہ رکھتی ہے، شیر محمد خان کو ابن انشا کے نام سے ہی شہرت حاصل ہوئی، یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں ان کے اصل نام سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ابن انشا 15 جون 1927 کو جالندھر کے ایک نواحی گاں میں پیدا ہوئے۔ 1946 میں جامعہ پنجاب سے بی اے اور1953 میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔1962 میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ابن انشا ٹوکیو بک ڈویلپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کوپبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن بھی تھے۔انہوں نے روزنامہ جنگ کراچی، روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنز اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں بطور کالم نگار خدمات سرانجام دیے۔ان کے معروف شعری مجموعوں میں اس بستی کے ایک کوچے میں، چاند نگر، دل وحشی اور بلو کا بستہ شامل ہیں۔ استاد امانت علی خان نے ابن انشا کی نظم انشا جی اٹھو کو گا کر لازوال شہرت عطا کی۔ان کے سفرناموں میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔1960 میں انہوں نے چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ شائع کرایا۔انہوں نے آپ سے کیا پردہ، خمار گندم اور اردو کی آخری کتاب جیسی لازوال کتابیں لکھیں،  ابن انشا کے مکتبوبات خط انشا جی کے عنوان سے شائع کیے گئے۔آپ 11 جنوری 1978 کو لندن میں انتقال کر گئے۔ریڈیو ملازمت کے دوران انھوں نے ایم اے اردو میں داخل ہونے کی درخواست ریڈیو حکام کو دی جو کہ قبول کر لی گئی۔ ابن انشا کا مزاج ان لکھنے والوں کا سا تھا جن کے خیال میں حقیقت اساطیری کہانیوں اور پر اسرار داستانوں میں تاریخی حقائق سے کہیں زیادہ ملتی ہے۔ وہ امروز میں مضامین لکھتے اور ان کے ترجمے بھی شائع ہوتے تھے۔وہ چار و ناچار اپنے شب و روز بسر کیے جا رہے تھے کہ دو اہم واقعات سرکای ملازمین کے لیے حکومت کے قائم تنخواہ کمیشن کی وجہ سے(مترجمین کے ساتھ ناروا سکوک کی وجہ سے)ان کی ترقی کا رکنا اور ریڈیو پاکستان لاہور سے خبروں کا یونٹ کراچی منتقل ہونے سے انھیں ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ استعفی کے لیے گھر کے حالات اجازت نہیں دے رہے تھے، بالآخر کراچی جانا پڑا اور کراچی ہی کے ہو کے رہ گئے۔ کراچی اس وقت پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔ شروع میں انھیں یہاں کے حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ بعد ازاںانھیں ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں مترجم کی حیثیت سے ملازمت مل گئی اسی دوران ابن انشا نے ایم اے اردو کے لیے اردو کالج کراچی میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی انھیں کالج کے ادبی مجلے ''برگِ گل'' کی ادارت کا اعزاز بھی ملا، بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سرپرستی اس ادارے کو حاصل تھی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے آخری اور بہت سخت زمانے میں ان سے نہایت مخلصانہ نیازمندی برقرار رکھی اور انھیں انجمن واپس کرانے کا ایک بڑا وسیلہ ثابت ہوئے۔ یہ داستان بابائے اردو کے کتابچے ''انجمن کا المیہ'' میں موجود ہے۔ ابن انشا کا اردو کالج کے حوالے سے بابائے اردو کے ساتھ ایک شاگردانہ تعلق قائم رہا۔ وہ ان کے مخلص خاموش مگر باعمل کارکن ثابت ہوئے۔ وہ بابائے اردو کی طرف سے ان کے نیاز مندوں اور دوستوں کے خطوط کے جواب بھی لکھنے لگے، دو سال بعد دستور ساز اسمبلی کی ملازمت چھوڑ کر محکمہ دیہات سدھارے تو مصروفیات کے باعث اس خدمت کی بجا آوری میں پہلا سا معیار قائم نہ رکھ سکے۔ اس نئے ادارے میں حفیظ جالندھری، احمد بشیر اور ممتاز مفتی بھی ان کے ساتھ ملازم تھے۔ اسی دوران ان کا مجموعہ ''چاند نگر'' بھی شائع ہوا۔

 

جب ایک خاتون نے ابن انشاء 
کو اپنی زندگی کے پانچ سال دئیے
 ابن انشا کو بسترِ مرگ پر خاتون کی انوکھی آفر جس نے آخری لمحات کو تبدیل کردیا'کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟اس عورت کے رخصت ہونے کے چند ہی دنوں بعد ابن انشا اس دنیا سے رخصت ہو گئے٭ انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو'اس شہرمیںجی کو لگانا کیا'انکی میت جس طیارے میں لائی جارہی تھی اس میں ابن انشاء کی یہ نظم لگائی گئی تھی پورے سفر کے دوران یہ نظم سنتے ہوئے لوگوں کی انکھوں میںآنسونہ تھم سکے

 

انھوں نے ''ادارہ مطبوعات فرنیکلن'' میں بھی مترجم کی خدمات سر انجام دیں جہاں کئی کتابیں انھوں نے اردو میں ترجمہ کیں۔ ان دنوں اس ادارے سے مولانا صدرالدین ، مولانا عبدالمجید سالک، انتظار حسین اور اشفاق احمد جیسے نامور ادیب منسلک تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے بچوں کے لیے نظمیں لکھنے اور کہانیاں ترجمہ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ پھر ادار مطبوعات پاکستان کے لیے پاکستان کی علاقائی زبانوں کی شاعری کو بھی اردو کے منظوم روپ میں ڈھالا۔ مولانا چراغ حسن حسرت کی وفات کے بعد روزنامہ''امروز'' کے کراچی ایڈیشن کی خدمات ان کے سپرد ہوئیں ۔ اس میں وہ کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ پھر کئی روزناموں اور رسالوں میں باقاعدہ لکھتے رہے، ان کالموں نے ان کی شہرت کو چارچاند لگا دیئے۔ وہ ''پاکستان رائٹر گلڈ'' کی مجلس عاملہ میں بھی رہے۔  میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ''اس بستی کے اک کوچے میں'' شائع ہوا۔  میں سرکاری دورے پر بیلجیم گئے جہاں دنیا بھر کے شاعروں کا اجتماع تھا۔ اس میں انھوں نے پاکستان کی نمائندگی کی، اس دوران وہ دیگر کئی ممالک بھی گئے جہاں وہ کتاب ساز اداروں اور پبلشروں سے ملے تاکہ نیشنل بک سنٹر کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی اہلیت اور استحقاق ثابت کر سکیں۔ بعد میں وہ اس ادارے کے سربراہ ہوئے۔ والدہ کے اصرار پر شکیلہ بیگم کے ساتھ ان کی دوسری شادی ہوئی۔یہ شادی ممتاز مفتی کی بیگم کی وساطت سے ہوئی۔ فروری 1977 ء میں علاج کی غرض سے ابن انشا لندن روانہ ہوئے۔ لندن قیام کے دوران مختلف شاعر ادیب دوستوں سے خط و کتابت جاری رہی جن میں احمد ندیم قاسمی، بیگم سرفراز اقبال اور کشور ناہید وغیرہ شامل ہیں۔ اس دوران بھی وہ 'جنگ'کیلئے کالم لکھتے رہے اور اس دوران وہ برٹش میوزیم کتب خانے سے مستفید بھی ہوتے رہے اور کئی کتابوں، مخطوطوں اور قیمتی دستاویزات کی مائیکرو فلمیں بنوا کر پاکستان بھیجیں' اس دوران وہ پاکستانی سفارتخانے سے بھی عارضی طور منسلک رہے' لندن قیام کے دوران اسی سال دسمبر میں ان کی حالت تشویشناک ہو گئی اور گیارہ جنوری کو ابن انشا اکاون برس کی عمر میں دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔