سندھ کے سیلاب سے متاثرہ کاشتکار تاحال حکومتی امداد کے منتظر

سندھ کے سیلاب سے متاثرہ کاشتکار تاحال حکومتی امداد کے منتظر

فضل عزیز بونیرے

صوبہ سندھ میں حالیہ بارشوں او سیلاب سے سب سے زیادہ چھوٹے درجے کے کاشت کا متاثرہوئے ہیں،حالیہ سیلاب میں ملک بھر کے طرح  سندھ میں کھڑی فصلین تباہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشت کار وں کو  بیعانہ ادا کرنے میں مشکلات کا سامناہے خاص کر ان کاشتکاروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جنھوں نے دوسروں کی زمینیںاجارے پر لی تھیںان متاثرہ کاشتکاروں کے مطابق ایک تو سیلاب نے اس وقت کھڑی فصلوں کو تباہ کیا اور دوسری جانب اب تک بہت سے علاقوں میں چار سے پانچ فٹ پانی کھڑا ہے جسکی وجہ سے کاشتکارکوئی اور فصل کاشت ہی نہیں کر سکتے، تو اس لحاظ سے نقصان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے

 

حکومتی امداد تو دور کی بات اب تک کسی سرکاری افیسر نے متاثرہ علاقے کادورہ تک نہیں کیا ہے، کاشت کار عمریو نے دعوی کیا کہ انہیں نے اپنے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو فون پراپنے نقصانات اور تکالیف کی خبر پہنچائی تو ڈپٹی کمشنر نے علاقے کے دورے کا وعدہ کیا،کہتے ہیں کہ اج تک کوئی بھی وہاں نہیں گیا

 

۔ضلع ٹھنڈو الہ یار کے علاقے چمھبڑ سے تعلق رکھنے والے کاشت کار عمریو کے مطابق وہ سال2022 میں سیلاب آنے سے پہلے خوشحال زندگی گزار رہے تھے، سب ٹھیک جا رہاتھا، انکے مطابق پورا خاندان خوش باش تھا مگر وہ اب ذہنی پریشانی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے عمریو نے مایوس کن انداز میں بتایا کہ وہ اس لیے زیادہ پریشان ہے کہ کاشت کی زمین انکی اپنی نہیں ہے، دوسرے کی زمین مقادے یا اجارے پر لی تھی۔اب ایک طرف زمین کے مالک کو انکے پیسے دینے کی پریشانی ہے تو دوسری جانب زمینوںمیں اب بھی پانی کھڑا ہے، جس کی وجہ سے موسمی فصل کاشت نہیں کر سکتے ۔عمریو کے مطابق انہوں نے ایک سو ساٹھ ایکڑ زمین سالانہ اجارے پر لی ہے جس میں تقریبا 60ایکڑ زمین کاشت کے قابل بنائی ہے۔کہتے ہیں کہ مختلف موسموں میں مختلف فصلیں اوگا کر اچھی خاصی کمائی کرتا تھا، 2022اگست کے مہینے جب سیلاب آیا تو اس وقت کپاس کی فصل کھڑی تھی جس سے لاکھوں روپے کانقصان ہوا۔عمریو نے مزید کہا کہ صرف کپاس کی فصل نہیں بلکہ گنے کی کھڑی فصل بھی مکمل طور پرتباہ ہو گئی۔وہ کہتے ہیں کہ سالانہ آمدن تو دور کی بات اب تو مختلف لوگوں کا لاکھوں روپے کا مقروض ہوں، کیونکہ مختلف فصلوں کا بیج اور کھاد ادھار پر لیا تھا جو کہ فصل کی آمدن کے بعد اداکرنے تھے۔عمریو کے مطابق حکومتی امداد تو دور کی بات اب تک کسی سرکاری افیسر نے متاثرہ علاقے کادورہ تک نہیں کیا ہے، انہوں نے دعوی کیا کہ انہیں نے اپنے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو فون پراپنے نقصانات اور تکالیف کی خبر پہنچائی تو ڈپٹی کمشنر نے علاقے کے دورے کا وعدہ کیا،کہتے ہیں کہ اج تک کوئی بھی وہاں نہیں گیا۔

 


سال 2022 کے اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان، خیبر پشتونخوا صوبے بارشوں او سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے جبکہ پنجاب صوبے کے بھی کئی اضلاع متاثر ہوچکے تھے۔این ڈی ایم اے کے مطابق جون 2022 سے شروع ہونے والے بارشوں اور سیلابوں میں کل 1739 اموات ہوچکی ہیں جس میں صرف صوبہ سندھ میں 799 ہلاکتیں ہوئی ہیں سندھ صوبائی حکومتی رپورٹ کے مطابق صوبے میں کل 20 لاکھ 87ہزار گھر متاثر ہوچکے ہیں جس میںساڑھے چھ لاکھ مکمل طور پر تباہ ہوگئے جبکہ 4 لاکھ 36 ہزار سے زاید جانور بھی سیلاب کے نظر ہوچکے ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق37 لاکھ 77ہزار سے زائد ایکڑ قابل کاشت زمین متاثر ہوگئی ہے


ٹھنڈو الہ یار میں سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والے سوشل ایکٹیویسٹ چندر کمار کے مطابق یہ صرف عمریو کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہاں رہنے والے تمام کاشت کاروں کی یہی حالت ہے اورسب ذہنی پریشانی میں متلا ہو گئے ہیں ۔چندر کمار کے مطابق سیلاب ایک قدرتی آفت ہے اسکے نقصانات اپنی جگہ مگر حکومتی سرمہری نے لوگوں کی پریشانیاںمزید بڑھا دی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے لوگوں کو بنیادی ضرورتیں پوری کرکے نہیں دیں ۔انکے مطابق علاقے میں مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے لوگوں کو صحت و دیگرسہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔سال 2022 کے اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان، خیبر پشتونخوا صوبے بارشوں او سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے جبکہ پنجاب صوبے کے بھی کئی اضلاع متاثر ہوچکے تھے۔

 

 متاثرہ کاشتکاروں کے مطابق ایک تو سیلاب نے اس وقت کھڑی فصلوں کو تباہ کیا اور دوسری جانب اب تک بہت سے علاقوں میں چار سے پانچ فٹ پانی کھڑا ہے جسکی وجہ سے کاشتکارکوئی اور فصل کاشت ہی نہیں کر سکتے

 

این ڈی ایم اے کے مطابق جون 2022 سے شروع ہونے والے بارشوں اور سیلابوں میں کل 1739 اموات ہوچکی ہیں جس میں صرف صوبہ سندھ میں 799 ہلاکتیں ہوئی ہیں سندھ صوبائی حکومتی رپورٹ کے مطابق صوبے میں کل 20 لاکھ 87ہزار گھر متاثر ہوچکے ہیں جس میںساڑھے چھ لاکھ مکمل طور پر تباہ ہوگئے جبکہ 4 لاکھ 36 ہزار سے زاید جانور بھی سیلاب کے نظر ہوچکے ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق37 لاکھ 77ہزار سے زائد ایکڑ قابل کاشت زمین متاثر ہوگئی ہے۔ٹھنڈو الہ یار کی تحصیل جھنڈو مری کے رہائشی او چھوٹے درجے کاشتکار لیلو میگواڑ کہتے ہے تین ایکڑ زمین تھی جو سیلاب نے پوری کی پوری تباہ کر دی، انکے مطابق، یہ زمین مقامی جاگیردار سے سالانہ اجارے یا لیز پر لی تھی، اپنی نہیں ہے تو اب جب سیلاب نے تباہ کر دیا تومیرے پاس کچھ نہیں بچا،صبح شام کے کھانے کے لئے بھی ہمارے پاس پیسے ہیں نہ کسی نے ہماری مدد کی۔میرے چھ بچے ہیں میں خود بیمار ہوں اب کسی اور کام کی طاقت بھی نہیں رکھتا ہوں۔اب میں زمین کے مالک کے پیسوں کی ادائیگی کے لئے بھی پریشان ہوں کہ وہ کہاں سے لاؤں، کیونکہ مالک بار بار اپنے حصے کے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

 


حالیہ سیلاب میں ملک بھر کے طرح  سندھ میں کھڑی فصلین تباہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشت کار وں کو  بیعانہ ادا کرنے میں مشکلات کا سامناہے خاص کر ان کاشتکاروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جنھوں نے دوسروں کی زمینیںاجارے پر لی تھیں

 

چندر کمار کے مطابق مقامی نہ صوبائی حکومتی ذمہ داران نے علاقے  کا دورہ کیا ہے نہ ہی کسی کی مدد کی ہے۔جبکہ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ضلعی حکومت اور علاقے کے منتخب صوبائی اور قومی نمائندوں نے نہ صرف علاقے کا دورہ کیا بلکہ لوگوں کی مشکلات کم کرنے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہے۔ٹنڈو الہ یار کے ڈپٹی کمشنر محمد ابراہیم کے مطابق حکومتی کوششوں کی وجہ سے زمینوں میں کھڑا پانی تقریبا نکل چکی ہے، انکے مطابق تقریبا دس فیصد علاقے ایسے ہیں جہاںکم مقدار میں اب بھی پانی موجود ہے۔حکومتی سروے جاری ہے اب تک کے رپورٹس کے مطابق علاقے میں پیاز، کپاس اور دیگر فصلیںمکمل تباہ ہو چکی ہیں۔حکومتی جو سروے ہو چکا ہے، جن لوگوں کی اموات ہوئی ہیں حکومت متاثرہ خاندانوں کوفی کس دس لاکھ مالی مدد کریگی، جن کی زمینیں متاثر ہوئی ہیں انکی بھی مالی مدد کی جائیگی،دوسری جانب ہم متاثرہ کاشتکاروں کو کم قیمت پر زرعی بیج فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق جن کے جانور مرے ہیں انکی بھی مدد کی جائے گی صوبائی حکومت کے مطابق سیلاب سے بہت تباہی مچی ہے اس لئے لوگوں کی پوری بحالی میںوقت لگے گا حکومت کوششوں میں مصروف ہے۔