جنرل باجوہ نے ایک نیا پنڈورہ بکس کھول دیا

جنرل باجوہ نے ایک نیا پنڈورہ بکس کھول دیا

فوج کے سبکدوش ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کے روز راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی تمام تر مشکلات۔مسائل اور بحرانوں کے لئے سیاسی رہنماووں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ جنرل صاحب نے نہ صرف 2018 کے عام انتخابات میں پاک فوج پر لگنے والے الزامات کو مسترد کر دیا بلکہ انہوں نے 1971کے شرمناک سانحہ مشرقی پاکستان کے لئے بھی سیاسی رہنماووں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس وقت کے فوجی قیادت کو بھی پارسا قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ تاہم جنرل صاحب نے ایک اہم اور ضروری بات بھی کہہ دی ہے کہ فوج کو کسی بھی طور پر سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔ جنرل باجوہ صاحب کی یہ بات دیر آید درست آید کے مصداق ہے اور اب بھی اگر واقعی فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرے اور سیاسی طور پر منتخب حکومتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرئے تو یہ ملک خوشحال اور مترقی ممالک کی فہرست میں جگہ بنا سکتا ہے ۔ جنرل صاحب نے یہ بھی کہہ کر لکھاریوں اور تجزیہ کاروں کو انکے بدھ کے روز ہونے والی تقریر پر تبصرہ یا تجزیہ کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے کہ ہر ایک کو فوج کے کردار پر تبصرہ کرنے کی آزادی ہے مگر عزت و احترام کے دائرے میں۔ جنرل صاحب کی اس حوصلہ افزائی کی جتنی بھی ستائش کی جائے اور شکریہ ادا کیا جائے کم ہے ۔ بہر حال جنرل صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ 1971کے شرمناک سانحے کو سیاسی قیادت کے کھاتے میں ڈالنے سے پہلے اگر جسٹس حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو نہیں پڑ سکتے تو کم از کم جنرل ہیڈ کوارٹرز میں نصب افواج پاکستان کے ناموں کی تختیوں پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کرتے کیونکہ مشرقی پاکستان کے علیحدگی کے وقت اور اس سے لگ بھگ پندرہ سال قبل سے ملک پر فوج کی براہ راست حکمرانی تھی ۔ اکتوبر 1958میں جنرل ایوب خان نے اپنے محسن صدر سکندر مرزا کوہتھکڑیوں میں باندھ کر مارشل لا نافذ کیا تھا اور اسی جنرل ایوب خان نے 1967سے 1969تک عوامی غیض و غضب کے نتیجے میں کرسی صدارت چھوڑ کر اقتدار کسی سیاسی رہنما کو نہیں بلکہ ایک اور فوجی جنرل یحیی خان کے حوالے کیا تھا ۔1947میں قیام پاکستان بالخصوص 1958سے 1970کے عام انتخابات تک مشرقی پاکستان میں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بنگال کے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے قیام پاکستان کے لئے حقیقی معنوں میں جدوجہد کی تھی اور قربانیاں دی تھیں وہ سب کچھ جسٹس حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں حرف بہ حرف درج ہیں ۔ جنرل ایوب کے سیکرٹری نے اپنی کتاب میں جنرل ایوب کے حسین شہید سہروردی کے ساتھ اس بحث یا گفتگو کو بھی بیان کیا ہے جس میں انہوں نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے کا کہا تھا۔ جنرل باجوہ صاحب کا موقف ہے کہ بنگال میں فوج کی تعداد صرف چونتیس ہزار تھی جو کسی بھی طور انکے بقول ہندوستان کے ڈیڑھ لاکھ اور بنگال کی حریت پسند تحریک مکتی باھنیء کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی کیا جنرل صاحب اس بات کی وضاحت کرینگے کہ برطانوی حکمرانوں سے آزادی اور پاکستان کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو کیوں پاکستان کے اقلیتی  حصے مغربی پاکستان سے آزادی کے لئے میدان میں آنا پڑا اور انہوں نے مدد کے لئے اس ہندوستان سے اپیل کی جس کے ساتھ وہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک ساتھ رہنے سے انکاری ہو گئے تھے ۔ جنرل باجوہ صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے تھا کہ برطانوی حکمرانوں سے آزادی کے حصول میں پنجاب کا حصہ اتنا زیادہ نہیں تھا مگر قیام پاکستان کے بعد سے انگریز سے آزاد کئے گئے اس ملک کی حکمرانی پر غلبہ زیادہ دیر کے لئے پنجاب کے حصے میں رہا ہے اور حکمرانی کے اس غلبے کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے میں اہم کردار سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی کاہے ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی کارکن اس مملکت عزیز کا دشمن، غدار یا بد خواہ نہیں ۔ انہیں اس ملک سے اتنا ہی پیار اور محبت ہے جتنا جنرل باجوہ صاحب کا یا انکی بہادر افواج میں شامل کسی اور افسر یا جوان کاہے۔ اس ملک کا ہر فرد اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی، منتخب پارلیمان کی بالادستی، عدلیہ کی حقیقی معنوں میں آزادی اور آئین کی پاسداری چاہتاہے۔ چاھئے تو یہ کہ جنرل صاحب تمام اداروں کی انکے جائز آئینی اور قانونی حدود میں رہ کر اس مملکت عزیز کو مستحکم، خوشحال اور پر امن بنانے کے تلقین کے ساتھ رخصت ہوتے مگر انہوں نے نہ صرف 2018 کے عام انتخابات اور اپریل 2022کی تحریک عدم اعتماد میں فوج کے کردار سے لاتعلقی بلکہ سولہ دسمبر 1971کے شرمناک سانحے کے لئے سیاسی قیادت کو مورد الزام ٹھہرانے کے ساتھ روانگی کے وقت ایک اور پنڈورا بکس کھول دیا جس پر بحث مباحثے سے پہلے سے ریاستی اداروں میں موجود تناو میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات پیدا ہونگے جو کسی بھی طور ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں۔