غنی خان،رنگ و نُور اور روشنی و سائے کا شاعر  

غنی خان،رنگ و نُور اور روشنی و سائے کا شاعر  



رو خان یوسف زئی

کہتے ہیں کہ زندگی سے  لطف اٹھانے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ترین شخص وہ ہے جس میں جذبے کی گرمی ہو، بے باک ہو اور جسے کسی چیز کا ڈر اور خوف نہ ہو  اس کے علاوہ انسان کی پختہ خوبیاں تین بتائی جاتی ہیں، جن میں دانش، رحم دلی اور جرات اظہار شامل ہے اگر مذکورہ''موزوںترین شخص'' میںان تین خوبیوں کے علاوہ اور  کئی خوبیاں بھی شامل ہو جائیں تو پھر اس شخص کو ہم صرف عام ''موزوں ترین'' شخص نہیں بلکہ اسے پھر نابغہ، مفکر، دانشور اور فلسفی کا نام اور مقام دے سکتے ہیں۔
پشتو زبان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر، ادیب، دانشور، مصور، مجسمہ ساز، فلسفی اور سیاست دان غنی خان ایک ایسی شخصیت اور ہستی کا نام ہے جو بے شمار خوبیوں کے مالک تھے اور زندگی سے جس طرح انہوں نے حظ اور لطف اٹھایا ہے اس سے ان کے جاننے،قریب رہنے اور پڑھنے والے بہت  اچھی طرح واقف ہیں۔غنی خان کو پختونوں کی اکثریت'' لیونے فلسفی'' (دیوانہ فلسفی) رنگ و نُور کا شاعر اور روشنی اور سائے کے شاعر کے نام سے جانتی،لکھتی اور پکارتی ہے۔ غنی خان بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے اور ہر خوبی کو جہاں انہوں اپنی شاعری میں سمویا ہے وہاں برش اورچینٹی کے ذریعے مصوری اور مجسمہ سازی میں بھی کمال کر کے دکھایا ہے۔خان عبدالغنی خان خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفارخان کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے جو 1915ء کو اتمان زئی چارسدہ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے گائوں کے آزاد اسلامیہ سکول سے حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد باچاخان نے 1928ء میں رکھی تھی اور اپنے دونوں بیٹوں غنی خان اور خان عبدالولی خان کو بھی اسی سکول میں داخل کرایا تھا۔سکول میں ہاسٹل بھی تھا جس کی ماہانہ فیس غنی خان تین روپے دیا کرتے تھے اور اس فیس میں ان کے جملہ اخراجات پورے کیے جاتے تھے  چوں کہ انہیں صبح صرف ایک پیالی چائے ملتی تھی اس لیے غنی خان رات کو کھانا کھانے کے دوران روٹی کے چند ٹکڑے چھپا کر صبح چائے کے ساتھ کھالیتے تھے اس وقت  ان کے سکول میں کرسیاں یا بینچ نہیں ہوا کرتا تھے اور طلباء چٹائی پر بیٹھ کر اسباق  پڑھا کرتے تھے  شام کو جب وہ چٹائیاں اٹھاتے تو اس کے نیچے بے شمار بچھو پڑے ہوئے ملتے تھے ان کے سکول میں کوئی بیت الخلا بھی نہیں تھا اور طلباء رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جایا کرتھے تھے  اس طرح کے ماحول اور سکول میں ملک کے مشہور اصلاح پسند،سماجی اور سیاسی شخصیت خان عبدالغفار خان کے صاحب زادوں غنی خان اورخان  ولی خان نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میںغنی خان مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کے ہاں''برلاہاوس''میں بھی کئی سال تک رہ چکے تھے اور وہ گاندھی جی کے بڑے متعقد اور ان کے کردار اور اخلاق سے بے حد متاثر رہے۔ اس وقت  وہاں غنی خان ایک شوگرمل میں بطور انجئنیر کام کیا کرتے تھے اور شادی بھی وہاں حیدرآباد دکن کے ایک بہت بڑے نواب کی صاحب زادی روشن نامی لڑکی سے کی جس سے غنی خان کا صرف ایک بیٹا فریدون پیدا ہوا تھا جو شادی کے چند سال بعد نوجوانی میں اپنے ایک  کسان  کے ہاتھوں حادثاتی موت  چل بسا۔غنی خان گھڑ سواری کے علاوہ شکار کھیلنے کے بھی بہت شوقین تھے شادی کے بعد جب ایک دن وہ ہرن کا شکار کرکے گھر لے آئے تو ان کی اہلیہ روشن بیگم نے انہیں کہا کہ آپ جیسا حساس اور شاعر ادیب آدمی بھی ان معصوم جانوروں کو گولی سے مارتا ہے ؟ بیگم کی زبان سے یہ بات سن کر غنی خان نے اسی دن سے شکار کرنا چھوڑ دیا اور مرتے دم تک پھر کبھی شکار کا نام نہیں لیا۔ ایک دن انہیں ایڈمرل سلاڈیس کی بیٹی جس کو غنی خان میرابائی کے نام سے پکارتے تھے اور وہ بھی گاندھی جی کے ہاں'' برلاہاوس'' میں رہتی تھی۔ غنی خان سے کہنے لگی کہ آج آپ بیت الخلاء کی صفائی کریں گے اور اگر انکار کیا تو پھر آپ کو یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی جس کے جواب میں غنی خان نے کہا کہ میںایک پختون کا بیٹا ہوں کسی بھنگی اور صفائی کرنے والے کی اولاد نہیں ہوں کہ آپ مجھ سے بیت الخلاء کی صفائی کروانا چاہتی ہو؟غنی خان کے اس انکار کا جب گاندھی جی سے شکایت کی گئی تو انہوں نے غنی خان سے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کی جگہ میں بیت الخلاء صاف کرلوں گا۔ چوں کہ اس مشترکہ بیت الخلاء کو ہر کوئی باری باری صاف کیا کر تے تھے ایک ہفتہ مسلسل گاندھی جی نے بھی اپنی باری آنے پر صاف کیا تھا۔غنی خان کی عمر اس وقت 22 سال تھی جب کہ اندرا گاندھی اس وقت چودہ سال کی تھی اور دونوں ٹیگور یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔اور دونوں کی ٹیوٹر بھی ایک نین لعل نامی خاتون تھی۔غنی خان ہندوستان کے آرٹس سکول میں بھی پڑھ چکے تھے ابتدا میں وہ مینڈکوں،مکھیوں اورکتوں کی تصویریں بنایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ وہاں شعبہ انگریزی میں صحافت کی کلاسیں بھی لیتے رہے۔ان کے ہاتھ کا بنا ہوا ایک مجسمہ ہندوستان کے شانتی ٹیکشن  میں بھی رکھا گیاہے۔شاعری انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں شروع کی تھی۔غنی خان 1930 /1932 ء کے دوران امریکا میں بھی رہے ہیں اس کے علاوہ لندن، فرانس،چین،جرمنی،جاپان،اور اٹلی بھی دیکھ چکے تھے ۔مگر اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں''کہ دنیا جہاں کی خوبصورتی اور حسن میری اپنی دھرتی اور اپنے خاکی چہرہ پختون کے سامنے ہیچ ہے''۔انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں بے شمار دفعہ گرفتارہوکر دو ،دو تین،تین سال تک ہری پور،ملتان،لاہور،ڈیرہ اسماعیل خان، حیدرآباد اور پشاور کی جیلوں میں قیدبامشقت اور قید تنہائی بھی گزارچکے تھے۔ خدائی خدمت گار تحریک کا مشہور ہفت روزہ''پختون'' میں ''گڈے وڈے''کے عنوان سے''لیونے فلسفی''(دیوانہ فلسفی) کے نام سے انگریزوں اور ان کے کاسہ لیس خوانین اور ملاوں کے خلاف زوردار فکاہیہ کالم بھی لکھتے رہے۔یہ بات بلا تردید کہی جاسکتی ہے کہ  پشتو زبان میں خوشحال خان خٹک کے بعد غنی خان واحد شاعر ہیں جنہوں نے بڑی بے باکی ، دانش اور جرات اظہار سے کام لیتے ہوئے انسان، دنیا، مذاہب، خدا، شیخ، ملا،واعظ،جنت، دوزخ اور موت و حیات کے بارے میں نہ صرف نئے نئے سوالات اٹھائے بلکہ اپنے علم و ہنر سے کام لیتے ہوئے اپنے بہت سے اعتراضات کو بھی شاعرانہ زبان میں سوالات کی رنگ میں پیش کیا ہے ۔انہوں نے پشتو شاعری میں اپنے لئے ایک الگ راستہ، ایک منفرد رنگ،جداگانہ طرز اور ایک الگ روایت کی طرح ڈالی ہے بحیثیت ایک کامیاب تجربہ کار انجینئر کے انہوں نے حیات و کائنات کے ذرے ذرے کی ساخت، رنگ و نور، شکل اور تعمیر کو ایک انجینئر کی آنکھ سے دیکھا پرکھا ہے اور ایک مفکر، شاعر، اور فلسفی کے دماغ سے سوچ کر اسے لفظوں اور رنگوں کی زبان میں پیش کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری کو مشکل فلسفہ نہیں بل کہ مشکل فلسفے کوآسان شاعرانہ زبان اور انداز بخشا ہے۔ 
غنی خان نے اپنے مفکرانہ ذہن، شاعرانہ مزاج اور جرات رندانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی قوم کو حیات و کائنات کے بارے میں نئے نئے عقلی اور سائینسی سوالات کی راہ پر چلنے کی ہمت اور زبان بخشی ہے اور اپنے پڑھنے والوں میں ایک تجسس اور بے قراری پیدا کرڈالی ہے۔ زندگی کیا ہے ؟ کائنات کی تخلیق کا اصل مقصد کیا ہے؟ اس دنیا کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ موت کیا ہے ؟ اور پس مرگ انسان کی روح کہاں پرواز کر کے چلی جاتی ہے ؟کعبہ کیا ہے؟ نماز اور سجدے کی اصل حقیقت کیا ہے؟ ہوس اورمحبت میں کیا فرق ہے؟  اس طرح کے اور بہت سے نئے سوالات غنی خان کی شاعری میں پڑھنے والے کے ذہن میں بیٹھتے چلے جاتے ہیں۔ان کے شاعری کے  مجموعوں کے نام''پلوشے''فانوس''دپنجرے چغار''جیسے بعد میں افغانستان کی حکومت نے تینوں مجموعوں کو''دغنی کلیات'' کے نام سے شائع کیا بعد میں اس کلیات میں ان کی غیر مطبوعہ کلام کو شامل کرکے یونی ورسٹی بک ایجنسی پشاور نے''دغنی لٹون''( غنی کی تلاش) کے نام سے شائع کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ غنی خان نے پختونوں کی تاریخ پر انگریزی زبان میں بھی ''دی پٹھان'' کے نام سے  ایک کتاب لکھی ہے انہیں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان کے علاوہ ملکی سطح پر بھی کئی ادبی اور سماجی تنظیموں  نے  ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا ہے 
غنی خان نے تمام مذاہب عالم کا فلسفہ اور مختلف اقوام کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا، اسے پرکھا مگر ان ڈھیر سارے مطالعے اور مشاہدے کے بعد وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ''میں نے بہت سوں پیروں، فقیروں کو ٹٹولا بہت سے مذاہب کا بغور مطالعہ کیا لیکن کہیں بھی مجھے روشنی کا ایک قطرہ نہیں ملا۔ بس ایک قصہ در قصہ ہے جس کا کسی آغاز کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی اختتام کا''۔ ان کے خیال میں یہ ایک ایسی خاموشی ہے جو ازل سے ابد تک جاری ہے جیسا کہ وہ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں
محبت جب خاموشی پر حاوی ہو جاتی ہے
تو وہ نغمہ بن جاتی ہے
جب نغمہ سرکش یا باغی ہو جاتا ہے
تو وہ شور کی شکل اختیار کر لیتا ہے
جب خیال اپنے آپ پر ایمان لے آتا ہے 
تو وہ الفاظ بن جاتے ہیں
 جب الفاظ سرمست ہو کر رقص کرنے لگتے ہیں تو وہ ساز میں بدل جاتے ہیں
 اور جب ساز خوب صورت اور نازک خوابوں میں کھو جاتا ہے تو خاموشی میں بدل جاتا ہے
 اس لیے خاموشی ازل ہے اور خاموشی ابد بھی''۔
اپنی ایک دوسری نظم میں ملا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
آئو ساقیا آوآئو
پرے ہٹ پرے ہٹ ملا!
مجھے آپ کی یہ پکی پکی باتیں بہت بری لگتی ہے
میں کوئی بچہ تھوڑا ہوں 
کہ اپ کی دوزخ کے ڈر سے اپنی جنت چھوڑ دوں!
ایک اچھا محبوبانہ میخانہ دے دوں 
اور اس کے عوض کھڈے اور کھردری زمین لے لوں!
ایک اور نظم جو ملا اور دیوانے(غنی خان) کے مابین مکالمہ پر مشتمل ہے اس میں کہتے ہیں
دیوانے۔ مکہ کیا چیز ہے؟
ملا یہ یہ ایک عاشق کا گھر ہے
گھروندے بے شمار ہیں اور سب کا مراد خالق ہے
دیوانے۔ایمان کیا ہے؟
ملا۔یہ ایک پکا گماں ہے اور محبوب کے وصال کی خاطر ایک خواب دیکھنا ہے
دیوانے۔حوُر کیا ہے؟
ملا۔یہ ایک سفید تتلی ہے شفق کی ایک لکیر ہے اور ہنسی مسکراہٹ کا بگولہ ہے
دیوانے۔نشہ کیا ہے؟
ملا۔یہ سیر پر نکلنا ہے،مستی کے رنگین محل میں آنا اور جانا ہے
دیوانے۔
دیوانے۔نماز کیا ہے؟
ملا۔مٹی کو چھومنا ہے،محبوب کے کوچے میں جانا ہے اور امید کا ارمان میں بدلنا ہے
دیوانے۔سجدہ کیا ہے؟
ملا۔اپنے آپ کو مٹی کرنا مست پھولوں کا ہار محبوب کے قدموں میں رکھناہے
دیوانے۔وصال کیا ہے؟
ملا۔حسن میں ڈوبنا ہے۔یہ ستاروں پر رقص اور چاند میں پھیلنا ہے
پیرانہ سالی کے باوجود غنی خان نے مرتے دم یعنی 15مارچ 1996ء تک جتنے شاعری، پینٹنگز، مصوری اور مجسمہ سازی   کے نمونے تخلیق کیے ہیں ان میں ایک چیز کو بنیادی اہمیت دی ہے اور وہ ہے حسن و محبت۔ غنی خان کے نزدیک حیات انسانی کی اس پوری کہانی کی ابتداء بھی محبت سے ہوئی ہے تاکہ بہتر انسان وجود میں آئے۔ محبت جیسے غنی خان قائم و دائم حقیقت کا نام دیتے ہیں اور حسن کو اس حقیقت کا سایہ قرار دیتے ہیں ان کے خیال میں حسن کے لیے زوال ہے مگر محبت ایک لازوال حقیقت ہے اس کے علاوہ ان کی شاعری میں اپنے اردگرد ماحول کے تمام سیاسی، سماجی اور تہذیبی رنگ موجود ہیں۔ خصوصاً آزادی ، قوم پرستی،انسان دوستی اور وطن پرستی ان کی شاعری کی روح ہے ۔ غنی خان پشتو زبان کے حال سے زیادہ مستقبل کے شاعر ہیں اور کوئی بھی باشعور قوم اپنے مستقبل سے غافل نہیں رہ سکتی پھر غنی خان تو صرف ایک مٹی کا ڈھیر نہیں ۔ 
جیسا کہ وہ خود اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں ''اے ملا! تم سنتے ہو یانہ۔ موت بھی یہ نعرے لگا رہی ہے کہ غنی خان صرف خاک کا ڈھیر نہیں پھر وہ کیسے خاک ہو جائے گا ؟