
کاکاجی کو کیسے بھول سکتے ہیں
روخان یوسف زئی
اگر چہ تین جنوری کو ہم نے کاکاجی صنوبر حسین مومند کی برسی کے حوالے سے ایک تفصیلی کالم لکھا تھا جو انہی صفحات پر شائع کیا گیاتھا۔تاہم آج ایک دوست نے واٹس ایب پر پیغام بھیجا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم برصغیر کے اتنے بڑے حریت پسند اور ترقی پسند رہنما کاکاجی صنوبرحسین کو بھول بیٹھے ہیں؟لہذا اس دوست کی خاطر ایک اور زایہ نظر سے کاکاجی کے بارے میں ایک کالم اور سہی۔اگرچہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کئی کالموں،مقالات اور کتابوں کا متقاضی شخصیت ہے۔کاکاجی صنوبرحسین مومند نے سیاست،صحافت اور ادب کے ذریعے نہ صرف اپنی قوم بلکہ دنیا کے تمام مظلوم اور محکوم انسانوں کے حقوق کے لیے باقاعدہ عملی جدوجہد کی۔قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔اور جس وقت ''انجمن ترقی پسند مصنفین''پر پابندی لگائی گئی تو انہوں نے اس کے متبادل کے طور پر''اولسی ادبی جرگہ''کے نام سے ایک ایسی ترقی پسند ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے پختون لکھاریوں کی ذہنی آبیاری سمیت ان میں تنقیدی شعور بھی اجاگر کیا اور پشتو ادب میں آج بھی جو بڑے بڑے قدآور لکھاریوں کے ناموں کا ذکر کیاجاتا ہے اکثریت اولسی ادبی جرگہ کے تربیت یافتہ رہی اور اس بات کا تمام کریڈت کاکاجی صنوبرحسین مومند کو جاتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد سیاست کے مقابل زیادہ تر توجہ ادب اور صحافت پر مرکوز رکھی۔کاکاجی صنوبر حسین مومند جو اس دنیا میں 66 برس تک زندہ رہے۔ (1897.1963ئ) مگر اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو ان 66برسوں میں انہوں نے سیاست،ادب اور صحافت کے میدان میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں، جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔وہ بنیادی طور پر ایک ترقی پسند نظریاتی انسان تھے۔انہوں نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو پورے برصغیر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ کاکاجی نے جب میٹرک کیا تو آگے مزید تعلیم چھوڑ دی اور محکمہ تعلیم میں بطور استاد بھرتے ہوئے۔ چونکہ ان کی رگوں میں جوانی کا تازہ خون ابلُ رہاتھا۔اس میں کچھ کرنے کا حوصلہ تھا۔حصول آزادی کی جدوجہد شروع ہوچکی تھی۔غیرملکی حکمرانوں کے خلاف محب وطن جماعتیں اور سیاسی رہنما تقریریں کرتے،جلوس نکالتے،تحریکیں چلاتے،قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے،اور ان آزمائشوں کے بعد کچھ زیادہ تن دہی سے کام کرتے تھے۔حکومت کے خلاف عوام کی یلغار اس ہنگامہ داروگیر کی بھنک جواں سال صنوبرحسین کے کانوں تک پہنچ چکی تھی۔چھ ماہ تک سکول میں مغزماری کرتے کرتے وہ تنگ آچکاتھا۔اس نے معلمی چھوڑ دی اور ملکی سیاست میں حصہ لینے لگا۔1920ء میں کاکاجی صنوبرحسین معلم کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور عملی سیاست میں پہلا قدم رکھا اس غرض کے لیے1924ء کو اپنے گاوں میں ''انجمن زمین داران'' کے نام سے ایک اصلاحی اور فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد ذرا وسیع پیمانے پر ایک سیاسی تنظیم ''جمعیت نوجوانان سرحد'' کے نام سے بنائی جو بعد میں ہندوستان کی ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کی شکل اختیار کرگئی اور نوجوانان بھارت سبھا کے نام سے تبدیل ہوکر مشہور ہونے لگی،نوجوان بھارت سبھا وہ حیثیت اختیار کرگئی کہ ہندوستان کے بڑے بڑے سیاسی رہنما اس کی طرف متوجہ ہونے لگے۔یہ کاکاجی صنوبرحسین کی سیاسی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔سیاست ان کی زندگی میں رچ بس گئی تھی۔بلکہ وہ اپنے آپ کو بنیادی طور سیاست دان ہی سمجھتے تھے۔ادب،صحافت اور دیگر مشاغل نے ان کی سیاسی زندگی سے جنم لیاتھا۔اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی سیاسی تنظیموں کے بارے میں کاکاجی نے فارغ بخاری کو ایک مباحثے میں کہا تھا کہ''بھائی میں بنیادی طور پر ایک سیاسی آدمی ہوں۔سیاست ہی نے مجھے صحافت اور ادب کی جانب متوجہ ہونے کا موقع دیا۔میں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1920ء میں کیا۔ان دنوں نہ مجھے ادب سے کوئی تعلق تھا نہ صحافت سے۔1924ء میں ،میں نے زمیندارہ انجمن بنائی۔اس کا مقصد دیہات سدھار تھا۔دوسرے سال پشاور میں نوجوانان سرحد کی بنیاد رکھی۔جس کا نام بعد میں نوجوان بھارت سبھا رکھا گیا''۔بہرحال چھوٹا منہ اور بڑی بات کی بجائے اگر کاکاجی صنوبرحسین مومند کے بارے میں ان بڑی بڑی علمی اور ادبی شخصیات کی رائے پیش کروں تو پڑھنے والوں پر یہ راز کھول جائے گا کہ کاکاجی صنوبرحسین مومند حقیقی معنوں میں کتنے عظیم باعمل انسان تھے۔اردو کے معروف شاعر،ادیب اور دانشور احمدندیم قاسمی جو1958ء کے مارشل لا کے دوران کاکاجی صنوبرحسین سے جیل میں متعارف ہوئے تھے۔کاکاجی کی وفات تک ان کے شیدائی اور مداح رہے۔کاکاجی کی شخصیت کا جو مشاہدہ انہوں نے قیدوبند کے محتصر عرصہ میں کیا تھا اس کا ذکر انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ''انسان یقیناً بڑا پراسرار جاندار ہے۔وہ سالہا سال کی رفاقت میں بھی اپنی جان چھپائے رکھتا ہے۔بعض صورتوں میں یوں بھی ہوتاہے کہ انسان زندگی بھر اپنے آپ سے بھی متعارف نہیں ہوپاتا۔بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جن کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ دار ہوتاہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس کوئی رزا نہیں ہوتا،جن کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ان کی خارجی زندگی اور داخلی سوچ ایک کھلی کتاب ہوتی ہے جسے ہر خواندہ شخص پڑھ سکتاہے۔کاکاجی صنوبرحسین ان ہی لوگوں میں شامل تھے جن کی تعداد ہر درو میں کم ہوتی ہے۔مگر جن کا وجود زندگی سے، انسان سے، حسن وخیر سے،عدل وتوازن سے،صدق وصفا سے اور جوانمردی وپامردی سے پیار کرنا سکھاتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی ایک نظر،ایک بول،ایک مصافحے سے ایک تبسم ان کے پورے کردار کو آپ کے سامنے لے آتاہے،مجھے کاکاجی صنوبرحسین خان کی رفاقت کی عزت اور مسرت بہت کم نصیب ہوئی ہے مگر میں انہیں اتنے قریب سے جانتاہوں جتنا وہ حضرات جانتے ہوں گے جنہوں نے کاکاجی کے ساتھ زندگی کی ایک طویل معیاد بسر کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔وہ لوگ جو پہلے تعارف میں آپ کو اپنی آنکھوں کے راستے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور پھر وہاں اپنی شخصیت کی تمام کھڑکیوں کو وا کردیتے ہیں وقت کے فاتح ہوتے ہیں۔ان کے حوالے سے ایک لمحے اور ایک صدی کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔میں کاکاجی کی صحبت میں صرف چند لمحے رہا مگر جیسے صدیوں رہا۔ان کے مزاج کھرے کردار کی تفصیل معلوم نہ سہی مگر مجھے اس بنیاد سے تعارف حاصل ہے جن پر ان کے پیارے مزاج اور کھرے کردار کی خوبصورت عمارت استادہ تھی۔یہ بنیاد محبت تھی،اپنائیت تھی،خلوص تھا،شفقت تھی اور وہ رحمت تھی جو آج کے انسان سے چھن کر رہ گئی ہے''۔
اسی طرح اردو زبان کے معروف ترقی پسند شاعر،ادیب اور دانشور فارغ بخاری نے بھی اپنی تحریروں میں کاکاجی کے کردار پر روشنی ڈالی ہے وہ رقم طراز ہیں کہ''میں کگے ولے(کاکاجی کے) گاوں میں داخل ہوا تو بائیں جانب درختوں کے جھنڈ میں ندی کے کنارے ایک چھوٹے سے حجرے کی چارپائی پر ایک سفید ریش بوڑھا اکڑوں بیٹھا ہوا نظر آیا۔اردگرد لوگوں کا ایک میلہ سالگا ہواتھا۔مجھے کاکاجی سے ملناتھا سوچا یہی سے معلوم کرلوں۔آگے بڑھ کر دیکھا تو وہی سفید ریش بزرگ کاکاجی نکلے جو اپنے عقیدت مندوں کے درمیان کسی پیر کی طرح جمے بیٹھے تھے اور سچ پوچھیے تو کاکاجی ہیں بھی ایک پیرہیں۔عام طور پر پیرروحانی ہوتے ہیں کاکاجی صنوبرحسین سیاسی پیر ہیں جو لوگوں پر جھاڑ پھونک کرنے اور گنڈا تعویز دینے کی بجائے سیاسی اورد اور وظائف سکھاتے ہیں۔مجھے دیکھتے ہی وہ مسکراتے ہوئے اٹھے نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کیا ساتھ چارپائی پر بٹھایا،عمر نے ان کے سرخ وسفید چہرے پر جھریاں ڈال دی ہیں۔جنہیں کاروان عمررفتہ کے نشان سمجھیے۔لیکن وہ خوش طبعی چہرے کی بشاشت اورزیرلب ایک لافانی مسکراہٹ جو کاکاجی کی شخصیت کا جزو ہے،مہ وسال کی دستبرد سے محفوظ چلی آرہی ہے اور ہمیشہ برقرار رہے گی''۔پشتو کے بابائے غزل امیرحمزہ خان شنواری کاکاجی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ''کاکاجی ایک ایسا متوکل اور پختہ ارادے کا مالک تھا کہ دنیا کے سیم وزر اس کو متزلزل نہیں کرسکتے ہیں اور ان ہی اصولوں کی بنا پر انہوں نے انگریز جیسی جابرحکومت سے ٹکر لی تھی،پہاڑوں اور جنگلوں میں عمر کا قیمتی حصہ گزارا تھا۔لیکن استعمار کے آگے جھکے نہیں تھے اور زندگی کے آخری سانسوںتک چٹان کی طرح مستحکم کھڑے رہے''۔علامہ قلندرمومند کاکاجی کے بارے میں کہتے ہیں کہ''کاکاجی سیاست مقام کے لیے نہیں،اپنے عوام کے لیے کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ میں کسی طرح غریب عوام کی پس ماندگی اور بدحالی دور کروں موجودہ دور میں آج تک میں نے اتنا دیانت دار سیاست دان نہیں دیکھا''کالم کے اختتام پر رضاہمدانی کی نظم ( جو انہوں نے کاکاجی صنوبرحسین مومند کی وفات پر لکھی ہے) ،کا یہ آخری شعر قابل ذکرسمجھتا ہے۔
خزاں کے مقابل میں ثابت قدم تھا
فقط نام کا وہ صنوبر نہیں تھا