عمران خا ن کی جیل بھرو تحریک اور چند سوالات

عمران خا ن کی جیل بھرو تحریک اور چند سوالات


ساجد ٹکر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سیاست بھی عجیب طرز کی سیاست ہے۔ عمران خان خو د تو پچھلے تین ماہ سے آرام فرما رہے ہیں لیکن اپنے کارکنوں کوچین کی نیند نہیں سونے دے رہے۔ جب سے پچھلے سال اپریل کے مہینے میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی ہے اور عمران خان مسند اقتدار سے بوریا بستر سمیٹ چکے ہیں تب سے اب تک ان کی سیاست عجیب سی قلابازیاں کھا ئے جا رہی ہے۔ عوام تو کیا عمران خان کے قریبی ساتھیوں کو بھی اندازہ نہیں ہورہا کہ ان کے لیڈر آخر کرنا کیا چاہتے ہیں ۔ عدم اعتماد کے بعد سیاسی طور پر ان کو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی نشستیں سنبھال کر حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اپنی پاپولرٹی کے زعم میں عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفی کا اعلان کیا۔اسمبلیوں سے استعفے کے اعلان کے بعد عمران خان نے حکومت کو امپورٹڈ قرار دیا اور جلد سے جلد انتخابات کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ساتھ ہی مئی  کے مہینے میں لانگ مارچ کا اعلان کیا اور 25 مئی کو اسلام آباد پہنچے اور اگلے دن علی الصبح لانگ مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کرکے چھ دن میں دوبار ہ اسلام آباد آنے کا اعلان کیا۔تاہم چھ دن کی جگہ ان کو اسلام آباد پہنچنے میں پانچ ماہ لگ گئے۔ وہ بھی تب ہی انہوں اچانک لانگ مارچ کا اعلان کیا جب صحافی ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ عمران خان نے موقع پاکر اعلان تو کیا لیکن تیاری نہیں تھی۔ نومبر کے اوائل میں ان کو اسلام آباد پہنچنا تھا لیکن ایک ہفتے تک عمران خان لاہور اور گردونواح میں ہی رہے۔ پھر ان پر حملہ ہوا جس میں وہ زخمی ہوئے اور لانگ مارچ اسلام آباد نہ پہنچ سکا۔ نومبر کے آخری دنوں میں عمران خان اسلام آباد پہنچ گئے لیکن اپنے مطالبات منوانے کی بجائے انہوں نے خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارا اور پنجاب اور پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی بات کی۔ عمران خان کی اس بات سے خود ان کی پارٹی بلکہ وزرائ، مشیران ، راہنما اور قریبی ساتھی بھی لاعلم نظر آئے۔ اس پر بھی بہت لے دے ہوئی  لیکن باالاخر پنجاب اور پختونخوا اسمبلیاں دونوں دو تین دن کے وقفے  سے جنوری کے مہینے میں تحلیل کر دی گئیں۔ ایک طرف اگر دونوں اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں تو دوسری جانب کپتان نے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کے سپیکر نے تحریک انصاف کے 35  ارکان کے استعفے بیک جنبش قلم منظور کئے۔ تحریک انصاف نے رجوع تو کیا لیکن اگلے دو تین دن میں سب کو اسمبلی سے فارغ کر دیا گیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ یا تو تحریک  انصاف کی ملک کے67 فیصد  حصے پر حکومت تھی یا بالکل ہی مین سٹریم سیاست سے نکل گئی۔ پنجاب اور پختونخوا حکومتوں کی وجہ سے عمران خان کو کور بھی حاصل تھا۔ لیکن استفعفوں کے منظور ہونے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عمران خان واپس 2013 والی پوزیشن پر چلے گئے۔ اب ایک طرف یہ حالت تھی تو دوسری جانب کپتان کے خلاف خود او ر ان کی جماعت کے متعدد راہنماوں کے خلاف مختلف مقدمات بھی درج تھے۔ گرفتاریوں کا بھی خدشہ تھا اور ہے۔ فواد چوہدری کو گرفتار کیا گیا۔ فواد چوہدری نے خود کو اوائل میں عظیم انقلابی لیڈر نیلسن منڈیلا سے بھی تشبیہ دی۔ صرف چھ دن جیل میں گزارے اور ضمانت کے لیے  ہلکان ہوگئے۔ جیل سے نکل کر ایک ٹی وی پروگرام میں باقاعدہ روبھی دئیے۔ یہ وہ فواد چوہدری ہیں جو کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی شیخ رشید کے خلاف بھی کاروائی شروع ہوئی۔ شیخ رشید کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔ شیخ رشید فخر سے کہا کرت تھے کہ جیل ان کا سسرال اور ہتھکڑی ان کا زیور ہے۔ کیا لوگ ہیں ویسے یہ ببی۔ مقدمہ شروع ہوتے ہی شیخ رشید  بھی دھکم پیل میں روتے ہوئے نظر آئے۔ انقلابی اور تیز و طرار فیاض الحسن چوہان کی پولیس افسر نے ایک نہیں سنی۔ شنید ہے کہ ان کی بھی گرفتاری کا امکان ہے۔ یہ اور پی ٹی آئی کے دیگر بہت سے راہنما اپنی حکومت میں ایک عجیب سی زعم میں مبتلا تھے۔ ان کا شاہد حکومت میں پہلا تجربہ تھا اس لئے یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ ہمیشہ کیلئے آئے ہیں۔ اس لئے یہ جب بھی بات کرتے تھے تو آگ برساتے تھے۔ بداخلاقی کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی آپ شہباز گل، فیاض چوہان، علی امین گنڈا پور،  مراد سعید، فواد چوہدری، شیخ رشید اور شہریار آفریدی کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں  تو دنگ رہ جائیں گے کہ یہ لوگ کس لہجے میں بات کرتے تھے۔ سیاسی مخالفین کو تو کسی خاطر میں بھی نہیں لاتے تھے کیونکہ اس وقت یہ سب لاڈلے تھے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد ان کے بیانات میں مزید تلخی آگئی اور اداروں کو بھی نہیں بخشا۔بہت کچھ ہوگیا۔ یہ سب کچھ عمران خان اپنی بات منوانے اور وقت سے پہلے انتخابات کے لئے کر رہے تھے۔ ہاتھ مگر ان کے کچھ نہیں لگا۔ پہیہ الٹا گھوما اور ان کے خلاف مقدمے بننے شروع ہوئے اور گرفتاریاں بھی عمل میں آنے لگیں۔ عمران خان نے پہلی غلطی قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کی شکل میں کی۔ دوسری غلطی ان کی بے ربط لانگ مارچیں تھیں۔تیسری غلطی قومی اسمبلی میں واپسی کے مواقع ضائع کرنا ہے۔ چوتھی غلطی پنجاب اور پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل ہے۔ اور اب عمران خان اتنی غلطیوں کی بعد ایک اور غلطی کرنے جا رہے ہیں یعنی جیل بھرو تحریک شروع کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اقدام عمران خان دلبرداشتہ ہوکر اٹھا رہے ہیں کیونکہ ان کی عدم اعتماد کے بعد سے اب تک کوئی بھی مطالبہ نہ تو سنا گیا اور نہ مانا گیا۔ تاہم سیاست میں لوگ جلدی نہیں کرتے۔ سیاستدان نہ صرف صبر سے کام لیتے ہیں بلکہ حالات کا جائزہ لے کر ایسی تگڑی حکمت عملی بناتے ہیں جس میں کہ ان کو اگر نقصان بھی ہو تو کم سے کم ہو۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف ان خصوصیات سے عنقاء ہے ورنہ ایک سال سے کم عرصے میں بطور سیاسی جماعت ایسی غلطیاں نہ کر بیٹھتی۔ جو بھی ہو مگر اب سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف'' جیل بھرو تحریک'' کس مقصد کے لئے شروع کر رہی ہے۔ اگر ان کی پچھلی کوششوں کو دیکھا جائے تو ساری کے ساری بے نتیجہ ثابت ہوئیں ہیں۔ کیا جیل بھرو تحریک سے تحریک انصاف اپنے مقاصد حاصل کر پائے گی۔ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ ہمارے خیال میں تحریک انصاف کا اس تحریک سے دو تین مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کو دباؤ میں لاتے ہوئے اپنے خلاف مقدمات میں آسانی حاصل کی جاسکے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کو دبا ؤ میں لاکر وقت سے پہلے انتخابات کی راہ ہموار کی جاسکے۔ یہ سٹریٹجی ٹھیک ہے لیکن کیا حکومت اس کو کامیاب بننے دے گی۔ہمارے خیال میں حکومت اس کو کسی بھی صورت کامیا ب ہونے نہیں دے۔ وفاقی حکومت کی ترجما ن مریم اورنگزیب پہلے ہی ''جیل بھرو تحریک'' کو ''ڈوب مرو تحریک '' کا نام دے چکی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جیل جانے کے لئے کوئی جرم یا خلاف قانون کام بھی کرنا پڑتا ہے تو یہ لوگ کرنے کیا جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ مزید بھی بہت سے سوالات ہیں کہ تحریک انصاف کب سے جیل بھروتحریک شروع کروا رہی ہے۔ کہاں سے شروع کروا رہی ہے۔ سب سے پہلے گرفتاری کون دے گا۔ پہلے عام کارکن گرفتاری دیں گے یا جماعت کے راہنما اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا تحریک انصاف کے لوگ عمران خان کے اس حکم پر لبیک کہیں گے یا نہیں اور سب سے اہم اور بڑا سوال یہ کہ اگر پچھلے اقدامات کی طرح تحریک انصاف کا یہ اقدام بھی ناکام ہوا تو پھر ان کی حکمت عملی کیا ہوگی۔