عمران خان کا انقلاب،فواد چوہدری کے آنسو

عمران خان کا انقلاب،فواد چوہدری کے آنسو


جالاوان مومند

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی 26 سالہ جدوجہد کے باعث نہ صرف عوام کو شعور ملا بلکہ اقتدار سے نکالے جانے بعد کے جلسوں میں انقلاب آنے کی نوید بھی سنا چکے ہیں-یہاں پی ٹی آئی کارکن کی اس ویڈیو کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ ایک قسم کی ناانصافی ہو گی جس میں وہ کہتا دیکھا جا سکتا ہے کہ ہم انقلاب کے لئے نکلے ہیں اور پولیس ہمیں ڈنڈے مار رہی ہے یہ ویڈیو اگر چہ پرانی ہے مگر یوٹیوب پر موجود ہے-عمران خان نے اس وقت سے ہی انقلاب لانے کادعوی تو کر رکھا تھا مگر اس حوالے سے اپنی پارٹی کے ارکان کو تیار نہ کر سکے یا انھوں نے اس پر کما حقہ توجہ نہیں دی لیکن 2018 میں سلیکٹ ہونے کے بعد سے انھوں نے جو انقلابات برپا کئے ان میں سے ایک انقلاب انتقام کی دفن کردہ سیاست کو دوبارہ زندگی بخش کر ہر لحاظ سے اسے اوج کمال تک پہنچانا بھی شامل ہے جس کی ایک مثال رانا ثنااللہ کے خلاف ہیرئن کا مقدمہ ہے ویسے تو مثالیں بہت سی ہیں مگر اس کیس کے جھوٹا ہونے کا اعتراف فواد چوہدری ایک نجی ٹی وی پر اظہار خیال کے دوران کرچکے ہیں اس لئے اسے پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں-2008 سے 2018 کے عرصے میں ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھامگر دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے متروک کردہ اس قبیح روایت کو پی ٹی آئی نے نہ صرف دوبارہ زندگی بخشی بلکہ ارادی یا غیر ارادی طور پر اس سلسلے میں وہ نام کمایا جو موجودہ صدی کی ملکی تاریخ میں کسی کو نہ مل سکا-

 

انقلاب کے لئے کسی نظریئے کا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے مگرپی ٹی آئی کے موجودہ رہنما اس سے بھی بیگانہ ہیں کیونکہ عمران خان کی باتوں سے متاثر ہوکر شروع میں پارٹی میں شامل ان شخصیات میں سے شاید ہی اب کوئی پارٹی میں باقی بچا ہوجو نظریئے کی اہمیت سے آگاہ تھے 

 

اس قدر تمہید گزشتہ روز فواد چوہدری کی عدالت میں پیشی کے موقع پر پیش آنے والی صورتحال کا ذکر کرنے کیلئے  اور اس میں چھپے عمران خان کے انقلاب کے دعوے کی حقیقت کو عیاں کرنے کے لئے باندھی -عدالت میں ایک موقع پر فواد چوہدری اہل خانہ سے ملاقات نہ کروانے کی شکایت کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے،اگر چہ فواد چوہدری کے ساتھ ہونے والے سلوک کی کوئی جمہوری ذہن حمایت نہیں کر سکتا مگر ان کے خلاف قانون اقدام کی بھی حمایت کرنا ممکن نہیں،رانا ثنااللہ کے خلاف جھوٹے مقدمے کی گواہی دینے والے فواد چوہدری جس الزام میں زیر حراست ہیں اس پر وہ عدالت میں کہہ چکے ہیں کہ یہ ان کا پارٹی موقف ہے جو اعتراف جرم کے مترادف ہے،اس لئے اب اس مقدمے کے فیصلے کی رسمی کارروائی ہی باقی رہ گئی ہے- بہر حال فواد چوہدری کے آنسو اس امر کی ایک اور شہادت ہے کہ پی ٹی آئی کے انقلاب کے دعوے بھی باتوں کی حد تک ہیں ورنہ عمران خان سے لے کر ایک عام ورکر تک کے قول وفعل اس سے مطابقت نہیں رکھتے،بھلا دو چار  دن فیملی سے نہ ملنے کے ذکر پر عدالت میں آنسو بہانے والے بھی کیا انقلاب لا سکتے ہیں،انقلاب لانے والوں کو تو ذاتی نقصان کی پرواہ کب ہوتی ہے وہ تو نہ ہی اتنے کمزور اعصاب رکھتے ہیں کہ انہیں رلایا جاسکے،انقلاب کے لئے تو اکثر سیاسی کارکنوں نے جانیں بھی دی ہیں مگر یہاں انقلاب کے دعوے دار صرف فیملی سے دوچار روز کی دوری ہی برداشت نہیں کر پا رہے

 

رانا ثنااللہ کے خلاف جھوٹے مقدمے کی گواہی دینے والے فواد چوہدری جس الزام میں زیر حراست ہیں اس پر وہ عدالت میں کہہ چکے ہیں کہ یہ ان کا پارٹی موقف ہے جو اعتراف جرم کے مترادف ہے،اس لئے اب اس مقدمے کے فیصلے کی رسمی کارروائی ہی باقی رہ گئی ہے- بہر حال فواد چوہدری کے آنسو اس امر کی ایک اور شہادت ہے کہ پی ٹی آئی کے انقلاب کے دعوے بھی باتوں کی حد تک ہیں ورنہ عمران خان سے لے کر ایک عام ورکر تک کے قول وفعل اس سے مطابقت نہیں رکھتے

 


-اس تحریر کا مقصد کسی کا مذاق اڑانا یا کسی کی تضحیک نہیں صرف اس امر کی جانب توجہ دلانا ہے کہ صرف انقلاب انقلاب کی گردان سے انقلاب نہیں آیا کرتے اس کے لئے قربانی بھی لازم ہوتی ہے اور کم از کم تحریک انصاف کی قیادت میں شامل سیاسی رہنما اس قربانی کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتے کیونکہ شیخ رشید صاحب جو ہتھکڑی کو زیور،جیل کوسسرال اورموت کو محبوبہ قرار تو دیتے ہیں مگران سعادتوں کو حاصل کرنے کی بجائے حفاظتی ضمانتوں سمیت دیگر اقسام کی ضمانتوں کے حصول کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں یہی حال عمران خان اور دیگر کا بھی ہے-انقلاب کے لئے کسی نظریئے کا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے مگرپی ٹی آئی کے موجودہ رہنما اس سے بھی بیگانہ ہیں کیونکہ عمران خان کی باتوں سے متاثر ہوکر شروع میں پارٹی میں شامل ان شخصیات میں سے شاید ہی اب کوئی پارٹی میں باقی بچا ہوجو نظریئے کی اہمیت سے آگاہ تھے ان میں اکبر ایس بابر،فوزیہ قصوری،جسٹس(ر )وجیہہ الدین اور احمد جواد کو ہی مثال کے طور پر پیش کرنا ہی کافی ہے

 

 صرف انقلاب انقلاب کی گردان سے انقلاب نہیں آیا کرتے اس کے لئے قربانی بھی لازم ہوتی ہے اور کم از کم تحریک انصاف کی قیادت میں شامل سیاسی رہنما اس قربانی کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتے کیونکہ شیخ رشید صاحب جو ہتھکڑی کو زیور،جیل کوسسرال اورموت کو محبوبہ قرار تو دیتے ہیں مگران سعادتوں کو حاصل کرنے کی بجائے حفاظتی ضمانتوں سمیت دیگر اقسام کی ضمانتوں کے حصول کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں یہی حال عمران خان اور دیگر کا بھی ہے

 

حالانکہ یہ فہرست خاصی طویل ھے-2010سے 2017 تک جو پروپیگنڈا عمران خان کی جانب سے کیا گیا 2018 میں اس کے بل بوتے پر ان کو اقتدارتو مل گیامگروہ احتساب سمیت کسی بھی انتخابی وعدے کو ایفا کرنے میں ناکام رہے،وعدے نبھانے کی بجائے انہوں نے ان کے برعکس عمل اختیار کیااور اپنی جگ ہنسائی خوب کرائی مگر ساتھ ہی ملک وقوم اور اداروں کے ساتھ بھیانک کھیل بھی کھیلا،ان کے یہ الفاظ آج بھی ان کے چاہنے والوں کو یاد ہونگے جو انہو ں نے مخالفین کے لئے بولے تھے کہ میں ان کو رلائوں گامگر تمام تر کوششوں کے باوجود یہ نہ کر سکے ہاں البتہ عوام نے ان کے دور میں مہنگائی کے نتیجے میں جو رونا شروع کررکھا تھا  وہ  تحریک عدم اعتماد سے قبل آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی کرکے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کمی کے اقدام اور اس کے نتائج کی وجہ سے قومی بین کی صورت اختیارکر چکا ہے اور اب عمران خان ،شہباز گل،اعظم سواتی کی چیخوں کے بعد فواد چوہدری کے آنسو بھی ان غلطیوں کا ثبوت ہیں جو گزشتہ دور میں ارادی یا غیر ارادی طور پر پی ٹی آئی حکومت سے سرزد ہوئیں،عمران خان کے بارے میں حقیقت کو سامنے رکھ کر اور روح اقبال سے معذرت کے ساتھ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ عمران بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا۔