
سکندراعظم اور یونان کے دلچسپ قصے
گلزار احمد
2300 سال پہلے یونان میں عورتوں کی میڈیکل تعلیم حاصل کرنے پر سخت پابندی تھی، وہاں ایک لڑکی اگنوڈس Agnodice نے بال کٹواے اور مردوں کا بھیس بدل کر الیگڈنڈریہ میڈیکل سکول میں داخلہ لے لیا اور تعلیم مکمل کر لی،ایک دن یونان کی ایک گلی سے گزرتے ہوئے اسے کسی خاتون کے کراہنے کی آواز آئی جس کے ہاں بچہ ہونے والا تھا۔ اگنوڈس اس کی مدد کو پہنچی مگر مریضہ نے اس ڈاکٹر کو ہاتھ لگانے نہیں دیا کیونکہ مریض عورت کا خیال تھا ڈاکٹر مرد ہے۔ڈاکٹر اگنوڈس نے بے لباس ہو کر اس عورت کو اپنے عورت ہونے کی گواہی دی اور اس کی مدد کر کے ڈیلیوری کرا دی جب یہ خبر شہر میں پھیلی تو بہت زیادہ عورتیں اس کے پاس علاج کرانے آنے لگیں جس سے مرد ڈاکٹر حسد کرنے لگے مرد ڈاکٹروں نے اگنوڈس کے خلاف مقدمہ کر دیا اور یونان کی عدالت میں اگنوڈس نے تسلیم کیا کہ وہ ایک عورت ڈاکٹر ہے عدالت نے اسے موت کی سزا سنادی کیونکہ اس نے مرد کا جعلی روپ دھار کے تعلیم حاصل کی تھی جبکہ عورتوں کی میڈیکل تعلیم پر پابندی تھی اس فیصلے کے خلاف یونان کی عورتوں خصوصا سزا دینے والے ججوں کی عورتوں نے بغاوت کر دی اور کہا اگر اگنوڈس کو مارا گیا تو وہ بھی مر مٹیں گی چنانچہ اس دبا کے تحت عدالت نے اگنوڈس کی سزا معاف کر دی پھر اس دن سے عورتوں پر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کی پابندی بھی ہٹا دی گئی۔ اگنوڈس نے نہ صرف یونان کی بلکہ دنیا کی پہلی گائنا کالوجسٹ اور فزیشن کا اعزاز حاصل کر لیا۔کہا جاتا ہے انندی بائی جوشی Anandibai joshi ہندوستان کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھی جس نے 1886 میں امریکہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔عام طور پر تاریخ میں لکھا ہے گیا ہے کہ سکندر اعظم 2300 سال پہلے ہندوستان میں باجوڑ ۔دیر ۔سوات کے راستے داخل ہوا اور تربیلہ کے مقام پر دریائے سندھ عبور کیا۔لیکن تاریخ دان ایک اور کہانی بھی بیان کرتے ہیں۔پارہ چنار میں یونانی نسل کی طوری قوم اور عرمر آباد تھی۔وہ دریاے کرم کے راستے پارہ چنار داخل ہوا کہ یہ قوم اس کا ساتھ دے گی۔پھرٹل سے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان آیا جہاں عرمر آباد ہیں۔ یہاں سے آگے بڑھ کر تخت سلیمان پر قبضہ کیا۔ادھر سے ڈیرہ اسماعیل خان کے شمال میں پنیالہ سے گزر کر دریاے کرم کو عبور کرتا کالاباغ گیا اور وہاں سے کشتیوں کے ذریعے دریاے سندھ کو عبور کیا۔اور تحصل خوشاب کے پہاڑ سکیسر کے دامن میں آباد ایک شہر ٹیکسلا پہنچا۔یہ ٹیکسلا ہمارے آج کے ٹیکسلا سے مختلف شہر تھایاد رہے کہ سکندر اعظم کے یہاں گزرنے کے وقت ابھی ڈیرہ اسماعیل خان نام کا شہر آباد نہیں ہوا تھاکیونکہ یہ 1469 میں قائم ہوا۔یہاں آبادیاں کسی اور نام سے ہونگی۔ایک مصری کہاوت ہے کہ جنت میں جانے سے پہلے آپ سے دو سوال پوچھے جائیں گے۔نمبر ایک کہ تم نے دنیا میں خوشی محسوس کی؟ فرض کر لیتے ہیں آپ کا جواب ہاںہے تو دوسرا سوال پوچھا جاتا ہے کیا تم نے لوگوں میں خوشی تقسیم کی؟ اس کا جواب بھی اگر ہاںہو تو دربان کہ دیتا ہے۔تم تو پہلے ہی جنت میں ہو ۔یہ بات مجھے اس لیے یاد آئی جب ہم بچپن میں گاؤں میں پل بڑھ رہے تھے تو عملی طور پر ہم ایسا ہی کرتے تھے اگرچہ ہمیں اس کہاوت کا پتہ نہیں تھا۔گاؤں وہ ہوتا ہے جہاں سادہ سماج آباد ہو جہاں سچائی اور ایمان داری کا بول بالا ہوں ، جہاں لوگ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے ہوں اوربوقت ضرورت ایک دوسرے کی دستگیری کرتے ہوں اور جہاں فضائی آلودگی سے محفوظ ایک صاف وستھری آب وہوا میسر ہو اور کھیتوں سے تازہ سبزیاں جسے آجکل organic کہا جاتا ہے دستیاب ہوں ، دیسی مرغ اوردیسی مرغی کیاانڈے ، گائے اور بھینس کا تازہ و خالص دودھ مہیا ہو ، شام ہوتے ہی چوپال لگتی ہو جہاں گاں بھر کے مسائل پر چرچا ہوتا ہو۔ہمارے گھر گوشت کبھی کبھی پکتا تھا ۔چٹنی۔سلاد۔اچار۔شکر ۔بھاجی ۔پیاز یہ ہمارا سالن تھا ۔تنور کی روٹی پکاتے وقت پیاز کتر کے مکس کر لیتے اور لسی ساتھ ملا کے کھا لیتے۔اس وقت ہمیں شہری کھانے میسر نہیں تھے اس لیے ہم اپنے آپ کو غریب سمجھتے تھے۔ہمارے ہاں کوء بلڈ پریشر۔شوگر ۔جوڑوں کے درد ۔ڈیپریشن ۔کرونا کا مریض نہیں تھا۔ ۔گاں میں ایک حکیم تھا جو خمیرے۔معجون اور کٹی نباتات کی پڑیاں معمولی دام پر ضروت کے وقت دے دیتا ۔دہشت گردی کا نام نہیں سنا تھا۔ اگر سال میں ایک دفعہ سرخ آندھی آتی تو ہمارے بزرگ کہتے کسی جگہ ناحق قتل ہوا ہو گا۔۔آج زندگی کے چلن دیکھ کے سوچتا ہوں ہم نے بے زری کے زمانے سے زرخیزی کے زمانے داخل ہو کر کیا پایا؟