
اسلاموفوبیا کا عالمی دن اور مسلم ممالک کی ذمہ داری
اقوام متحدہ اور رکن ممالک کے زیراہتمام 15مارچ کو اسلاموفوبیا کے خاتمہ کا عالمی دن منایا جارہا ہے اس دن کی مناسبت سے گذشتہ جمعہ کے روز اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف اعلی سطح کا ایک اجلاس ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم انداز میں نفرت پیدا کی جارہی ہے جس کے تحت اسلاموفوبیا کا وائرس تیزی سے پھیلایا جارہا ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسلامو فوبیا سے نبٹنے کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقد کی جانے والی ایک خصوصی تقریب میں مسلم مخالف تعصب کے زہر کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔اس تقریب کا اہتمام نیویارک میں واقع صدر جنرل اسمبلی کے دفتر میں کیا گیا تھا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اسلامی تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے سربراہ کی حیثیت سے مشترکہ میزبان کے طور پر اس کا انعقاد کیا۔انتونیو گوتریس نے کہا کہ وہ پاکستان اور او آئی سی کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اسلامو فوبیا کے خاتمے کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کارروائی کا مطالبہ کیا۔ سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ دنیا کے تقریبا دو ارب مسلمان اپنی شاندار تنوع میں انسانیت کی عکاسی کرتے ہیں،وہ دنیا کے ہر کونے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ عرب، افریقی، یورپی، امریکی اور ایشیائی ہیں تاہم انہیں اکثر اپنے عقیدے کی وجہ سے تعصب اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مسلمان خواتین کو تو اپنی صنف، نسل اور عقیدے کی بنا پر تہرے امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مسلم مخالف نفرت کئی شکلوں میں سامنے آ سکتی ہے، امیگریشن پالیسیوں، غیر ضروری نگرانی اور پروفائلنگ سے ڈھانچہ جاتی اور ادارہ جاتی امتیاز ظاہر ہوتا ہے جو دنیا میں مسلم برادریوں کا تشخص بگاڑنے کا باعث بنتاہے جبکہ شرمناک طور پر بعض سیاسی رہنماں کی مسلم مخالف بیان بازی اور پالیسیوں سمیت میڈیا کی جانبدارانہ نمائندگی سے اِس امتیاز کو تقویت ملتی ہے۔انہوں نے زور دیا کہ امتیازی سلوک سب کے لیے نقصان دہ ہے اور ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اِس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اپنے دفاع کو مضبوط کریں جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی پالیسیوں کو آگے بڑھانا ہو گا جو انسانی حقوق کا مکمل احترام کرتی ہوں اور خاص طور پر اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی شناختکی حفاظت کرتی ہوں۔ سیکرٹری جنرل نے دنیا بھر کے ان مذہبی رہنماں کے لیے ممنونیت کا اظہار بھی کیا جو مکالمے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے متحد ہوئے ہیں۔ اِس موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کو روشی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کی جڑیں یہودیوں کے خلاف تعصب یا اجنبیوں کے خوف سے ملتی ہیں جس کا اظہار امتیازی اقدامات، سفری پابندیوں، نفرت پر مبنی اظہار اور دوسرے لوگوں سے بدسلوکی اور انہیں ہدف بنائے جانے کی صورت میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ممالک پر زور دیا کہ وہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کو قائم رکھیں جس کی ضمانت شہری و سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی میثاق میں دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب یا ایسے ہی کسی اور طرزِعمل کے خلاف آواز اٹھائیں، ناانصافی کی مخالفت کریں اور مذہب یا عقیدے کی بنا پر امتیازی سلوک کی مذمت کریں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ پر اسلاموفوبیا سے نبٹنے کے لیے ایکشن پلان بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا آج کے دور کا اہم مسئلہ ہے اور دنیا میں منظم طریقے سے اسلام کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے جس سے نبٹنے کے لیے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے تاہم دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، اسلام امن اور روا داری کا دین ہے،یہ برداشت کا درس دیتا ہے، دنیا میں فاشٹ پالیسیوں سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، حجاب جیسے معاملات کو سیاست میں لانے کا مقصد اسلام کو نشانہ بنانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے تحت اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن رواں سال پہلی دفعہ منایا جا رہا ہے۔ اسلاموفوبیا سے نبٹنے کے عالمی دن کا خیال پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم عمران خان نے 2020 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا پھر مسلم ممالک نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی تحریک پیش کی تھی جس پر اقوام متحدہ نے ہر سال 15مارچ کو عالمی سطح پر منانے کی منظوری دے دی تھی۔ اس تاریخ کا انتخاب اِسی روز2019 میں نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں ہونے والے سانحے کی یاد میں کیا گیا جس میں ایک شخص نے نمازِ جمعہ کے دوران فائرنگ کر کے 51 نمازیوں کو شہید جبکہ 44 کو زخمی کر دیا تھا۔ اِس واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اِس واقعے کے بعد سے دنیا میں اسلاموفوبیا سے نبٹنے کی بحث زور پکڑ گئی تھی۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح کے استعمال کا آغاز اگرچہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہوا لیکن 90 کی دہائی تک اِس کے بارے میں خاص بات نہیں کی گئی تاہم 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد اِس کا استعمال کثرت سے ہونے لگا۔نائن الیون کے المیے کے بعد مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دنیا بھر میں نفرت اور ان کے بارے میں بدگمانی وبائی حد تک بڑھ گئی۔ بدقسمتی سے بعض مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کے خلاف ایک بیانیہ تیار کر کے اسے آگے بڑھایا گیا جو مسلمان معاشروں اور ان کے مذہب کو تشدد اور خطرے سے جوڑتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ تعصب پر مبنی یہ بیانیہ انتہا پسندانہ اور گھٹیا پراپیگنڈے تک ہی محدود نہیں بلکہ اِس نے مغربی ذرائع ابلاغ، علمی شعبے، پالیسی سازوں اور ریاستی مشینری کے بعض حصوں میں بھی افسوسناک اور فکر انگیز حد تک قبولیت حاصل کر لی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق وہ اسلامو فوبیا سے نبٹنے کے لیے دنیا بھر کی حکومتوں، نگران اداروں، ٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور میڈیا کے ساتھ مل کر حفاظتی اقدامات وضع کرنے اور ان کے نفاذ میں مصروف ہے۔ نفرت پر مبنی اظہار کے خلاف حکمت عملی اور منصوبے جبکہ ہمارے مشترکہ ایجنڈے جیسی اقوام متحدہ کی دیگر پالیسیاں پہلے ہی شروع کی جا چکی ہیں جو تمام لوگوں کے لیے محفوظ ڈیجیٹل مستقبل کے فریم ورک کا خاکہ پیش کرتی ہیں۔اس کے باوجود امریکہ سمیت مغربی دنیا میں مختلف مذاہب، رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے متعصب اور انتہا پسندوں کی طرف سے فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کو مار دینے کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں تاہم اِس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ ایسے افراد کا تعلق جس مذہب یا رنگ و نسل سے ہو وہ سب ہی انتہا پسند ہیں۔پاکستان اور او آئی سی کی حالیہ کوششوں خصوصا 15مارچ کو اسلاموفوبیا سے نبٹنے کا دن عالمی سطح پر منانے سے ایک بیانیہ تشکیل دینے میں مدد تو ضرور ملے گی تاہم اسلام مخالف بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم ممالک کو متحد ہو کر تحقیق اور دلیل کے بل بوتے پر اپنا مقدمہ لڑنا پڑے گا، حقائق دنیا کے سامنے لانا ہوں گے، اپنا کردار مضبوط بنانا پڑے گا، قول و فعل میں مطابقت پیدا کرنی ہو گی۔ اِس سلسلے میں مسلم دنیا کے تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور جس تواتر سے اسلام مخالف پروپیگنڈہ جاری ہے اسی تسلسل کے ساتھ اِس سے نبٹنے کا اہتمام کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔