
کیا معاشی ایمرجنسی لگانا ناگزیر ہوچکا ہے؟
پاکستان نظام کی تبدیلی کے کنارے تک پہنچ چکا ہے، ہم نے صدارتی نظام بھی چلانے کی کوشش کر کے ایک طرف رکھ دیا ہے۔ جنرل ایوب خان مرد آئین کے طور پر سبز انقلاب کے معمار کہے جاتے ہیں، اِن کے دور حکمران میں معاشی ترقی ہوئی لیکن تقسیم دولت کے غیر منصفانہ نظام کے غلبے کے باعث دولت سمٹ کر 22خاندانوں کے ہاتھوں میں چلی گئی، مختلف سطحوں پر شعبہ جاتی اصلاحات کے ثمرات چند ہاتھوں نے بٹورے۔ سیاسی میدان میں جنرل ایوب کی انجینئرنگ نے مملکت کی نظریاتی بنیادوں پر کلہاڑا چلا دیا، بنگالیوں کے دلوں میں اکثریتی ہونے کے باوجود اقلیتی حکمرانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی جو بالآخر سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوئی، بھٹو دور کی فسطائی جمہوریت بھی دیکھ لی گئی ،جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کا مارشل لائی دورِ حکمرانی بھی گزر گیا۔ اشتراکیت کے خلاف اور کبھی امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حلیف بن کر ہم نے باقی ماندہ پاکستان کا گوشہ گوشہ زخمی کر دیا ہے۔ ہم نے اب ہائبرڈ نظام کا بھی تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے،مسائل جوں کے توںہیں، ہمارے ہاں سات سے زائد دہائیوں کے دوران مختلف سیاسی تجربات کئے گئے ہیں لیکن ہم ایک باوقار قوم بننے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں ہم نے ایٹمی صلاحیت تو حاصل کر لی ہے لیکن ہم ایک عزت دار ترقی کرتی ہوئی قوم بننے کی صلاحیت حاصل نہ کر سکے اور آج ہم عالمی امداد حاصل کرنے والے بھکاری بن چکے ہیں، روٹی نان کی قیمتیں اور آٹا دال کی دستیابی جیسے ایشوز ہمارے اعصاب پر سوار ہیں،ڈالر کی بے قابو اڑان ہمارے لئے سوہانِ جسم و روح بنی ہوئی ہے، 130 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی ہمارے بس سے باہر ہو چکی ہے، قرض لے کر قرض چکانے کی پالیسی چلتی نظر نہیں آ رہی ہے، گزری چار دہائیوں میں نظام کی چھلنی سے چھن کر سامنے آنے والی قومی قیادت اپنا آپ منوا بھی چکی ہے اور گنوا بھی چکی ہے، لسانی اور قومیتی جماعتیں سیاست میں روز بروز فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتی چلی جا رہی ہیںجو اچھا رجحان نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں امریکی حلیف بننے سے ادارہ جاتی نظم و نسق ہی نہیں ہماراریاستی و معاشرتی ڈھانچہ بھی ہل چکا ہے، معیشت بھی تار تار ہو چکی ہے، دہشت گردوں نے ہماری ریاست کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں ہم اربوں ڈالر کے نقصان کے ساتھ ساتھ 75ہزار انسانی جانوں کی قربانی بھی دے چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔گزرے 75 سالوں کے دوران آزمائے گئے نظام ہائے سیاست و معیشت کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ایسے میں چھن کر سامنے آنے والی سیاسی و معاشی قیادت کی حقیقت بھی ہمارے سامنے آ چکی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ موجودہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے،اپنے برگ و بار دکھا چکا ہے،اِس کا اب جوں کا توں چلنا اور چلتے رہنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی ہمارے لئے فائدے مند،پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ابھی تک جو کچھ ہو رہا ہے وہ خطرناک ہی نہیں تباہ کن بھی ہے۔ ہماری قومی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اتحادی حکومت آئی ایم ایف کی خوشنودی میں اس طرح لگی ہوئی ہے کہ اِسے شاید عوام کی تکلیفوں کا احساس ہی نہیں ہو رہا ہے یا پھر وہ عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ہیں۔ بہرحال ہم بڑی سرعت کے ساتھ معاشی ڈیفالٹ کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ ایک بات طے ہے کہ جاری نظام کے زہریلے ثمرات ہمارے سامنے ہیں اِس لئے اِس کا چلتے رہنا قریں از مصلحت قطعا نہیں ہے،اِس نظام نے ہماری سیاست، معیشت اور معاشرت کو تباہی و بربادی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے، اِس لئے اِس نظام کی مرمت اور اوورہالنگ ضروری ہے۔قومی ڈائیلاگ کے ذریعے ایک ایسی معاشی حکمت عملی اختیار کی جائے جو قوم کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے ہو۔ معاشی پالیسی 30سال کے لئے بلاتعطل و تبدیلی بروئے عمل لائے جانے کا بندوبست کیا جائے۔ متفقہ طور پر تیار کردہ معاشی پالیسی کو نافذ العمل کرنے کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو کسی قسم کی سیاسی آلودگی سے پاک ہو ۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اِس بات کا یقین ہو جائے کہ اِن کی سرمایہ کاری 30 سال تک بلا خطر کارآمد رہے گی۔ زرعی اور مالیاتی پالیسیاں تسلسل کے ساتھ نافذ العمل رہیں، پیداواری عمل جدید خطوط پر استوار ہو، زرعی شعبے کو ہنگامی بنیادوں پر ترقی کے سفر پر روانہ ہونے کے لئے تیار کیا جائے۔ صنعتی انقلاب کی راہیں ہموار ہوں، قرضے کی معیشت سے چھٹکارا حاصل ہو، فرسودہ نظم و نسق کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی طویل مدت پالیسیاں بنا کر اِنہیں نافذ العمل کیا جائے۔بلدیاتی سطح سے لے کر صوبائی و قومی سطح پر الیکشنوں کا قابل قبول صاف و شفاف نظام تشکیل دیا جائے جو تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے متفقہ ہواور پھر انتخابات کے ذریعے کونسلر سے لے کر وزیراعظم و صدر مملکت تک عوام کی نمائندہ قیادت سامنے آئے جو پہلے سے طے شدہ پالیسیوں کو پہلے کی طے کردہ حکمت عملی کے ساتھ نافذ العمل کر کے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں لگ جائے۔یہ سب کچھ کرنے کے لئے ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے جو معاملات کو لے کر آگے بڑھے۔جاری سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ سیاست میں افتراق و تفریق بہت زیادہ جڑیں پکڑ چکی ہے۔ تحمل و بردباری عنقا ہے اِس لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاست بچانے اور چمکانے میں لگی ہوئی ہیں۔ جاری معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے معاشی ایمرجنسی لگانا ناگزیر ہوگا کیونکہ اگر فوری طور پر ناگزیر اور غیر سیاسی و غیر مقبول اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہم ڈیفالٹ بھی کر سکتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ہوگا؟ کون کرے گا؟ سیاسی حکومت تو ایسا کرنے کی جرات نہیں کر سکتی ہے کیونکہ ایسا کرنے کی ایک سیاسی قیمت بھی ہے جو کہ خاصی بھاری ہو سکتی ہے اور کوئی بھی سیاسی قیادت اتنی بھاری قیمت چکانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی ہے۔ سوال پھر یہی ہے کہ پھر اب کیا ہوگا؟ اب کیا ہونے جا رہا ہے؟بیان کردہ اصلاحی امکانات کے علاوہ شاید اور کوئی معاملہ یا حکمت عملی ہمیں مکمل تباہی سے روک سکے، اِس لئے ہمارے پاس وقت بھی کم ہے اور گنجائش بھی نہیں ہے، اِس لئے ضروری ہوتا چلا جا رہا ہے کہ فوری طورپر ایکشن لیا جائے اور اجتماعی دانش کے ذریعے معاملات کو متفقہ انداز میں آگے بڑھانے کی پالیسی بنائی جائے۔ یہ کام ویسے تو سیاستدانوں کو کرنا چاہیے، آئین میں تبدیلی کا کام عوامی نمائندے ہی سرانجام دے سکتے ہیں لیکن وہ تو آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں،دشنام طرازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ اِنہیں عوام کے مسائل کا قطعا احساس نہیںہے تو سوال پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہو گا اور کون کرے گا؟