یہ پاکستان ہے یا مجرمستان

یہ پاکستان ہے یا مجرمستان


روخان یوسف زئی

پرانے دوستوں کیساتھ بیٹھ کر دوران گفتگو آج کل ہمارا موضوع بحث یہ رہتا ہے جس پر ایک لمبی بحث شروع ہوجاتی ہے کہ موجودہ زمانے میں ہمارے ہاں بس نمود ونمائش اور لفاظی کا دور دورہ ہے۔ایک طرف نمود ونمائش کا کھوکھلا کلچر پروان چڑ رہا ہے تو دوسری طرف زبان و بیان چاہے میں استعمال ہونے والے الفاظ و حروف بھی اپنا معنی و مفہوم کھوچکے ہیں یعنی بالفاظ دیگر الفاظ و حروف کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔جس کے باعث اب اخبارات،کالموں،شاعری،افسانوں، مضامین،سیاسی اور مذہبی تقاریر،خطبات، سول وملٹری بیورکریسی کی پریس کانفرنسیں،حکمرانوں اور وزراء و ترجمانوں کے بیانات کی زندگی بھی پانی کے بلبلوں کی طرح ہوتی ہے جو معمولی ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا اور نکل رہا ہے کہ ملک خداداد میں عوام کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو پارہاہے۔کیا یہ بات ہمارے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے باعث شرم نہیں کہ پچھتر سال گزرنے کے باوجود روزگار،صحت، تعلیم اور امن و امان سمیت دیگر ڈھیر سارے مسائل کو چھوڑ کر اب تک اس ملک کے باشندوں کو صاف پانی،بجلی اور گیس  تک نہیں مل رہاہے۔ اس کے باوجود ہمارے موجودہ اور سابق حکمران اور سیاست دان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ملک ترقی اور مضبوط معیشت کی  جانب گامزن ہوچکا ہے۔پتا نہیں کہ ان کی زبان اور ڈکشنری میں لفظ ترقی اور مضبوط معیشت کے کیا معنی ہیں؟اگر ترقی اور مضبوط معیشت سے مراد ان کی اپنی اور اپنے خاندان کی ترقی اور معیشت مقصود ہو تو وہ تو بالکل نظر آرہی ہے۔کہ امیر دن بہ دن امیر ہوتا جارہا ہے اور غریب دن بہ دن غریب ہوتا جارہاہے۔

 


 موجودہ زمانے میں ہمارے ہاں بس نمود ونمائش اور لفاظی کا دور دورہ ہے۔ایک طرف نمود ونمائش کا کھوکھلا کلچر پروان چڑ رہا ہے تو دوسری طرف زبان و بیان چاہے میں استعمال ہونے والے الفاظ و حروف بھی اپنا معنی و مفہوم کھوچکے ہیں یعنی بالفاظ دیگر الفاظ و حروف کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔جس کے باعث اب اخبارات،کالموں،شاعری،افسانوں، مضامین،سیاسی اور مذہبی تقاریر،خطبات، سول وملٹری بیورکریسی کی پریس کانفرنسیں،حکمرانوں اور وزراء و ترجمانوں کے بیانات کی زندگی بھی پانی کے بلبلوں کی طرح ہوتی ہے جو معمولی ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا اور نکل رہا ہے کہ ملک خداداد میں عوام کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو پارہاہے
 

 

لہذا اس طبقہ کی کسی بھی بات،وعدے وعید کا یقین کرنا اپنے آپ کو مزید عذاب میں مبتلا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے کسی سیاسی جماعت کے قائدین ہو،مذہبی جماعت کے خطیب ہو،یا حکمران ہو۔لوگ بھی اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ان کی باتیں،تقریریں اور خطابات سن سن کر ان کے کان پکے ہوگئے ہیں مگر مقام شکر ہے کہ اب لوگ بھی کسی حد تک ہوشیار ہورہے ہیں ان کی ہر بات اور تقریر ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسری کان سے نکال باہر کردیتے ہیں۔یہ تو ہمارے روز کا مشاہدہ ہے جہاں یہ جملہ لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ'' خبردارکیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے'' ِمارکیٹوں،تعلیمی اداروں، سرکاری و نجی دفاتر،سول و ملٹری آفسز،پولیس چیک پوسٹوں،چوک چوراہوں،یہاں تک کہ مساجد میں بھی خفیہ کیمروں کے ساتھ جلی حروف کے ساتھ یہ تنبیہ عبارت لکھی نظرآتی ہے کہ '' خبردارکیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے'' مگر پتا نہیں کہ یہ کس قسم کا کیمرہ اور کس قسم کی آنکھ ہے جس سے اسلحہ ومنشیات کے سمگلر،دہشت گرد اور کسی بڑے جرم میں مطلوب مجرم  بچ نکل جاتا ہے؟شاید ان سمگلروں،دہشت گردوں اور مجرموں کو اس ایک آنکھ والے کیمرے کے سونے اور جاگنے کا مقررہ وقت معلوم ہو کہ اس کی یہ آنکھ کس وقت جاگتی ہے اور کس وقت سوئی ہوئی رہتی ہے؟

 


کیا یہ بات ہمارے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے باعث شرم نہیں کہ پچھتر سال گزرنے کے باوجود روزگار،صحت، تعلیم اور امن و امان سمیت دیگر ڈھیر سارے مسائل کو چھوڑ کر اب تک اس ملک کے باشندوں کو صاف پانی،بجلی اور گیس  تک نہیں مل رہاہے۔ اس کے باوجود ہمارے موجودہ اور سابق حکمران اور سیاست دان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ملک ترقی اور مضبوط معیشت کی  جانب گامزن ہوچکا ہے

 

۔لہذا کیمرے کی نیند سے فائدہ اٹھاکر وہ واردات کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پولیس وانٹیلی جنس اداروں کا تو یہ کام تھا ہی آج کل ہاتھوں میں موبائل سے منسلک مائیک تھامے گلے میں مختلف یوٹیوب اور ٹی وی چینلز کے کارڈز لٹکائے صحافت کا تمغہ ماتھے پرسجائے ہوئے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں بھی گلی گلی محلہ محلہ زیادتی،قتل وغارت،کرپشن،اغواکاری،رشوت خوری،بلیک میلنگ،منشیات وغیرہ کی سرکوبی کے لیے دوڑیں لگاتے نظرآتے ہیں۔بعض اوقات ہماری چاک وچوبند اور بیدار پولیس کی بروقت کارروائی سے مجرم رنگے ہاتھوں گرفتار بھی ہوجاتے ہیں جس  پر پھرسبھی بغلیں بجاتے ہیں میڈیاکے نمائندے کیمرے لیکرپہنچ جاتے ہیں جہاں فوٹوسیشن ہوتاہے اگلے دن ملک بھرکے اخبارات اور چینلوں میں ان مجرموں کی تصاویرلگ جاتی ہیں مجرم کوگرفتارکرنے والوں کوانعام اوراعزازی شیلڈزسے نوازاجاتاہے اکثرچینلزمیں مختلف قسم کے سنگین ودلخراش جرم کرنیوالے مجرموں کو پکڑکرمیڈیا کے سامنے آئے روزپیش کیاجاتا ہے ہرچینل نے اس کے لیے باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جوہردن ایک ناقابل یقین دل دہلادینے والی کہانی پیش کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجودجرم کیوں ختم نہیں ہوتے؟مجرم رسوائی کے باوجوداپنی روش تبدیل کیوں نہیں کرتے؟اس سوال کاجواب کس کے پاس ہے؟

 

 میڈیاپرمختلف جرائم میں گرفتار مجرموں کوجب پیش کیاجاتاہے تواس وقت ان میں سے اکثرکے چہروں پربجائے ندامت وشرمندگی کے کسی درجہ ہٹ دھر می واطمینان نظرآتاہے اورسینہ تان کرآنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجواب دے رہاہوتاہے لہذاہمیں یہ تسلیم کرناہوگاکہ کسی مجرم کی میڈیاپرتشہیرکے ذریعے ہم اس کے دل میں جرم کی نفرت پیدانہیں کرسکتے


کچھ عرصہ قبل ایک انویسٹی گیشن پولیس آفیسرسے ملاقات کے دوران میں نے ان سے یہی سوال کیاکہ ایساکیوں ہے؟توان کاجواب تھاکہ یہ دراصل ہمارااورہم سے بڑھ کرمیڈیاکاقصورہے کہ جونہی کوئی مجرم گرفتارہوتاہے توکچھ ہی دیرمیں سارے شہرمیں میڈیاکے ذریعہ اس مجرم کاچرچاہوجاتاہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ رنگے ہاتھوں گرفتارمجرم اپنے اثررسوخ کی وجہ سے بہت جلد جیل سے صرف رہاہی نہیں بلکہ باعزت بری بھی ہوجاتاہے اوراس کی گرفتاری میں معاون لوگوں کوبلیک میلرظاہرکیاجاتاہے جس کے نتیجے میں یہ مجرم پہلے سے زیادہ پراعتمادطریقہ سے وارداتوں میں ملوث نظرآتاہے،

 


 مقام شکر ہے کہ اب لوگ بھی کسی حد تک ہوشیار ہورہے ہیں ان کی ہر بات اور تقریر ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسری کان سے نکال باہر کردیتے ہیں۔یہ تو ہمارے روز کا مشاہدہ ہے جہاں یہ جملہ لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ'' خبردارکیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے'' ِمارکیٹوں،تعلیمی اداروں، سرکاری و نجی دفاتر،سول و ملٹری آفسز،پولیس چیک پوسٹوں،چوک چوراہوں،یہاں تک کہ مساجد میں بھی خفیہ کیمروں کے ساتھ جلی حروف کے ساتھ یہ تنبیہ عبارت لکھی نظرآتی ہے کہ '' خبردارکیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے'' مگر پتا نہیں کہ یہ کس قسم کا کیمرہ اور کس قسم کی آنکھ ہے جس سے اسلحہ ومنشیات کے سمگلر،دہشت گرد اور کسی بڑے جرم میں مطلوب مجرم  بچ نکل جاتا ہے؟
 

 

ہم عموماً سمجھتے ہیں کہ کسی غلط کام کرنے والے کی ویڈیوبناکرشیئرکرنے سے اس کی بدنامی ہوگی اوراپنے غلط کام سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرجائے گا،لیکن ہماری یہ سوچ بالکل غلط ہے ہم اس مجرم کے جرم کی تشہیرکرکے اسے جرم اورگناہ پرزیادہ جرات بخشتے ہیں وہ سمجھتاہے کہ میں لوگوں کی نظروں میں رسواتوہوہی چکاہوں لہذااب مجھے کسی کے لعن طعن سے کوئی سروکارنہیں اوروہ پہلے سے خطرناک مجرم بن جاتاہے میڈیاپرمختلف جرائم میں گرفتار مجرموں کوجب پیش کیاجاتاہے تواس وقت ان میں سے اکثرکے چہروں پربجائے ندامت وشرمندگی کے کسی درجہ ہٹ دھر می واطمینان نظرآتاہے اورسینہ تان کرآنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجواب دے رہاہوتاہے لہذاہمیں یہ تسلیم کرناہوگاکہ کسی مجرم کی میڈیاپرتشہیرکے ذریعے ہم اس کے دل میں جرم کی نفرت پیدانہیں کرسکتے بلکہ اس کوبرانگیختہ کرنے کاسبب بنتے ہیں اس کے برعکس اگرمجر م کوقانون کے مطابق جرم کی سزادی جائے اوراسے مختلف طریقوں سے اس برے عمل پرتنبیہ کی جائے تووہ اپنی سزابھگتنے کے بعدمعاشرے کے لیے ایک سودمندشہری بن سکتاہے

 

 ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی ہوہمارے قانونی ادارے اورعدالتیں اس قدراختیارمندہوں کہ مجرم کووہاں سے کسی قسم کی نرمی دستیاب نہ ہومجرم پابندسلاسل ہواوراس سے متعلق خفیہ معلومات دینے والوں کومکمل تحفظ فرا ہم کیاجائے ان کانام صیغہ رازمیں رکھاجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تواس سے معاشرے میں جرم کم ہوں گے

 

 اس لیے کہ ایک چھوٹابچہ بھی عزت نفس رکھتاہے اس کے والدین بھی دوسروں کے سامنے اس کے کسی ایسے عمل کوظاہرکریں جسے وہ اپنے لئے رسوائی سمجھتاہوتو اس سے اس بچے کی نفسیات پربہت منفی اثرپڑتاہے جس کے ردعمل میں وہ بچہ باغی،ہٹ دھرم اورضدی بن جاتاہے اوردوسری انتہائی اہم بات کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی ہوہمارے قانونی ادارے اورعدالتیں اس قدراختیارمندہوں کہ مجرم کووہاں سے کسی قسم کی نرمی دستیاب نہ ہومجرم پابندسلاسل ہواوراس سے متعلق خفیہ معلومات دینے والوں کومکمل تحفظ فرا ہم کیاجائے ان کانام صیغہ رازمیں رکھاجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تواس سے معاشرے میں جرم کم ہوں گے۔