اگرچہ دیر ہوچکی ہے!

اگرچہ دیر ہوچکی ہے!

سردارجمال

زیادہ نہیں صرف اگر چند دہائیاں پیچھے چلا جائے تو ہم جان جائیں گے کہ آج کل کے جوانوں کے غیر سیاسی ہونے کے اصل قصوروار ہم ہی ہیں اور وہ ایسے کہ جب ضیا الحق کے دور میں بے نظیر بھٹو وطن واپسی لوٹی تو عوام نے تہہ دل سے ان کو خوش آمدید کہا اور بھاری اکثریت سے ان کو وزیراعظم پاکستان بنایا مگر اس وقت کے نیم جنرل محمد نواز شریف نے ان کی ناک میں دم کر دیا عوام کو سڑکوں پر لایا گیا اور ہر طرف بے نظیر مردہ باد کے نعرے بلند ہوئے،ان کے خلاف طرح طرح کے الزامات ل؛گائے گئے یہاں تک کہ ان پر ذاتی حملے ہوئے اور ان کی خوب کردار کشی کی گئی ان کی برہنہ تصاویر بنا کر جہازوں سے پھینکی گئیںاس کے بعد نواز شریف کا دور آیا اور قرض اتارو،ملک سنوارو والا نعرہ لگایا گیا اس کے علاوہ اور بھی طرح طرح کے نئے نئے قوانین پاس کیے  گئے جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مخالف پارٹی والوں کو  قانون کے نام پر گھسیٹا جائے،لہذا اس ستم ظریفی سے جان چھڑانے کے لئے بھٹو کے جیالے میدان میں اتر آئے جس سے ملک کا بیڑا غرق دیا گیا کیونکہ ان دونوں کے درمیان جو انتقامی سیاست چل رہی تھی اس کا واحد حل صرف یہ تھا کہ مارشل لا کی مدد سے سیاسی جنات اٹھائے  جائیں۔پاکستانی سیاست دانوں کی جنگ و جدل کی وجہ سے پاکستانی عوام سیاست سے بد دل ہوگئے کیونکہ سیاسی لیڈر  ایک دوسرے کو رسوا کر نے کے لئے سب ناجائز کو جائز  سمجھتے تھے،اس لئے عوام کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ یہ کہ مذہبی سیاسی پیشواوں کے پیچھے چلا جائے جس کا نتیحہ یہ نکلا کہ پورے  خطہ اور خاص کر پشتون مٹی دہشتگردوں کے نرغے میں آگئی اس کے علاوہ بعض لوگ اور خاص کر نوجوان طبقہ خالی میدان میں کھڑا ادھر ادھر مایوسی کی حالت میں دیکھ رہا تھا اور وہ اس انتظار میں تھا کہ کہیں سے گزرتی ہوئی سیاسی گاڑی کے پیچھے لٹک کر اپنے آپ کو آگے کی طرف لے جائیں۔اگرچہ یہ نوجوان سیاسی شعور سے نالاں تو  تھے  لیکن اس کے باوجود یہ کوئی ایسا موقعہ چاہتے تھے کوئی آئے اور وہ ان کے پیچھے لگ جائیں یہ موقعہ کپتان نے کیش کیا اور انہوں نے نوجوانوں کا یہ لشکر اپنے ساتھ روانہ کیا،کپتان کے پاس جذباتی تقریروں اور ڈی جے بٹ کے ساونڈ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا لیکن نوجوانوں نے اس کو غنیمت سمجھ کر کپتان کا ساتھ دیا،وجہ یہ تھی کہ نوجوان کو غیر سیاسی بنایا گیا تھا انہوں بڑی پارٹیوں کو آپس میں صرف لڑتے اور جھگڑتے ہوئے دیکھا تھا اس لئے یہ  پارٹیوں  آپس کے اختلافات کی وجہ سے اپنا وژن کھو بیٹھی تھیں  اور جو چھوٹی پارٹیاں تھیں وہ بھی عوام کے درمیان  جانے سے گریزاں تھیں ہاں البتہ یہ پارٹیاں ڈرائینگ روم سے تھوڑی بہت سیاست ضرور کیا کرتی تھیں اب چونکہ تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں بہت بڑے زوال سے دوچار ہوئیں ہیں اور مزید ہو رہی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ کپتان نے نوجوانوں  کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا  فطرت کے قانون کے مطابق جوانوں کے بوڑھے ہونے میں کئی دہائیاں لگتی ہیں جبکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے تمام ورکر اور ووٹرز بوڑھے ہوچکے ہیں،چونکہ بوڑھے اپنی عمر پوری کر کے اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں  جس کی وجہ سے تقریبا بیس ہزار بزرگ  روزانہ کے حساب سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جو پی ٹی آئی کے علاوہ باقی پارٹیوں کے لوگ ہوتے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ کے حساب سے بیس ہزار نئے شناختی کارڈز بنائے جاتے ہیں جو کہ تقریبا کپتان کے ووٹرز ہوتے ہیں۔کپتان کے پیرو کار اخلاقیات سے  باہر رہتے ہوئے گالیاں دینے کو سیاست سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ یہ نوجوان غیر سیاسی ہیں،ان کے خیال میں کپتان کی ہر بات  حرف آخر ہے اور وہ یہی سمجھ کر سیاست کر رہے ہیں،وہ اپنے لیڈر کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کیونکہ وہ حالات حاضرہ اور زمینی حقائق سے بے خبر ہیں،وہ دلیل اور لاجک سے دور رہ رہے ہیں،وہ آندھی تقلید کرنے والے ہیں،چونکہ وہ شخصیت پرست ہیں اس لئے یہ پارٹی  ایک فین کلب بنی ہوئی ہے اور جو فین ہوتے ہیں وہ دنیا کی کوئی حقیقت اور دلیل ماننے کو تیار نہیں ہوتے ہیں سیاسی پارٹیوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ آنے والے عام  انتخابات میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں اور تمام پارٹیاں اکھٹی ہوکر سیاست کو سیاسی پٹڑی پر لگا دیں اور ساتھ ہی تمام سیاسی لیڈروں کو چاہیئے کہ وہ سٹیج سے اتر کر عوام کے درمیان آئیں اور بے شعور اور غیر سیاسی نوجوانوں کو سیاسی بنائیں کیونکہ مسلے کا حل صرف بڑوں کا سیاسی اتحاد نہیں ہے بلکہ عوام میں رہ کر نوجوانوں کی ذہن سازی بھی ہے اور وہ یہ کام کریں کیونکہ ہمارے بزرگ چند دن کے مہمان ہوتے ہیں،ایک قوم کا اصل سرمایہ اس کے نوجوان ہوتے ہیں اور نوجوانوں کو سیاسی بنانے کے لئے قوم کے ان بچوں پر  توجہ دینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ آج کے بچے کل کے نوجوان ہوں گے۔