
خیبر پختونخوا کی پہلی مگر متنازعہ ہاکی لیگ

وزیر اعلی کے معاون خصوصی اطلاعات و اعلی تعلیم کامران بنگش نے لیگ اور آرگنائزنگ کمیٹی بارے شکایات پر تحقیقات کا اعلان صوبے کی تاریخ میں پہلی بار پرائیویٹ پارٹنر شپ پر شروع ہونیوالی ہاکی لیگ پر اکثریت ٹیم مالکان کا احتجاج جاری رہا اور ہاکی لیگ میں ہاکی فیڈریشن پہلے دن سے ایک ہی ٹیم کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے مختلف خربے استعمال کرتا رہا تھا، صوبے میں پہلی بار کھیلوں کے میدان کو آباد کرنے کیلئے پرائیویٹ لوگوں نے لاکھوں روپے خرچ کردیئے۔ ہاکی لیگ میں مختلف ٹیموں کی جانب سے شکایات کا ازالہ نہ ہونے پر دوبارہ فیڈریشن کی موجودگی میں لیگ منعقد نہ کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ ڈائریکٹریٹ آف سپورٹس خیبر پختونخوا کی جانب سے صوبہ بھر میں ہاکی کو فروع دینے کیلئے اور کورونا وائرس سے متاثرہ کھیلوں کے میدان کو دوبارہ آباد کرنے کیلئے ہاکی لیگ کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبے کے تمام ڈویژن سطح اور قبائلی اضلاع کی ٹیمیں شامل تھیں۔
محکمہ سپورٹس نے پہلے مرحلے میں ٹیموں کی نیلامی کی اور بعد ازاں ہاکی فیڈریشن کو ان ٹیموں کیلئے 32 کھلاڑیوں کے انتخاب کیلئے ذمہ داری دی جس میں فیڈریشن نے 16 سینئراور 16 جونیئر کھلاڑیوں کا انتخاب کیا، ایونٹ کے فاتح کا تاج پشاور فالکنز نے بنوں پینتھرز کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے شکست دیکر سر پر سجا لیا اور یوں پہلی بینک آف خیبر، خیبر پختونخوا ہاکی لیگ کی ونر لسٹ میں پشاور فالکنز نے اپنا نام ٹاپ پر درج کرا لیا۔ ٹرائبل لائنز تیسری پوزیشن کے میچ کھیلنے نہیں آئی جس نے سیمی فائنل میں امپائر کے فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے لیگ چھوڑی تھی جس پر کوہاٹ ایگلز کو تیسری پوزیشن کا حقدار قرار دیا گیا۔ پشاور کے ابوبکر کو انفرای 14 گول کرنے پر مین آف دی لیگ قرار دیا گیا۔
اس موقع پر وزیراعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات واعلی تعلیم کامران بنگش اور سیکرٹری کھیل عابد مجید نے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے، ڈائریکٹر جنرل سپورٹس اسفندیار خٹک اور دیگر حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔ حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے ہاکی کے فروغ کے لئے صوبہ میں شروع کی جانیوالی خیبر پختونخوا سپر ہاکی لیگ پہلے ہی دن سے تنازعات کا شکار رہی اور پھر دوسرے سیمی فائنل میں تو یہ جانبدارانہ فیصلے مزید سامنے آگئے۔ امپائرز اور آرگنائزنگ کمیٹی کے غلط فیصلوں کے باعث ہاکی لیگ دوسرے سیمی فائنل میں ٹرائبل لائنز کی ٹیم نے احتجاج کے طور پر گراونڈ سے واک آوٹ کیا جبکہ آرگنائزنگ کمیٹی کے اہلکار ان کو منانے کی بجائے ان سے مزید الجھ پڑے جس پر حالات خراب ہو کر منتظمین نے ٹرائبل لائنزکے آفیشلز کو دھکے دینے شروع کر دیے، آرگنائزنگ کمیٹی کی جانب سے نامناسب رویہ اور ریویو نہ لینے پر ٹرائبل لائنزکے کھلاڑیوں نے میچ کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے گراونڈ سے باہر جانے کو ترجیح دی، دوسری جانب متعدد بارشیڈول کی تبدیلی اور لیگ کے قوانین کے خلاف فیصلوں نے آخرکار ہاکی لیگ میں تنازعات کو جنم دیا۔
ہاکی لیگ کے میچوں میں ناقص امپائرنگ پر اس سے قبل کئی بار سوالات اٹھائے گئے تھے مگر ان پر کوئی عمل نہ ہوا، مخالف ٹیموں کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ پوری لیگ میں امپائرنگ متنازعہ تھی اور امپائرز مبینہ طور پر ایک ٹیم کو سپورٹ کر رہی تھی،جو کہ سراسر نا انصافی ہے، انکا کہنا تھا کہ آخری مرحلے میں منتظمین نے لیگ کے قوانین کو پاوں تلے روندتے ہوئے اپنے ہی بنائے گئے اصولوں پر سیمی فائنلز کرانے کا فیصلہ کیا حالانکہ لیگ کے قوانین کے مطابق سیمی فائنلز ایک بمقابلہ چار اور دو بمقابلہ تین کے فارمولے کے تحت کھیلا جاتا ہے، ٹرائبل لائن کی ٹیم کے آفیشلز کیمطابق دوسرے سیمی فائنل میں ون مین شو کا کردار نمایاں رہا جس نے ہاکی لیگ کو بدمزگی کا شکار بنا دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شروع دن سے ہاکی لیگ کو متنازعہ بنانے کی کوششیں ہو رہی تھیں مگر وہ خاموش تھے مگر کل کھیلے جانے والے سیمی فائنل میں امپائرز اور آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان نے زیادتی کی انتہا کر دی جس کی وجہ سے مجبوراً احتجاجی طور پر گراونڈ سے واک آوٹ کرنا پڑا۔ لیگ میچوں کی طرح فائنل میں بھی امپائرنگ ناقص رہی اور پہلے سے چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ پشاور ہی کو فتح دلوائی جائے گی، یہ چہ میگوئیاں بھی ہوتی رہیں کہ پشاور کی جانب سے 11کی بجائے 13 کھلاڑی کھیل رہے تھے جن میں یہ امپائرز کو شمار کیا جا رہا تھا جبکہ بنوں کے صرف11 کھلاڑی کھیل رہے تھے۔ ایک موقع پر امپائر نے پشاور فالکنز کو پینلٹی کارنر دیا اور کھیل بھی جاری رہا۔ آخری لمحات میں پشاور کو پینلٹی کارنرز دینے پر بنوں کا ایک کھلاڑی کافی دیر تک امپائر کے ساتھ بحث کرتا رہا۔
اس سے ایک دن قبل دوسرے سیمی فائنل میں پشاور فالکنز کو ٹرائبل لائنز کے خلاف 2-1 کی برتری حاصل تھی کہ پشاور کو ایک متنازعہ پینلٹی سٹروک دیا گیا جس پر ٹرائبل لائنز نے احتجان کیا۔ ٹی وی کے ایکشن ری پلے سے واضح نظر آیا کہ گیند دفاعی کھلاڑی نے ہاکی سٹک سے روکی لیکن امپائر نے کہا کہ نہیں آپ نے پاوں سے روکا ہے جس پر ٹرائبل کے کھلاڑیوں نے احتجاج کیا لیکن امپائر اپنے فیصلے پر اڑے رہے جس کی وجہ سے ٹرائبل لائنز نے احتجاج کرتے ہوئے گراونڈ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پشاور کو فاتح قرار دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد ٹورنامنٹ ڈائریکٹر ظاہر شاہ نے گراونڈ میںمیڈیا کے نمائندوں سے بدتمیزی کی اور ان کو دھکے دئے گئے کہ گراونڈ سے باہر نکل جائو۔ لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں کھیلے لئے فائنل کے پہلے دو کوارٹرز بغیر کسی گول کے برابر رہے تیسرے کوارٹر اور میچ کے مجموعی 45 ویں منٹ میں بنوں کے معین شکیل نے فیلڈ گول کرتے ہوئے ٹیم کو برتری دلا دی تاہم وہ ایک منٹ سے زیادہ برقرار نہ رہی جب پشاور کے نوخیز ملک نے ایک ہی منٹ بعد فیلڈ گولڈ کرتے ہوئے مقابلہ ایک ایک گول سے برابر کر دیا۔ 56 ویں منٹ میں پشاور کو پینلٹی کارنر ملا جسے ضائع کیا گیا لیکن بنوں کے کھلاڑی کے فائول کی وجہ سے پشاور کو ایک اور پینلٹی کارنر دیا گیا جس پر وہ گول کرنے میں کامیاب ہوئے اور یوں لیگ جیت لی۔ فاتح ٹیم کو 10 لاکھ، رنرز اپ کو 5 لاکھ،تیسری پوزیشن لینے والی ٹیم کو 3 لاکھ روپے انعام دیا گیا۔لیگ میں آٹھ ٹیموں بنوں پینتھرز، ڈی آئی خان سٹالینز، مردان بیئرز، کوہاٹ ایگلز، ہزارہ واریئرز، پشاور فالکنز، ٹرائبل لائنز اورمالاکنڈ ٹائیگرز نے حصہ لیا۔آرگنائزنگ کمیٹی نے چار بار شیڈول تبدیل کیا ، میچوں کے وقت اور مقامات بھی تبدیل کئے گئے، کئی ٹیم مالکان پہلے ہی کمیٹی پر اعتراضات اٹھا چکے تھے لیکن آرگنائزنگ کمیٹی غیر جانبدارہونے کی بجائے پشاور فالکنز کے لئے راہ ہموار کرتی رہی۔
وزیر اعلی کے معاون اطلاعات واعلی تعلیم کامران بنگش نے کہا ہے کہ ہاکی لیگ کا اچھا فیڈ بیک ملا پاکستان ہاکی فیڈریشن سمیت سب نے اس کی تعریف کی ہے لیگ اور آرگنائزنگ کمیٹی بارے شکایات کی تحقیقات کریں گے۔ لیگ کی اختتامی تقریب میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہاکی کے فروغ کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے اور امپائرنگ کے بارے میں تحقیقات کرے گے۔ تاکہ اگلا ایڈیشن اس سے بہترین انداز میں منعقد کرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جیتنے والی ٹیم ہارنے والی ٹیم پر سبقت نہ سمجھے بلک سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کیا، ہار جیت کو صبر وبرادشت کے ساتھ تسلیم کیا جائے، رنرز اپ ٹیم نے اچھے جذبے کا مظاہرہ کیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ کھیل کو کھیل ہی سمجھا جائے، صبر وبرداشت کا ماحول برقرار رکھا جائے۔ڈائریکٹوریٹ سپورٹس خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام کھیلے گئے خیبر پختونخوا ہاکی لیگ خیبر پختونخوا ہاکی ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتائوں اور آرگنائزنگ کمیٹی کے فیصلوں کے باعث تنازعات کا شکار ہوگئی اور دوسرے سیمی فائنل میں ٹرائبل لائنز کے خلاف پشاورفالکنز کو پینلٹی کارنر دینے کے فیصلے پر ٹرائبل لائنز نے احتجاج کیا ریویو کا مطالبہ نہ ماننے پر ٹرائبل لائنز نے سیمی فائنل اور لیگ ادھوری چھوڑ دی۔ لیگ پہلے ہی دن سے تنازعات کا شکار تھی جب ایک من پسند ٹیم کلے لئے ارگنائزر نے چار بار شیڈول تبدیل کیا گیا ایف آئی ایچ رولز کے مطابق سنگل لیگ میں پہلی اور دوسری پوزیشن کی حامل ٹیموں کے درمیان فائنل کھیلا جاتا ہے لیکن آرگنائزنگ کمیٹی نے سنگل لیگ میں سیمی فائنل شامل کر دیئے علاوہ ازیں امپائرز کے فیصلوں پر اعتراضات ہوتے رہے مختلف حلقوں کی جانب سے انگلیاں اٹھتی رہیں لیکن آرگنائزنگ کمیٹی ٹھس سے مس نہیں ہوئی، پہلے ہی دن سے یہ تاثر تھا کہ پشاورفالکنز کے لئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے اور بالآخر پشاور فالکنز فائنل میں پہنچ گئی۔
ٹرائبل لائنز کے مالک سید تحسین شاہ نے اس موقع پر کہا تھا کہ ان کا مطالبہ صرف ریویو تھا بے شک وہ ان کے خلاف جاتا لیکن ریویو نہیں دیا گیا، سیمی فائنل کے آخری کوارٹر میں ٹرائبل کے کھلاڑی نے بال سٹک سے روکی لیکن امپائر نے پینلٹی سٹروک دے دی لیگ میں پہلی اور دوسری ٹیموں کے درمیان فائنل کھیلا جاتا ہے انٹرنیشنل رولز کے مطابق ایک اور چار اور دوسری اور تیسری پوزیشن کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلے جاتے ہیں لیکن لیگ میں ایک تین اور دو اور چار نمبر پر ٹیموں کے درمیان سیمی فائنل کھیلے گئے اور پشاور فالکنز کو کوہاٹ ایگلز کے ساتھ مقابلے سے دور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائبل کے دو میچوں کا وقت اور مقام تبدیل کیا گیا چار بار شیڈول تبدیل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جیوری نے بدتمیزی کی، کھلاڑیوں کے انکار کے باعث لیگ چھوڑی ۔ انہوں نے کہا کہ انہی کھلاڑیوں کو خریدا جو اپنی ہی ایسوسی ایشنوں نے نظر انداز کیا اور آخری لمحات میں ٹیم تشکیل دی جو انٹرنیشنل رولز کے مطابق لیگ میں ٹاپ ہونے پر فائنل کے لئے کوالیفائی کر چکی تھی لیکن آرگنائزنگ ایونٹ میں سیمی فائنل شامل کئے گئے جو تسلیم کیا گیا لیکن اس کے باوجود زیادتی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائبل کے کپتان کو دو میچوں کے لئے معطل کیا گیا جبکہ منیجر کو بلا وجہ معطل کیا گیا۔لیگ سے قبل وزیرعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے خیبرپختونخوا حکومت کا کھیلوں کے فروغ کیلئے ایک اور اہم قدم ۔ وزیراعلی محمود خان نے خیبرپختونخوا ہاکی لیگ 2021 کے لوگو اور ٹرافی کی رونمائی کی تھی صوبے کی تاریخ کی پہلی ہاکی لیگ میں آٹھ ٹیمیں شرکت کریں گی جن میں پشاور فالکن ، ملاکنڈ ٹائیگرز ، ڈیرہ اسماعیل خان سٹالین، ہزارہ واریئرز، بنوں پنتھرز، مردان بیرز ، ٹرائیبل لائنز اور کوہاٹ ایگلز شامل ہیں۔
وزیراعلی نے کہا کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی بارہاکی لیگ محکمہ کھیل کے لئے اہم سنگ میل رہا پی ٹی آئی کی حکومت شروع دن سے کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں ہے اور اس مقصد کیلئے شعبہ کھیل کا بجٹ کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کھلاڑی ہمارا اثاثہ ہیں۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کو غیر ضروری سرگرمیوں سے نکال کر کھیل کی طرف راغب کرنا ہے اور انہیں دوبارہ سپورٹس گرائونڈ پر لانا ہے۔ لوگ ہاکی کو تقریبا بھول چکے ہیں اپنے قومی کھیل کی دوبارہ بحالی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہاکی کو فروع دینے کے لئے صوبے کے تمام اضلاع میں ہاکی آسٹروٹرف بنائینگے جس سے صوبے کے تمام اضلاع میں ہاکی کو دوبارہ فروع مل سکے گا صوبائی حکومت ہاکی کے فروغ کیلئے نظر آنے والے اقدامات کر رہی ہے ۔ موجودہ صوبائی حکومت چارسدہ کوہاٹ ، ڈی آئی خان اور پشاور میں چار نئے ہاکی ٹرف بچھا چکی ہے جبکہ باجوڑ ، نوشہرہ اور ایبٹ آباد میں کام جاری ہے ۔ رواں مالی سال کے آخر تک خیبرپختونخوا میں بین الاقوامی معیار کے 12 آسٹر و ٹرف موجود ہوں گے ۔
وزیراعلی کے مطابق صوبے کے شعبہ کھیل کی جانب سے جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ کسی دوسرے صوبے میں موجود نہیں۔ تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز ، سپورٹس کمپلیکس قائم کئے جا چکے ہیں۔ اب ضلع کی سطح پر سپورٹس کمپلیکس کے قیام کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلی نے اس مقصد کیلئے متعلقہ حکام کو باضابطہ پروپوزل تیار کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی ۔ صوبائی حکومت کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے ہر ضرورت پوری کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ضم اضلاع میں بھی کھیلوں کی بحالی پر کام جاری ہے ، وہاں بھی سپورٹس کمپلیکس بنائیں گے۔انہوں نے کہاکہ ہاکی کی طرح دیگر اہم کھیلوں کرکٹ، فٹبال ، سکواش اور والی بال کے فروغ کیلئے بھی صوبائی حکومت بھر پور تعاون یقینی بنائے گی ۔ انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے ۔ ہم نے اس ٹیلنٹ کو بروئے کار لانا ہے اور اپنے گرانڈز کو پھر سے آباد کرنا ہے ۔
خیبر پختونخواقومی ہاکی لیگ میں حصہ لینے والی آٹھ ٹیموں میں ڈیپارٹمنٹ کے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جبکہ آفیشل بھی دیگر ٹیموں کیساتھ شامل تھے لیگ میںپاکستان ہاکی ٹیم کے چار کھلاڑیوں کو ان ٹیموں میں شامل کیا گیا تھا ڈی آئی خان ٹیم میں گول کیپر محمد عدنان عبدالرحمان عمران احمد خالد عثمان ایم نعمان ایم ساجد بلوچ شہزا د خان مہربان زین العابدین اکبر زمان مرتضی امجد علی ایم فیضان ہارون بلوچ محمد اویس ایم سجاد علی ایم عمر حسن ڈیپارٹمنٹ کھلاڑی حسن جمیل کریم شامل ہیں آفیشل میں برکت علی اور شعیب شامل ہیں آفیشل میں محمد رمضان شعیب جہانگیر برکت علی شامل ہیں۔اسی طرح کوہاٹ ٹیم میں گول کیپر کفایت رضا حبیب ولی الرحمان عادل خان وسیم افضل انور امجد رشید شاہد حسن نیازی حبیب اصغر ضیا عمر شفیق بلال بختیار علی شیروز احسان دانیال ڈیپارٹمنٹ کھلاڑی بلال شعیب حامد شامل ہیں آفیشل میں محمد آصف نوید اقبال منظور شامل ہیں۔ملاکنڈ ٹیم میں گول کیپر فرمان شمشیر سہیل عباس داد غفار امیر حمزہ عباس رئیس مزمل اسرار احمد اعجاز احمد عاطف انیس یاسر اعجاز ظہیر عباس سنگین اسلام محمد ڈیپارٹمنٹ کھلاڑی شاہ فہد محسن ہادی شامل ہیں آفیشل میں ملک ودان کاشف فرحان ڈاکٹر لیاقت شامل ہیں۔ہزارہ ٹیم میں اویس احد عثمان وقاص نثار اذان علی حارث خان حسین محمود الحسن علی عباس شام نواز عرفان حسین شاہ محمد عثمان حسیب خان خاور شہزاد فرمان اللہ ڈیپارٹمنٹ کے کھلاڑی فرمان دانش نوید شامل ہیں آفیشل میں سردار وسیم مدثر ملک حق نواز شامل ہیں۔مردان ٹیم میں گول کیپر وقار ایمل شاہ زیب جواد اظہر حمزہ حمزہ باچا کاشف سعد سردار اعجاز سیف اللہ زرک سراج شایان احمد ہاشم اعوان ابراہیم عامرڈیپارٹمنٹ کھلاڑیوں میں زکریا ابراہیم عادل شامل ہیں آفیشل میں ریحان اشرف کلیم اللہ حسن باچا شامل ہیں۔بنوں ٹیم میں گول کیپر رومان سلمان ابرار منیب عامر سہیل وسیم گول کیپر فیضان جہانگیر قیصرار ثاقب ڈیپارٹمنٹ کھلاڑیوں میں سفیان ذاکر خیر اللہ شامل ہیں آفیشل میں احسان اللہ شفقت اللہ اور محمد نعیم شامل ہیں۔فاٹا ٹیم میں عثمان ندیم سمیع الحق اسامہ مشتاق زیا د توحید افاق عزیر طارق جمیل ثنا اللہ ڈیپارٹمنٹ عباس یاسر اور ولید شامل ہیں آفیشل مین ایوب۔ وقاص اور اعجاز شامل ہیں۔پشاور ٹیم میں گول کیپر سبحان قیصر عمر صلاح الدین جبران جنید شاہ عثمان مجیب سلمان اسماعیل زرین تیمور اسامہ رحمان احمد علی سلمان نور ڈیپارٹمنٹ کھلاڑیوں میں امجد یاسر زاہد اللہ شامل ہیں آفیشل میں یاسر اسلام ضیا بنوری ظاہر محمد خان شامل ہیں۔