خان عبدالولی خان،ایک دور،ایک تاریخ 

 خان عبدالولی خان،ایک دور،ایک تاریخ 


روخان یوسف زئی

خان عبدالولی خان برصغیر کے ان مدبر،دوراندیش،نڈر وبیباک،بالغ نظر، باصول سیاست دانوں اور دانشوروں میں شامل ہیں جو حقیقی معنوں میں کثرالجہت جانے اور مانے جاتے ہیں،وہ بیک وقت ایک اصول پرست،جمہوریت پسند اور قوم پرست رہنما بھی تھے اور ایک بہترین لکھاری،تجزیہ کار اور دانشور بھی تھے۔ان کی لکھی ہوئی کتابوں،مضامین اور انٹرویوز سے تحریک آزادی کی اصل حقیقی تاریخ اور اس دھرتی کے اصل سپوتوں کا چہرہ صاف ستھرا سامنے آیا ہے۔لہذا اگر کوئی برصغیر کی آزادی کی اصل تاریخ،ملک میں وقتاً وقتاً کی گئی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے اپنے آپ کو باخبر کرنا چاہتا ہو اسے ولی خان کی کتابیں،مضامین اور انٹرویو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ جب آدمی دس کتابیں پڑھتا ہے تو دس ہزار میل کا سفر کرلیتا ہے،گورج فوک کتاب کے بارے میں کہتے ہیں''اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کرد ے بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں۔۔زندگی کو جاننے کی بھوک''اس تناظر میں ویسے تو  برصغیر کے مدبر سیاست دان،نامور قوم پرست وجمہوریت پسند رہنما اور دانشور خان عبدالولی خان کی لکھی ہوئی دو مشہور کتابیں جن میں ایک ''حقائق مقدس ہیں''اور دوسری کتاب''باچاخان اور خدائی خدمتگاری''(آخرالذکر کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے) اگر کوئی تعصب،تنگ نظری اورجانبداری کی عینک اتار کرعمیق نظروں سے مطالعہ کریں تو اس پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ انگریز حکمرانوں کا تقسیم ہند کا اصل مقصد  کیا تھا ؟اور تحریک آزادی کے اصل ہیروز کون ہیں اس دھرتی کی آزادی کے لیے کس نے اپنی جان ومال کی قربانیاں دی ہیں؟بہرحال جو قارئین اس بارے میں ٹھوس حقائق اور اصل کہانی جاننا چاہتے ہیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ خان صاحب کی مذکورہ کتابیں ایک بار ضرور پڑھیں جو تین زبانوں یعنی انگریزی،اردو اور پشتو میں دستیاب ہیں۔اس وقت میں جس کتاب کا ذکر کررہا ہوں اس کا نام ہے''افکار ولی خان بہ زبان ولی خان''اس کتاب کو معروف قوم پرست لکھاری اور محقق زیرک اوتمان خیل نے مرتب کیا ہے۔مذکورہ کتاب میں تقریباََ خان صاحب کے وہ مشہور اور تہلکہ خیز انٹرویوز شامل ہیں جس کے شائع ہونے پر اس وقت کے حکمران اور مقتدر قوتوں نے بوئیں چڑھائی تھیں اور خان صاحب کی باتوں کا دلیل کیساتھ جواب دینے کے بجائے ان پر طرح طرح کے الزامات اور فتوے لگائے تھے انہیں غدار۔ملک دشمن،روس ،ہندوستان اور افغانستان کا ایجنٹ قرار دیا تھا مگر''حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے'' کے مصداق آج ہمارے ملک اور بیرون ملک کے تقریباً تمام سیاست دان،دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار مان گئے ہیں اور اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ خان صاحب کی ہر بات اور ہر پیشگوئی پتھر پر لکیر ثابت ہوگئی ہے کاش کہ ہم خان عبدالولی خان کی کہی ہوئی باتوں پر اس وقت ہی عمل کرتے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔ 
 صاحب سیف و قلم خوش حال خان خٹک کا ایک شعرہے 
چہ دستارتڑی ہزاردی
د دستارسڑی پہ شماردی
یعنی ''دستارباندھنے والے ہزاروں میں سے ہیں مگر دستارکی لاج رکھنے والے گنتی کے چندلوگ ہیں'' اس بات سے وہ لوگ بھی اتفاق کریں گے جنہوں نے اپنی زندگی میں برصغیر کے نام ور قوم پرست اورترقی پسندرہنما، اصول پرست سیاست دان اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہبر تحریک خان عبدالولی خان کے نظریات کی برملامخالفت کی،کہ خان عبدالولی خان ایک دوراندیش،اصول پرست،جمہوریت پسند،وطن دوست اوراپنے نظریات پرقائم رہنے والی شخصیت تھی آج پورے خطے میں بدامنی اوردہشت گردی کا جوطوفان چل رہا ہے اس کی نشاندہی ولی خان اپنی زندگی میں بارہا کرچکے تھے وہ اپنی ہرتقریراورپریس کانفرس میں ان جنگ پرست قوتوں کوخبردارکیا کرتے تھے جوپاکستان کی سرزمین سے اپنے پڑوسی برادر اوراسلامی ملک افغانستان میں مداخلت کیا کرتی تھیں  انہیں بار بارولی خان کہاکرتے تھے کہ جوآگ آپ لوگ افغانستان میں لگانا چاہتے ہو، وہ آپ کے گھروں تک آ جائے گی شاید اس وقت ان قوتوں کوولی خان کی اس قسم کے بیانات پریقین نہیں آتا تھا یقین کیا وہ توولی خان کی نیت پربھی شک کیا کرتے تھے اورسمجھتے تھے کے خان صاحب ہندوستان،افغانستان اورروس کے ایجنٹ ہیں اوران ہی کی زبان بول رہے ہیں آج ان کی وفات کو آٹھ سال بیت چکے ہیں اس عرصہ میں جوکچھ رونما ہوا یا ہورہا ہے اس کی پیش گوئی خان عبدالولی خان بہت پہلے کرچکے تھے ولی خان نے 89 سال اس دارفانی میں بسرکیے اورسیاسی طورپرایک ہنگامہ خیزاورپرشورزندگی گزاری اوربقول خوش حال خان خٹک کہ ''اب ایک شورتھمانہیں کہ دوسرا چلاآجاتا ہے مگرمیں شورشرکے دن ہی پیدا ہوا ہوں'' اسی شعر کی روشنی میں اگرہم خان عبدالولی خان کی پوری زندگی پرنظردوڑا ئیں تواس سے بھی یہی تصویربنتی ہے جس کا ذکرخوش حال خان نے اپنے شعر میں کیا ہے 26 جنوری 2006ء کو جمعرات کی صبح اس دنیا سے کوچ کرنے والے عظیم قوم پرست اورمدبر سیاست دان ولی خان سے پاکستانی عوام ایک جمہوریت پسند اورصاف گو سیاست دان اور پختون قوم ایک عظیم رہنماء اور مخلص قیادت سے محروم ہو گئی۔ وہ زندگی بھر اپنے والد باچا خان کے نقش قدم پرچلتے رہے بالکل اس شعر کے مصداق کہ
نیاہے یاپرانا راستہ ہے
یہ جیسا بھی ہے میرا راستہ ہے
 انہوں نے اپنی جوانی کے شب وروز جنگ آزادی کے ہنگامہ خیزدور میں گزارے، ساری عمر ملک میں جمہوریت،آئین، قانون کی بالادستی، انصاف، باہمی اتحاد اور انسانی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہے اوراس کی پاداش میںانہیں اپنی زندگی کا بیش تر حصہ انگریزوں اور اپنوں کے ہاتھوں بھی قید و بند میں بسر کرنا پڑا، انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں اورنظریات پر سودا بازی نہیں کی وہ اپنی صاف گوئی کی بناء پرپورے ملک میں جانے اورپہچانے جاتے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہبر تحریک خان عبدالولی خان دسمبر 1915ء  میں خان عبدالغفار خان کے ہاں پیدا ہوئے اور انہوں نے باچا خان کے قائم کئے ہوئے آزاد ہائی سکول اتمان زئی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1929ء میں انہوں نے خدائی خدمت گار تحریک میں حصہ لینا شروع کیا میٹرک کے بعد انہیں ڈیرہ دون (یو پی) پبلک سکول میں داخل کرایا گیا، ولی خان نے یہاں سے سینئر کیمبرج کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد سیاسی زندگی کا آغاز 1942ء میں کیا۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکارنہیں کرسکتا کہ ولی خان کی ہربات اورقول ملک کے اجتماعی مفاد میں ہوتا تھا،وہ جوحقوق اپنی قوم پختونوں کے لیے مانگ رہے تھے وہ ملک کی دیگرقوموں کے لیے بھی مانگتے رہے کیوں کہ وہ ایک لبرل ،جمہوریت پسند اورروشن خیال قوم پرست تھے شاون ازم کے سخت خلاف تھے، انہوں نے نوجوانی میں ہی باچا خان کے ہم راہ خدائی خدمت گار تحریک کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی جس کی پاداش میں پہلی بار1943ء میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ( 40 ایف سی آر) کے تحت گرفتار ہو گئے اور انہیں تین سال قید کی سزا ملی جب کہ برصغیر کی تقسیم تک وہ آل انڈیا کانگریس کے رکن رہے۔1947ء میں ولی خان کی اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی ہوئی پندرہ جون 1948ء کو ولی خان کو پاکستان بننے کی مخالفت اور پختونستان بنانے کے الزام میں اپنے والد باچا خان اور دوسرے ہزاروں خدائی خدمت گاروں کے ساتھ گرفتار کئے گئے، جائیدادیں ضبط کی گئیں اور غیر معینہ مدت کے لیے جیل میں ڈال دیئے گئے 14 فروری 49ء کو خان عبدالولی خان کی پہلی بیوی وفات پا گئیں جن کی دو صاحب زادیاں، اورایک صاحب زادہ جو آج کل اے این پی کے مرکزی صدر اورقومی اسمبلی کے ممبر اسفندیار ولی خان ہیں۔ مئی 1949ء میں ولی خان کو ہری پور جیل سے مچھ جیل بلوچستان منتقل کیا گیا نومبر 1950ء میں ولی خان اور قاضی عطاء اللہ کو سبی جیل منتقل کیا گیا 1951ء میں ولی خان کو کوئٹہ جیل منتقل کیا گیا 1952ء میں کوئٹہ جیل میں زیادہ گرمی کی وجہ سے ولی خان بیمار ہوئے اور انہیں ڈیرہ اسماعیل خان جیل منتقل کرنا پڑا۔ 8 دسمبر 52ء کو خان عبدالولی خان کی سزا ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ختم ہوئی کمشنر نے مزید سزا نہیں بڑھائی، ولی خان نے فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) کو رہائی کی درخواست بھیج دی کیوں کہ حکومت نے ان کو بغیر کسی مقدمے اور متعین کئے ہوئے وقت  کے بغیرجیل میں بند کررکھا تھا اس قید و بند کے دوران بہت سارے خدائی خدمت گار وفات پا گئے جن میں باچاخان کے بہت قریبی دوست قاضی عطاء اللہ بھی شامل تھے 14 نومبر 53ء کو خان عبدالولی خان پانچ سال پانچ مہینے اور پانچ دن قید کاٹنے کے بعد رہا کر دیئے گئے۔ 1954ء میں خان عبدالولی خان کی خدائی خدمت گار تحریک کے اہم رہنماء امیر محمد خان ہوتی (خان لالہ) کی بیٹی بیگم نسیم سے  شادی ہوئی 1954ء میں ہی پاکستان میں ون یونٹ سسٹم بنایا گیا جس کو ختم کرنے کے لیے باچا خان نے عملی جدوجہد کی انہی کوششوں میں ولی خان نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1956ء میں انہوں نے اپنے والد اور دوسرے قوم پرست لیڈروں کی بنائی ہوئی نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) میں شمولیت اختیار کی۔ 1961/62ء میں ون یونٹ کے خلاف باچا خان اور ان کے پیرو کاروں نے تحریک شروع کی یہ صدر جنرل محمد ایوب خان کا مارشل لاء کا دور تھا باچا خان اور ان کی پارٹی کے پانچ ہزار ساتھیوں کو مارشل لاء کی مختلف دفعات میں گرفتار کیا گیا ان گرفتاریوں کے خلاف خان عبدالولی خان نے احتجاجی جلسے جلوس صوبے بھر میں شروع کئے پارٹی کے تمام سرکردہ رہنمائوں کو کڑی سزائیں دی گئیں اور مختلف دفعات میں سپیشل ملٹری کورٹ سے دس سے چوبیس سال قید بامشقت اور جائیداد منقولہ غیر منقولہ کی ضبطی کی سزائیں بھی دی گئیں مگر ولی خان اور ان کے ساتھی بھی الولعزم، نڈر، نظریات کے پکے اور مضبوط ارادوں کے مالک تھے اور حقوق کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والے تھے ان سزاؤں کے خلاف کسی بھی رہنماء نے کمی کی اپیل نہیں کی، اوراس کے خلاف خان عبدالولی خان نے حکومت کے خلاف تحریک کو منظم کیا اور عوام میں بیداری پیدا کی جس سے حکومت بوکھلا گئی اور حکمران متزلزل ہوئے اور  از خود سزاؤں میں تخفیف کردی اور خود قیدیوں کی رہائی شروع کردی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں ولی خان اپنے آبائی حلقے چارسدہ سے بھاری اکثریت سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قائد حزب اختلاف بھی چنے گئے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کیا جس سے اس وقت کے حکم ران سخت نالاں تھے  مخالفین نے ہر حربہ ان کے خلاف استعمال کیا وزارتوں اور دیگر مراعات کی بھی پیش  کش کی مگر تمام حربے ناکام ہو گئے خان عبدالولی خان اصولوں پر سودے بازی کرنے والے نہیں تھے ان پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی کیے گئے مگر  ولی خان نہ بکنے والے تھے اور نہ جھکنے والے۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل اور منظوری میں ان کا کردار نہایت اہم اور کلیدی رہا، ولی خان کے مطابق وفاقی جمہوری نظام ہی پاکستان کی بقاء اور استحکام کا ضامن ہو سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس آئین کے ذریعے صوبوں کے حقوق کا تعین ہوا تھا لیکن اب وہ آئین کدھر ہے ؟ آج کل آٹھویں ترمیم سے پہلے جو سات ترامیم ہو چکی ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ولی خان کہتے تھے کہ 1973ء کے آئین کی مکمل بحالی سے ہی صوبوں کو ان کے حقوق مل سکتے ہیں اور سیاست میں قلابازیوں اور فلور کراسنگ روکنے میں مدد مل سکتی ہے وہ کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو سیاسی اور فنی نہیں بل کہ انسانی مسئلہ سمجھ کر اس کی مخالفت کیاکرتے تھے انہوں نے ایک اخباری انٹرویو میں کہا تھا کہ کالا باغ کا مسئلہ اس وقت تک فنی تھا جب تک یہ واپڈا کے دفاتر تک محدود تھا لیکن جب یہ مسئلہ دفتر سے نکل کر میدان میں آیا اور مختلف علاقوں میں اس کی حدود کے تعین کے لیے ستون کھڑے کئے گئے تو اس سے یہ بات سامنے آئی کہ نوے دیہات زیر آب آجائیں گے، ولی خان کے مطابق اگرچہ اسمبلی میں بعض ارکان نے اسے پاکستان کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے مکمل کرنے پر زور دیا لیکن ان کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ یہ مسئلہ بجلی کا نہیں بنیادی طور پر پانی کا منصوبہ ہے لہٰذا اسی آڑ میں منصوبے کے بعض بڑے حمایتیوں نے چولستان میں بڑی بڑی زمینیں خرید لیں لیکن جب عالمی بینک نے آب پاشی کے لیے پیسے دینے سے انکار کر دیا تو پھر انہوں نے اس منصوبے کے ساتھ بجلی نتھی کر دی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خان عبدالولی خان نے جن مختلف مگر اہم ترین مسائل پر کئی برس پہلے جو اظہارخیال کیا تھا وہ آج حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے وہ کہتے تھے کہ ہر مسئلہ اپنی مرضی سے نہیں بل کہ افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہئے کیوں کہ افہام و تفہیم سے حل ہونے والا مسئلہ ہی پائیدار ہوتا ہے اور ملک کے لیے استحکام کا باعث بنتا ہے وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں اسی رائے کا اظہار کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ مغربی پاکستان کو ایک یونٹ بنا کر پہلے تو چھوٹے صوبوں کی حق تلفی کی گئی جس سے مشرقی پاکستان کے عوام بھی ناراض ہوئے پھر عام انتخابات کے بعد ان کے نتائج کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور پھر اس مسئلے کو جو ایک بڑا سیاسی مسئلہ تھا حل کرنے کے لیے بھی گولی کا سہارا لیا گیا وہ کہاکرتے تھے کہ سیاسی مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے سے بات بنتی ہے زبردستی سے مسائل حل نہیں ہوتے بل کہ نفرت بڑھتی ہے اور حالات مزید خراب ہوتے ہیں، خان عبدالولی خان کو یہ افسوس رہا کہ ایک آزاد ملک کہلانے کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی کبھی اپنی نہیں رہی جس کے نتیجے میں اسے بین الاقوامی طور پر اہمیت حاصل نہیں ہو سکی تھی وہ افغانستان کے معاملات میں کسی بھی  ملک کی مداخلت کے سخت خلاف تھے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جنگ روس اور امریکا کی جنگ ہے جس میں امریکی خواہش پر ہماری مداخلت نے خود ہمارے لیے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں اور امریکا روس کی شکست کے بعد اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ چین کے مقابلے میں بھارت کو مستحکم دیکھے وہ اب پاکستان کو بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی اجازت نہیں دے گا بل کہ پاکستان اوربھارت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے اور بنانے پر زور دیتا رہے گا۔ولی خان نے کئی ایک کتابیں لکھیں جس میں ''باچا خان اور خدائی خدمت گاری'' خاصی مقبول ہوئیں، خان عبدالولی خان بیک وقت سیاست دان ، ادیب، دانشور اور بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار تھے ان کو بین الاقوامی ملکی اور علاقائی سیاست پر مکمل عبور حاصل تھا


 دراز قد، سرخ و سفید، خوب صورت، دیو قامت شخصیت، بناوٹ، مصنوعیت اور فیشن پرستی سے بے نیاز حقیقی معنوں میں پختون خوا کے مرد درویش خان عبدالولی خان جن سے ملک کے بڑے بڑے زور آور حکمران خائف رہے اور ایوان سیاست جن سے لرزہ براندام تھے ولی خان، جن پر ہر دور کے حکم رانوں، سول اور فوجی طاقتوں نے علیحدگی پسند، غدار، ملک دشمن، ہندوستان ، افغانستان اور روس کے ایجنٹ جیسے الزامات لگائے جن کے ساتھ دینا نہ دائیں بازو کے لوگوں کا کام تھا اور نہ بائیں بازو کی جماعتیں انہیں چاہتی تھیں اس ملک میں جمہوریت،انصاف،آئین و قانون کی بالادستی اورایک اصولی سیاسی کلچر کوپروان چڑھانے میں خان عبدالولی خان کی جدوجہد سے ان کے سخت مخالفین بھی انکار نہیں کرسکتے پاکستان کا وہ کون سا جیل ہے جس کی ہوا ولی خان نے نہیں کھائی ہو مگروہ ایک ایسے بابا کے فرزند تھے جن کے عدم تشدد کے فلسفے نے  برطانوی سام راج کوشکست سے دوچار کردیا اوراپنے والد کے نقش قدم پرچلتے ہوئے خان عبدالولی کو بھی مرتے دم تک کوئی طاقت اپنے اصولوں اورنظریات سے ایک انچ بھی ادھر اُدھر نہیں کرسکے ویسے توان کی تقریباً ہرگفت پتھر پرلکیر کے مترادف ہے تاہم موجودہ دور میں ہمارے ہاں جس قسم کی سیاست چل رہی ہے یا جوصورت حال بنتی جارہی ہے ان حالات میں ہمیں ولی خان کے افکار کی روشنی میں قدم اٹھانا ہوگا ان کی برسی کے موقع پر لمبی لمبی جذباتی تقریروں یا نعرہ بازی کی بجائے ان کے افکار سے حقیقی معنوں میں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو وہ ہمیشہ کہاکرتے تھے کہ '' شخصیت پرستی نے اس قوم کو تباہ کردیا ہے ضروری ہے کہ ان بتوں کو توڑا جائے  ''ہیرو ازم'' ختم کیا جائے، صحت مند روایت قائم کی جائے اصل مسئلہ کرسی کے حصول کا بنا ہوا ہے کوئی سیاسی جماعت یا حکومت جسے ایک بار کرسی مل جائے پھر وہ اٹھنے کا نام بھی نہیں لیتی یہی چیز غلط ہے میں چاہتا ہوں کہ نوجوانوں کو آگے لایا جائے ، جماعتیں اداروں کی حثیت اختیار کریں اور وہاں بھی شخصیت پرستی کے رحجانات کو ختم کیا جائے، ہم چاہتے ہیں کہ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اب یہ لوگوں کی اپنی مرضی ہے کہ وہ میری اس بات کو کیا معنی پہناتے ہیں  اس ملک کی فلاح اور ترقی کے لیے ہم ہر صلاح و مشورے کے لیے ہر وقت موجود ہیں، لوگ عموماً ہماری بات کو اپنے معنی پہنا دیتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اس پر ہم سب کو اتفاق ہے مگر کیا وجہ ہے کہ آج تک پاکستان میں اسلام نافذ نہیں ہوسکا ؟ صاف ظاہر ہے کہ اسلام کا نام لینے والوں نے اخلاص کے ساتھ اسے نافذ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ، ادھر دیگرنعروں اورنظریات کے نام پر کیا کچھ ہوتا رہا؟ ہم ان لوگوں کی طرح قوم کو دھوکا دینا نہیں چاہتے ہم انتہا پسند نہیں یہی ہمارا ''لبرل ازم'' ہے ہم انقلابی نہیں ، ارتقائی ہیں ''ہم ریوولیوشن'' نہیں ''ایوولیوشن'' کی سیاست چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ میانہ روی اور اعتدال کی راہ کو اپنایا جائے ،اسلام نے بھی میانہ روی کی تعلیم دی ہے ہم سب اسلام، قرآن، حدیث اور حیات مصطفیٰ سے واقف ہیں مگر ہم نے اپنی زندگیوں پر اسے نافذ کر رکھا ہے ؟ نشستوں اور ٹکٹوں کی خاطر لڑنے والے کیا نظام مصطفیٰ لائیں گے ؟ ہمیں ان سے صرف یہی اختلاف ہے اور جو اب میں وہ ہمیں اشتراکی اور ترقی پسند کہتے ہیں ادھر اشتراکی ہمیں رجعت پسند سمجھتے ہیں ہم صرف انصاف چاہتے ہیں استحصال نہیں، حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ حضرت محمد ۖ کے وصال کے بعد جب صحابی کھانا لائے تو انہوں نے کہا آج ہم نے پہلی بار پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے اللہ اللہ کیا شان تھی سرکار دو عالم کی وہ تھا نظام مصطفیٰ وہ تھا اسلام۔ چٹائیوں پر سونے اور بھوک کاٹنے والے اس عظیم پیغمبر کی بات چھوڑیں ہم اس مرتبے اور مقام پر فائر نہیں ہو سکتے لیکن ایک صحابی کی زندگی تو یقینا اپنا سکتے ہیں ، حضرت عمر  کے نقش قدم پر تو چل سکتے ہیں ہم کم از کم اپنی زندگیوں کو انہی کے مقام پر لے جائیں ، اسوة رسول ۖ پر عمل کرنا تو بہت دور کی بات ہے مگر عملاً ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟، آپ خود ہی اندازہ لگائیں ۔