خیبر پختونخوا ایک بار پھر دہشت گردی کی زد میں

خیبر پختونخوا ایک بار پھر دہشت گردی کی زد میں


عزیز بونیرے

پشاور کے ریڈ زون میں واقع پولیس لائنز مسجد میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں60سے زائد افراد شہید157سے زائد زخمی ہوئے ،پاکستان تحریک انصاف کے سابق دور حکومت میں تحریک طالبان سے مذاکرات کے دوران افغانستان میں ٹی ٹی پی کمانڈر خالد عمرخراسانی کو مارنے کے بعد یہ دھماکے ایک ایسے وقت میں شروع ہوئے جب گذشتہ برس نومبر کے آخر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)نے حکومت کے ساتھ معاہدے کے خاتمے اور ملک بھر میں حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔گزشتہ روز ہونے والاخود کش دھماکہ اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز ظہر ادا کی جارہی تھی، دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کا ایک حصہ شہید ہوگیا۔دھماکے کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے، جنہیں لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا۔ اسپتال لائے جانے والے افراد میں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔یہ دھماکہ پشاور کے ریڈ زون میں ہوا جہاں گورنر ہاوس ،وزیراعلی ہاوس ،سول سیکرٹریٹ ،سمیت اہم سرکاری عمارتیں اور دفاتر موجود ہیں۔دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا ۔

 

ملک سعد شہید پولیس لائنزصوبائی دارالحکومت پشاور کے ریڈ زون میں سول سیکرٹریٹ کے سامنے اور سنٹرل جیل پشاور سے متصل ہے جس میں ضلع پشاور کی پولیس کا ہیڈکوارٹر،سی سی پی او پشاور، ایس ایس پی آپریشنز، ایس ایس پی انوسٹی گیشن، ایس پی سیکورٹی و دیگر افسران کے دفاتر کے ساتھ ساتھ کانٹرٹیررازم ڈپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی)،پولیس ٹیلی کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ اور فرنٹیئر ریزرو پولیس(ایف آرپی)کے ہیڈکوارٹر بھی واقع ہیں۔ملک سعد شہید پولیس لائنز کی جامع مسجد میں پیر کے روز پولیس افسران اور اہلکاروں کے ساتھ پولیس لائنز آنے والے کئی سو افراد نماز ظہر ادا کرنے آئے تھے، اما م مسجد صاحبزادہ نورالامین نے جیسے ہی اللہ اکبر کہا اس کے ساتھ ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا، دھماکہ مسجد کی اگلی صف میں ہوا اور اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی اور مسجد کی چھت منہدم ہوگئی۔

 

پشاور پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ میں چارسدہ، لکی مروت سمیت دوسرے علاقو ں سے تعلق رکھنے والے شہداء کی میتیں ان کے آبائی اضلاع منتقل کردی گئیں، دہشت گردی کے واقعہ میں شہید ہونے والے بعض شہدا کا تعلق چارسدہ، لکی مروت سمیت صوبے کے مختلف اضلاع سے تھا، جنہیں پورے پروٹوکول کیساتھ ان کے آبائی اضلاع منتقل کیا گیا۔

 

پولیس لائنزپشاورمیں خودکش دھماکے کے فورا بعدہیوی مشینری جائے وقوعہ پہنچادی گئی جوملبے تلے زخمی افرادکو نکالنے میں مصروف ہے، دھماکے کے نتیجے میں جامع مسجدکی چھت منہدم ہوگئی اوربیشترنمازی ملبے تلے دب گئے جنہیں ریسکیوکرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں تاہم پختونخواہائی ویزاتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر انجینئر احمد نبی سلطان کی ہدایت پر دھماکے کے فورابعد ہیوی مشینری جائے وقوعہ پہنچادی گئی ہے اورکنکریٹ کو  توڑنے کاعمل جاری ہے اس دوران ریسکیواہلکاروں نے جان کی پرواہ کئے بغیر ملبے تلے جاکر زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی ایم ڈی پی کے ایچ اے نے متعلقہ افسران اوراہلکارون کوہدایت کی ہے کہ وہ جائے وقوعہ سے فوری ملبہ ہٹانے کیلئے کارروائیاں تیز کریں تاکہ قیمتی انسانی جانوں کوبچایاجاسکے۔

 

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر پشاور میں پولیس لائن میں ہونے والے دھماکے کے بعد ہنگامی دورے پر پشاور پہنچے ہیں۔وزیراعظم نے آرمی چیف کے ہمراہ دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت بھی کی۔ایل آر ایچ پہنچنے پر نگراں وزیراعلی اعظم خان، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور انجینئر امیر مقام، آئی جی پی کے پی معظم جاہ انصاری نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور صوبائی حکومت کے دیگر اعلی حکام بھی وزیراعظم کے ہمراہ موجود تھے۔وزیراعظم نے ایل آر ایچ کے مختلف وارڈز کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی۔ وزیراعظم نے ہسپتال انتظامیہ کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

 

شہید ہونے والوں کے نام
دھماکے میں جاں بحق افراد میں  انسپکٹر دوران شاہ، زہیب نواز، مقصود احمد، رشیدہ بی بی زوجہ پشاوری لال، رفیق اللہ، نسیم شاہ کانسٹیبل، لیاقت علی، امجد ڈرائیور، شہریار، لیاقت ، محمد علی، امام مسجد صاحبزادہ ظاہر شاہ، ایس آئی تلاوت شاہ، وسیم شاہ، گل شرف، حیات اللہ خٹک، زبیر، عبدالحمید، عثمان، خالد جان، رفیق خان، انسپکٹر عرفان خان، عبدالودود، لیاقت اللہ شاہ، عاطف، رضوان اللہ، حضرت عمر، نور احمد شاہ، آفتاب، حفیظ اللہ، سی ٹی ڈی کے دو اہلکار اشفاق، کرامت اللہ، ایف سی کے تین اہلکار ذاکر علی خلیل، شہاب اللہ، امجد خان اور دیگر شامل ہیں۔

 

پشاور پولیس لائنز میں خود کش دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے سابق ترجمان بیرسٹر سیف اور فیض حمید کے خلاف مقدمہ  درج کرنے کا مطالبہ کیا کہ اگر دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی بجائے بروقت انکے خلاف کاروائی ہوتی تو آج یہ واقع رونما نہ ہوتا ،لوگوں کا کہنا تھا کہ کس حیثیت سے وہ ملک میں موجود پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔

 

پشاور پولیس میں خود کش دھماکے کے بعد خیبر روڈکو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کیا گیا جس کی وجہ سے پولیس لائنز میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے پولیس اہلکاروں کے رشتہ داروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا ،لیڈی ریڈنگ ہسپتال کیلئے فردوس سے جانے والی سڑک کو بھی صرف ایمبولینسسز کیلئے مختص کرنے سے لوگ پیدل ہسپتال پہنچنے لگے ،لیڈی  ریڈنگ ہسپتال میں بھی افواہیں پھیل گئیں کہ یہاں بھی خود کش حملے کا خطرہ ہے جس کے بعد انتظامیہ نے وہاں سے رش کو ختم کرنے کیلئے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایمرجنسی سائڈ کو خالی کردیں تاکی سیکورٹی کرنے میں آسانی کے ساتھ ساتھ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں دشواری نہ ہوں۔

 

گزشتہ روز پشاور پولیس لائنز میں خود کش دھماکے سے قبل ضلع صوابی میںبھی پولیس ٹیم کو دیکھتے ہی 2 دہشت گردوں نے خود کو گرنیڈ سے اڑا لیا ایک دہشت گرد کو پولیس نے گرفتار کرلیانواحی علاقے ہنڈ میں دو دہشت گردوں نے پولیس ٹیم کو دیکھتے ہی خود کو گرنیڈ سے اڑا لیا، جب کہ ایک کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔پولیس حکام کے مطابق صوابی کے علاقے ہنڈ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات پر سیکیورٹی فورسز کے ہمراہ پولیس نے کارروائی کی۔حکام نے بتایا کہ دہشت گردوں نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کردی، اور دو دہشت گردوں نے خود کو گرنیڈ سے اڑا لیا۔پولیس حکام نے بتایا کہ ایک دہشت گرد کو پولیس نے گرفتار کرلیا، اور اسے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

 

پشاور خود کش دھماکہ کے فوری بعد عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر حاجی غلام احمد بلور اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور بھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرنے کیلئے پہنچ گئے جس کے بعد سوشل میڈیا پر انکی تصاویر وائرل ہوگئیںکہ عوامی نیشنل پارٹی کل بھی دہشت گردی کے خلاف کھڑی رہی اور آج بھی نوے سال سے زائد عمر حاجی غلام بلور اپنوں کے ساتھ اس مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے ہے

سیاسی قیادت کی مذمت
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان نے پشاور پولیس لائنز دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد کے اندر بے گناہ نمازیوں کو شہید کرنیوالے انسان کہلانے کی لائق نہیں۔پولیس لائنز جیسی جگہ تک خودکش حملہ آور کا پہنچنا سیکیورٹی کی ناکامی ہے۔متعلقہ اداروں اور ذمہ داران کو جواب دینا ہوگا کہ بے گناہ افراد کو کس نے اور کیوں شہید کیا؟40سال سے جاری دہشتگردی میں تھوڑا وقفہ آیا لیکن حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دہشتگرد اب پھر پہلے سے زیادہ منظم ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اے این پی جب چیخ رہی تھی تو کچھ نام نہاد محب وطن ہم پر افواہیں پھیلانے کے الزامات لگارہے تھے۔آج ان محب وطنوں سے پوچھتے ہیں کہ 30 سے زائد بے گناہ مسلمانوں کی شہادت کا ذمہ دار کون ہے؟گڈ، بیڈ، اپنا پرایا دہشتگرد کے امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہوگا، ونس فار آل اس ناسور کو ختم کرنا ہوگا۔ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور عوام کو جواب دینا ہوگا کہ یہ سب کچھ کون کررہا ہے۔ اے این پی کے سربراہ نے کہا کہ جب نیشنل ایکشن پلان بنا تو اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ ذمہ داران کون ہیں؟ انہیں کیا سزا ملی؟ جب تک 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہوگا، پورے ملک میں یہ آگ جلتی رہے گی۔یہ آگ اب شاید لگ چکی ہے لیکن پورا ملک جان لے، دریائے سندھ اب اس آگ کو نہیں روک سکتی۔ اسفندیارولی خان نے کہا کہ آج کے حالات کے ذمہ دار اور سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے عوام کے سامنے لانا ہوگا۔پختونخوا پولیس ہمارا فخر ہے، شہداء کے بلند درجات اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعاگو ہیں


پشاور خود کش حملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کیخلاف جنگ کرنے والوں کوصفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔


عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پشاور پولیس لائنز میں مسجد کے اندر خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریڈ زون کے اندر اس قسم کا واقعہ سیکیورٹی صورتحال پر سوالیہ نشان ہے۔ پشاور پولیس لائنز کی مسجد کے اندر دھماکہ ان خدشات کو درست ثابت کررہا ہے جو ہم گذشتہ تین سالوں سے کہہ رہے ہیں اور چیخ چیخ کر تھک گئے ہیں کہ دہشتگرد منظم ہورہے ہیں۔ بظاہر ایک محفوظ مقام تک حملہ آور کا پہنچنا اور نہتے نمازیوں کو نشانہ بنانا انتہائی درجے کی غفلت ہے۔ دہشتگردوں کے لئے پختونخوا پولیس سافٹ ٹارگٹ بن گئے ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے متواتر پختونخوا پولیس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اتنے حساس علاقے میں مسجد کے اندر خودکش حملہ افسوسناک ہے۔ اس قسم کے واقعات میں ملوث عناصر انسان کہلانے کے لائق نہیں۔ دہشتگردوں کے حمایتی بتائیں کہ مسجد کے اندر نمازیوں کو نشانہ بنانا کہاں کی انسانیت ہے؟ ایمل ولی خان کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے پختونخوا کو دوبارہ دہشتگردوں کے حوالے کیا ہے۔ہم یہ بھی مطالبہ کریں گے کہ عوام کے سامنے وہ لوگ   لائے جائیں کہ کس طرح اور کس کی سہولت کاری کے نتیجے میں ایک حساس مقام تک حملہ آور پہنچ گیا۔ آج کے دھماکے کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو گذشتہ دس سال سے دہشتگردوں کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں اور انہیں "ری سیٹل" کرنے کی بات کررہے تھے۔ چند لوگوں نے اپنی سیاست کیلئے پختونخوا کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ہوش کے ناخن لے اور بدامنی کو روکے۔ امن کیلئے گڈ اور بیڈ کی تفریق کئے بغیر نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی دھماکے کے شہدا کے اہل خانہ کے دکھ میں شریک اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا گو ہے۔


سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ میری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کیساتھ ہیں۔ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کیلئے لازم ہے کہ ہم اپنی انٹیلی جنس میں بہتری لائیں اور اپنی پولیس کو مناسب انداز میں ضروری سازوسامان سے لیس کریں واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں سارھے نو سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی جس میں صوبائی حکومت جدید آلات اور سیکورٹی اشیا فراہم کرنے میں ناکام رہی اس سے قبل بھی آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا پولیس طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے کیونکہ دہشتگردوں پاس امریکہ کا اسلحہ اور پولیس کے پاس اتنا جدید اسلحہ نہیں ہے کہ وہ انکا مقابلہ کرسکیں۔


لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر سی)کے ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ علاقے کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے اور صرف ایمبولینس اور امدادی کاموں میں مصروف اہلکاروں کو علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ہسپتال میں زخمیوں کو تمام طبی امداد دی جارہی ہے ابتدائی طور پر ایل آر ایچ میں 60 زخمیوں کو لایا گیا جس کے بعد پولیس لائنز میں ملبہ ہٹانے کے بعدمزید زخمیوں کو نکال کرہسپتال منتقل کردیا گیا جس سے زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔


کیپٹل سٹی پولیس افسر(سی سی پی او)پشاور محمد اعجاز خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے بعد مسجد کی چھت منہدم ہوگئی، متعدد جوان اب بھی ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں اور امدادی کاموں میں مصروف ورکرز انہیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دھماکے کی نوعیت سے متعلق ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، بارود کی بو آرہی ہے، تحقیقات جاری ہیں، جائزہ لینے کے بعد وجہ کی تصدیق ہوسکے گی۔اعجاز خان نے کہا کہ دھماکے کے وقت وہاں 300 سے 400 کے درمیان پولیس اہلکار موجود تھے، سی سی پی او نے کہا کہ بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ کہیں سیکورٹی میں کوتاہی ہوئی ہے۔


پشاور پولیس لائنز میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد شہر بھر میںایمرجنسی نافذ کردی گئی ،ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان نے او نیگٹو بلڈ گروپ کے حامل لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت او نیگٹو خون کی اشد ضرور ت ہے لوگ فوری طور پر خون کے عطیات دینے کیلئے پہنچ جائیں۔


تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کی جانب سے جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا اور بالخصوص جنوبی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ طویل خاموشی کے بعد ایک بار پھر سے ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے امن کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔گزشتہ سال صرف دسمبر کی بات کی جائے تو قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آئے جن میں سکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت کئی شہری شہید ہوئے۔ 2022میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تشویشناک اضافہ نظر آیا، کانٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 2022میں مختلف نوعیت کے 220 حملے کیے گئے جن میں پولیس نشانہ بنی، ان حملوں میں 120پولیس کے جوان شہید، جبکہ 125زخمی ہوئے تھے ۔