مازے تنگ کا لانگ مارچ اور ہمارا ڈانس مارچ

مازے تنگ کا لانگ مارچ اور ہمارا ڈانس مارچ

تحریر: عامر گمریانی
لانگ مارچ کی یہ اصطلاح جس نے بھی پاکستانی سیاست میں متعارف کرائی ہے، بڑا ظلم کیا ہے۔ تازہ ترین لانگ مارچ مورخہ 25 مئی کو شروع اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سامان عبرت بن کر اختتام پذیر ہوا۔ کپتان بنی گالا اور وہاں سے پشاور کو چل دیے، دیگر لیڈران محترمان نے اپنے اپنے قلعوں کا رخ کیا اور سادہ لوح اور نکمے پختون اسلام آباد کی سڑکوں پر بھوک اور پیاس کے مارے رل بھی گئے اور چس بھی نہیں آئی۔ چوبیس گھنٹے سے کم لانگ مارچ کا بوریا بستر لپیٹتے ہوئے کپتان چھ دن بعد پھر سے لانگ مارچ کا اعلان کرنا نہیں بھولے۔ تاریخ میں لانگ مارچ کی اصطلاح چیئرمین ماؤ کے ساتھ منسلک ہے۔ ذرا سے مذہبی ٹچ کی بنا پر اپنے کپتان کو امت مسلمہ کا لیڈر مانے بیٹھے ہمارے ننانوے فیصد یوتھ نے ماوزے تنگ کا نام تک نہیں سنا ہو گا۔ احمد فراز یاد آئے۔ ان کی نظم کا ایک شعر ہے۔
وہ ماؤ ہو کہ لوممبا وہ سکارنو ہو کہ فیض
سبھی کے لوح و قلم عظمت بشر کے نقیب
1934 میں چین میں کمیونسٹوں اور نیشنلسٹوں کے بیچ خانہ جنگی شروع ہوئی تو چیئرمین ماؤ کمیونسٹوں کی قیادت کر رہے تھے۔ اکتوبر1934  میں ماؤ نے چین کے جنوب مغرب میں قوم پرستوں کے حصار میں سے تاریخ کے طویل ترین مارچ کا آغاز کیا۔ یہ سفر ایک سال تک جاری رہا جس میں ماؤ نے لگ بھگ ایک لاکھ لوگوں کے ساتھ چار ہزار میل سے زائد یعنی لگ بھگ سات ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ کچھ کے بقول یہ فاصلہ چھ ہزار میل سے زائد یعنی دس ہزار کلومیٹر تھا۔ اسی لانگ مارچ نے ماؤ کو تمام چینیوں کا متفقہ لیڈر بنایا۔ قصہ طویل ہے اور قارئین کے پاس پڑھنے کے لئے وقت کہاں؟ مختصر یہ کہ1927  میں چین میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ ماؤ1931  میں نئی نویلی سوویت ریپبلک آف چائنہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ چینی قوم پرستوں نے چیانگ کائی شیک کی قیادت میں چین کے سوویت ریپبلک کا محاصرہ شروع کیا۔ چیئرمین ماؤ نے کمیونسٹوں کی قیادت کرتے ہوئے پہلے چار حملے پسپا کیے لیکن پانچویں حملے میں قوم پرست بڑی طاقت کے ساتھ آئے اور کمیونسٹوں کے چاروں طرف قلعہ بندی شروع کی۔ چیئرمین ماؤ سبکدوش کر دیے گئے اور نئے کمیونسٹ لیڈر نے روایتی طریقوں سے جنگ لڑنی شروع کی۔ جلد ہی قوم پرستوں نے کمیونسٹوں کی سرخ فوج کو تباہ کر دیا۔ دیوار پر لکھی شکست دیکھ کر کمیونسٹوں نے ماؤ کی قیادت میں کمزور مقامات سے قوم پرستوں کا محاصرہ توڑ کر نکلنے کی ٹھانی۔16  اکتوبر1934  کو لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ یہ کام اتنی مہارت اور رازداری سے کیا گیا کہ جب قوم پرستوں کو اس کی بھنک پڑی تو ہفتے گزر چکے تھے اور کمیونسٹوں کی سرخ فوج کا مرکزی حصہ محاصرہ توڑ کر نکل چکا تھا۔ اس طے شدہ پسپائی میں ابتدائی طور پر ایک لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ لوگ جنگی ہتھیار اور دیگر ساز و سامان اپنے کاندھوں اور خچروں پر اٹھائے کچھ اس طرح آگے بڑھتے جا رہے تھے کہ میلوں پر محیط قطاریں بن گئیں۔ ماؤ کی قیادت میں یہ لانگ مارچ عموماً رات کو چل پڑتا۔ اپنے ہاتھوں میں مشعلیں لئے یہ لوگ فاصلوں سے نمٹتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن تھے۔ اس ثابت قدمی اور اولوالعزمی کے بدلے ماؤ کو ان کے لوگوں کا پیار اور بھروسہ ملا اور چار مہینے کے اندر اندر ماؤ کو چینی اپنا لیڈر تسلیم کر چکے۔ ماؤ نے دشمن کو تذبذب میں ڈالنے کے لئے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ اب انہوں نے اپنے لوگوں کو مختلف دستوں میں تقسیم کر دیا اور انہیں مختلف راستوں پر ڈال کر لانگ مارچ جاری رکھی۔ ماؤ کی منزل اب چین کے شمال مغرب میں واقع شانکشی صوبہ تھا۔ شانکشی میں ماؤ جاپانی حملہ آوروں کے ساتھ لڑنا چاہتا تھا تاکہ اسے چین کے طول و عرض میں احترام اور قبولیت ملے۔ یہ لانگ مارچ ایک سال اور چار دن تک بھوک، فضائی حملوں اور روزانہ کی بنیاد پر جھڑپوں سے ہوتا ہوا بالآخر بیس اکتوبر1935  کو سرخ فوج کے پاس پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ اس طویل اور صبر آزما مارچ کا اختتام ہوا تو لگ بھگ ایک لاکھ لوگوں میں سے آٹھ ہزار لوگ بچ گئے تھے۔ ماؤ نے چار ہزار میل سے زائد اس سفر میں اپنے ساتھیوں سمیت چوبیس دریا عبور اور اٹھارہ پہاڑی سلسلے سر کیے۔ اس دوران ماؤ نے اپنا کھانا خود بنایا، اپنے کپڑے خود دھوئے، اپنا بوجھ خود اٹھایا اور اپنے گیت خود گائے۔ چھ دن بعد یا پھر کبھی پاکستان میں کوئی بڑبولا لیڈر اٹھ کر آپ کو لانگ مارچ کا کہے تو اسے چیئرمین ماؤ کا حوالہ اور خدا کا واسطہ دے کر گزارش کریں کہ کوئی اور اصطلاح استعمال کرے۔ پشاور سے مردان تک اپنے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے پاس سڑک کے بجائے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جانے والے کیا جانیں کہ مزاحمت کس چڑیا کا نام ہے اور لانگ مارچ ہوتی کیا ہے؟ بہتر ہے اسے ڈانس مارچ کہا جائے۔