
وسائل زیادہ مسائل کم مگرپھر بھی
روخان یوسف زئی
یہ جو کہانیاں،حکایتیں،محاورے، ضرب المثال اور لطائف ہوتے ہیں تو یہ کسی خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح نہیں اُگتی ہیں۔بلکہ انسانی تاریخ کے ہر مختلف ادوار میں زندگی کے تلخ و شیرین تجربات اور مشاہدات پر مبنی انسانوں پر بیتی ہوئی کہانیاں ہوتی ہیں۔میں جو کہانی آپ کے گوش گزار کروانا چاہتا ہوں تو اسے بھی کوئی لطیفہ یا دیومالائی داستان کی نظر سے نہیں پڑھنا اور سمجھنا چاہیئے بلکہ اس میں ہمارے لیے بہت سی ایسی باتیں اور اشارے موجود ہیں جس پر ہمیں سنجیدگی کیساتھ غور وفکر کی ضرورت ہے کہتے ہیں کہ کسی ملک کا ایک وزیر بہت ہی شاطر،چلباز، اور شیطان صفت تھا لوگوں کو بلاوجہ ایذا رسانی اور پریشان کرنے کے مواقع تلاش کیا کرتا تھا، اس ملک کی رعایا اپنی معاشی و معاشرتی ضرورتوں کی وجہ سے ایک دریا بکثرت عبور کیا کرتے تھے وزیر با تدبیر نے دیکھا کہ اس پُل پر سے عوام الناس کا بکثرت آنا جانا رہتا ہے، تو اس کے شیطانی دماغ میں لوگوں کو مزید پریشان اور تنگ کرنے کا ایک انوکھا منصوبہ آیا، اس نے بادشاہ کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ہم لوگوں سے اس پُل پر سے گزرنے کا محصول لیا کریں؟بادشاہ حضور نے فوراً اجازت دے دی اور لوگوں پر اس پُل سے گزرنے کی چونگی یا محصول نافذ کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔
پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے ہوئے معاشی و سماجی مسائل بڑھتے جارہے ہیں قدرت کی تمام تر فیاضیوں ہر قسم نعمتوں اور قدرتی وسائل کے باوجود یہاں کے بدعنوان سیاستدانوں،کرپٹ حکمرانوں، سول فوجی افسرشاہی، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ نے مل کر اسے مسائلستان بنا رکھا ہوا ہے
لوگوں نے بلا چُوں چرا محصول دینا شروع کر دیا، وزیر باتدبیر کو یہ چلن برُا لگا کہ اس سے تو کوئی معاشرتی بگاڑ ہی پیدا نہیں ہوتا اور سب کچھ بڑے سکون سے چل رہا ہے تو اس نے محصول بڑھانے کی تجویز دی جو منظور ہو گئی، لوگوں نے اس بار بھی کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا اور خاموشی سے محصول ادا کرتے رہے۔ اس بار وزیر نے زیادہ سبکی محسوس کی اور بادشاہ سے کہا کہ کیوں نہ لوگوں سے محصول وصولی کے بعد دو دو جوتے بھی مارے جائیں اس طرح ان کے دماغ قابو میں رہیں گے، بادشاہ نے اس کی بھی اجازت دے دی، لہذا ہر بندے سے چونگی وصولی کے بعد دو دو جوتے بھی مارے جانے لگے، وزیر اس بار حیرت سے مرتے مرتے بچا کہ لوگوں نے اس بار بھی کسی منفی ردعمل کی بجائے متعلقہ وزیر سے یہ درخواست کی کہ جناب والا جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے تاکہ ان کا قیمتی اور مصروف وقت بچ سکے۔ ملک خداداد،اسلام کا قلعہ ایشن ٹائیگرپاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے ہوئے معاشی و سماجی مسائل کا قصہ بھی اس کہانی سے بالکل ملتا جلتا ہے۔ قدرت کی تمام تر فیاضیوں ہر قسم نعمتوں اور قدرتی وسائل کے باوجود یہاں کے بدعنوان سیاستدانوں،کرپٹ حکمرانوں، سول فوجی افسرشاہی، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ نے مل کر اسے مسائلستان بنا رکھا ہوا ہے۔لہذا باقی تمام مسائل کیساتھ نمٹنے سے پہلے اول غربت کی اس موجودہ عفریت سے چھٹکارا پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سنجیدہ عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
قی تمام مسائل کیساتھ نمٹنے سے پہلے اول غربت کی اس موجودہ عفریت سے چھٹکارا پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سنجیدہ عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے
ویسے تو یہ ایک کھلی کتاب ہے کہ ملک خداداد کے سیاسی،تہذیبی اور سماجی مسائل کی فہرست اتنی لمبی چوڑی ہے کہ اس میں شامل ہر مسئلہ پوری کتاب کا متقاضی ہے مگر ہم یہاں چند بنیادی اور فوری توجہ طلب مسائل پر اکتفا کرتے ہیں۔ جن کا فوری حل ہوجانا ملک و قوم کے لئے بہت ہی سودمند ثابت ہو سکتا ہے ان چند بنیادی مسائل میں سے سب سے پہلے بنیادی مسئلہ گزشتہ 75سال سے غربت کی عفریت سے گلوخلاصی کا ہے۔اس وقت پاکستان میں دیگر بے شمار سلگتے ہوئے مسائل کے ساتھ ساتھ غربت نے انتہائی خطرناک اور جان لیوا شکل اختیار کر رکھی ہے۔ تقریباً تیس فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غربت کے ساتھ ساتھ عدم مساوات،ناانصافی،لاقانونیت،بدامنی،شدت پسندی،دہشت گردی،ٹارگٹ کلنک، قدرتی آفات، بیروزگاری، نیم سرمایہ دارانہ نظام، نامناسب حکومتی نظام، تباہ حال صنعتیں اور ناخواندگی بھی غربت بڑھانے کے اسباب میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی، ناقص تعلیم و صحت کا نظام، غیر ملکی قرضہ، افراط زر، نا انصافی، منشیات اور بدعنوانی بھی پاکستان کے سلگتے معاشرتی سماجی مسائل میں شامل ہیں۔
اگر موجودہ حکومت خلوص نیت کے ساتھ ملک کی حالت سدھارنا چاہتی ہے اور عام آدمی کو غربت کے شکنجے سے چھڑانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرے اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنا کر سرمایہ کاری کے فروغ کی راہیں کھولی جائیں
اگر موجودہ حکومت خلوص نیت کے ساتھ ملک کی حالت سدھارنا چاہتی ہے اور عام آدمی کو غربت کے شکنجے سے چھڑانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرے اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنا کر سرمایہ کاری کے فروغ کی راہیں کھولی جائیں، سرمایہ کاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دے کر سرمایہ کاری پر آمادہ کیا جانا چاہیے۔ صنعتی و زراعتی نظام میں انقلابی بہتری لائی جائے تاکہ مقامی طور پر لوگوں کے حالات میں بہتری لائی جا سکے۔ محصولات میں نرمی کی جانی چاہیے۔ تعلیم پر خاص توجہ اور اخراجات کیے جانے چاہئیں تاکہ ناخواندگی مٹا کر تعلیم یافتہ اور ہنرمند معاشرے کی تعمیر کی جا سکے۔ قانون و انصاف سب کے لئے یکساں اور آسانی سے موجود ہونا چاہیے۔
دہشت گردی، ناقص تعلیم و صحت کا نظام، غیر ملکی قرضہ، افراط زر، نا انصافی، منشیات اور بدعنوانی بھی پاکستان کے سلگتے معاشرتی سماجی مسائل ہیں
ناخواندگی پر قابو پانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، جس کے لئے مزید تعلیمی ادارے قائم کیے جانے چاہئیں، موجودہ تعلیمی اداروں کی بہتری کے لئے اقدامات کیے جانے چاہیں، غیر مساوی تعلیمی نظام کا خاتمہ کر کے یکساں نظام تعلیم و نصاب متعارف کرایا جانا چاہیے۔ علاقائی تفاوت کو مساوی معیار میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ ثانوی جماعتوں سے ہی ہنر مندی کی تعلیم کے رجحان کو نہ صرف فروغ دیا جانا چاہیے بلکہ فراہم بھی کی جانی چاہیے۔ ہنر مندی کی تعلیم (Technical Education) پر خاص توجہ دی جانے کی ضرورت ہے، تعلیم کے فروغ کے لئے اضافی فنڈز مہیا کیے جانے چاہئیں۔ اعلی تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ اساتذہ کا بھرتی کیا جانا بھی اشد ضروری ہے۔فی الوقت ملک کی ترقی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ انتہاپسندی،شدت پسندی اور دہشت گردی بھی ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے باعث ہر کوئی عدم تحفظ کا شکار ہے۔اور امن ومان کی صورت حال روز بروز بگڑتی جارہی ہے اور ایک خوف ناک اور تشویش ناک حالت بنتی جارہی ہے۔لہذا ایسی صورت حال میں ملک کا تجارت پیشہ،سرمایہ کار اور صنعت کار طبقہ کیسے اپنے کاروبار اور سرمایہ کاری کرسکتا ہے؟ اسی بدامنی اور عدم تحفظ کی وجہ سے ملک کو معاشی طور پرہر قسم کاروباری و ترقیاتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے، مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مالی نقصانات اور ساکھ کی خرابی اس میں سر فہرست ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادی وجوہات میں بیرونی ریشہ دوانیاں، ملک میں سیاسی عدم استحکام، مالی بدحالی و غربت ہے، عام آدمی کا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنا اور بنیادی سہولتوں سے محرومی بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونی پن بھی دہشت گردی کو ملک میں فروغ دینے کی ایک بڑی وجہ ہے، جس کا تدارک نہایت ضروری ہے۔
غربت کے ساتھ ساتھ عدم مساوات،ناانصافی،لاقانونیت،بدامنی،شدت پسندی،دہشت گردی،ٹارگٹ کلنک، قدرتی آفات، بیروزگاری، نیم سرمایہ دارانہ نظام، نامناسب حکومتی نظام، تباہ حال صنعتیں اور ناخواندگی بھی غربت بڑھانے کے اسباب میں شامل ہیں
لہذا شدت پسندی اور دہشت گردی کی اس تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اس میں ملوث لوگوں کی اخلاقی تربیت جدید خطوط پر کی جائے، اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے خلاف ملٹری آپریشن جاری رہنا چاہیے، ساتھ ساتھ ان لوگوں کو تعلیم کا دیا جانا، انصاف مہیا ہونا اور سیاسی استحکام بھی دہشت گردی سے نجات میں نہایت سودمند ثابت ہوسکتے ہیں۔پھر بھی اگر یہ جتھے نہیں سدھرتے تو پھرریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ان بے لگام گھوڑوں کے خلاف ایسے سخت اور سبق آموزاقدامات اٹھانے چاہیئں کہ آئندہ کوئی دوسرا شدت پسندی اور دہشت گردی کا نام بھی نہ لے سکے۔
چند بنیادی مسائل میں سے سب سے پہلے بنیادی مسئلہ گزشتہ 75سال سے غربت کی عفریت سے گلوخلاصی کا ہے۔اس وقت پاکستان میں دیگر بے شمار سلگتے ہوئے مسائل کے ساتھ ساتھ غربت نے انتہائی خطرناک اور جان لیوا شکل اختیار کر رکھی ہے۔ تقریباً تیس فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
ملک کو اس وقت جو دیگر چند بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں بدعنوانی سر فہرست نظر آتی ہے۔ موجود معلومات کی روشنی میں بڑی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ چند ادارے اس میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، اگر ان کا قبلہ سیدھا کیا جائے تو ملکی حالات یکسر بدل سکتے ہیں جیسے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے داروں میں تربیت اور اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ قانون اور عدالتی نظام میں بہتری لائے جانے کی زبردست گنجائش موجود ہے۔ اس کے علاوہ بجلی و ایندھن کی فراہمی کے ادارے، ٹیکس جمع کرنے والے ادارے، کسٹمز، تعلیم و صحت سے متعلق ادارے، زمین و جائیداد کا انتظام و انصرام کرنے والے ادارے، ان سب اداروں میں نہایت ہی اعلی درجہ کی اخلاقی و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزائیں بھی دی جانے کی شدید ضرورت ہے جو یقیناً ملک میں بدعنوانی کو کم کرنے اور حالات کو ملک کے موافقت میں لانے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہے، جو اداروں کو قانونی اور آئینی طاقت فراہم کرنے کا سبب ہو سکتی ہے جن کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے حکومتی سطح پر شفاف احتساب کے ذریعے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔بشرطیکہ حکومت اور ریاست ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو۔ورنہ یہ چھپے ہوئے مسائل کے بم کسی بھی وقت پھٹ کر ریاست کے ایوانوں اور طبقہ اشرافیہ کے محلات کو ہلا اور جلا کر بھسم کرسکتا ہے۔