
قوم پرستی کی راہ میں رکاوٹیں
شمیم شاہد
ویسے تو یہ بات ابھی تک زیر بحث ہے کہ در اصل سرمایہ داری نظام کے ترویج میں قوم پرست، کمیونسٹ یا مذہبی حلقے ان تینوں میں سے کون کس حد تک ذمہ دارہیں اور ہیں بھی یا نہیں مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ نہ تو کمیونسٹ ممالک میں جمہوریت ہے اور نہ اسلامی ممالک میں، چند روز قبل پشاور پریس کلب میں دو معزز مترقی پسند حلقہ فکر سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کے ساتھ معمول کے مطابق بحث و مباحثے کے دوران ان دونوں کا موقف سامنے آیا ان دونوں کا موقف تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ہنماوں کا رویہ مترقی پسندوں کے بارے میں جو اپنے آپ کو کمیونسٹ یا سوشلسٹ کہتے ہیں کے بارے میں معقول نہیں ہے اور اسی وجہ سے پختون قوم بکھر گئی ہے اور یہ متحد نہیں ہورہی ہے ۔ بہرحال دونوں معزز دوست کسی وقت میں عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر ممبران پارلیمان بھی منتخب ہوئے تھے ۔ گو کہ اس مختصر بات چیت کے دوران کوشش کی گئی کہ انکا یہ موقف دلائل کے ساتھ مسترد کیا جائے مگر انکی مصروفیات کے باعث بحث و مباحثہ بغیر کسی نتیجہ پرختم ہوا ۔ اس دوران صوابی سے ہمارے ایک محترم بھی عرصہ دراز سے عوامی نیشنل پارٹی یا ولی باغ کی سیاست پر ہر وقت معترض رہتے ہیں ۔ ویسے تو سب کچھ تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ انیسویں صدی میں پختون قوم پرست سیاسی جدوجہد میں غازی امان اللہ خان، شہید سردار محمد داد خان، فخر افغان باچا خان اور شہید ڈاکٹر نجیب اللہ چار ایسی شخصیات تھیں جن کو حقیقی معنوں میں قوم پرست، روشن خیال،مترقی ، اصلاح پسند اور قابل قبول سیاسی رہنما سمجھاجاتا ہے۔ ان چار سیاسی رہنماوں نے پختونوں کو جنگ و جدل کی سیاست سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر ان چاروں سیاسی رہنماوں کی ان کاوشوں کو ناکام بنانے میں اگر ایک طرف استعماری یا سامراجی قوتوں کے جاسوس اداروں نے بڑا کردار ادا کیا ہے تو نام نہاد مترقی حلقے جو اپنے آپ کو مترقی کمیونسٹ یا سوشلسٹ کہتے رہتے ہیں کچھ کم نہیں بالکل اسی قسم کا کردار انتہا پسندمذہبی حلقوںنے بھی بخوبی نبھا یا ہے اور ابھی تک نبھا رہے ہیں۔ غازی امان اللہ خان کے خلاف برطانوی سامراج کے جاسوسی نٹ ورک کے سربراہ ڈیوڈ جانز تھے جنکو بغدادی پیر کے نام سے یاد کیا جاتا تھاان کے اس نیٹ ورک سے افغانستان اور موجودہ خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں غازی امان اللہ خان کے انقلابی اصلاحات کے خلاف پروپیگنڈا پر بھاری سرمایہ کاری کی گئی تھی اور اسی نیٹ ورک سے سینکڑوں ملاوں، نام نہاد دانشوروں اور اپنے آپ کو مترقی کہلوانے والوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ تنخواہیں یا دیگر مالی تعاون فراہم کیا جاتا تھا، بالکل اسی دور میں فخر افغان باچا خان نے برطانوی حکمرانوں سے آزادی کے حصول کے لئے تحریک افاغنہ اور خدائی خدمتگار تحریک شروع کی تھی اس دور سے لیکر اب تک اس قوم پرست تحریک کا مختصر عرصے تک حصہ بننے اور بعد میں علیحدہ ہونے والی تمام شخصیات کی عزت و احترام اپنی جگہ مگر انکی سیاسی حیثیت یا نظریات سے اختلاف ہر ایک کا بنیادی حق ہے ۔ غازی امان اللہ خان کی طرح باچاخان بھی ہندوستان بھر میں سیاسی تعلیمی سماجی اور معاشی اصلاحات کا پرچار کرتے تھے اس دوران زمینداران کے نام پر ایک تنظیم قائم کی گئی تھی جو بعد میں سھباش چندر بوش کی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنی تھی ۔ اسی وقت باچاخان خان پشتون رسالہ بھی چھپواتا تھا اور انہی تحاریک سے منسلک ایک رہنما نے در اصل پشتون رسالے کے خلاف چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور کسان اسلم کے نام پر اسلم رسالہ شائع کرنا شروع کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پچاس اور ساٹھ کے دہائیوں کے دوران باچا خان انکی خدائی خدمتگار تحریک سے منسلک افراد اور خاندان کو بہت زیادہ مشکلات اور تکالیف اٹھانا پڑیں تھیں ۔ اس دوران مزدوروں اور کسانوں کے نام پر نام نہاد مترقی پسنداور روشن خیالوں نے ایک جماعت تشکیل دی تھی جو بعد میں صرف چارسدہ تک محدود ہوکر تین حصوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تھی اور اب صرف ایک دھڑا سیاسی میدان میں ایک سابق وزیر اعلی کے رحم و کرم پر رینگتی رہتی ہے ۔ اسی طرح یہ اپنے آپکو مترقی اور کمیونسٹ کہلوانے والے وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی قبلوں کی تبدیلی کے لئے بھی مشہور ہے ۔ ماضی قریب اور حال میں یہ نہ صرف باچا خان کے خدائی خدمتگار تحریک اور پیپلز پارٹی میں شامل رہے تھے بلکہ یہ افراد مرحوم خان عبدالولی خان کی کالعدم نیشنل عوامی پارٹی، بیگم نسیم ولی خان کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور مرحوم خان عبدالولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ بھی رہے تھے اور انکو قد کاٹ کے مطابق بہت عزت و احترام بھی دیا گیا تھا ۔ اہم عہدے بھی دئے گئے تھے۔ پارلیمانی نشستوں پر بھی منتخب کرکے پختونوں کے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے مواقع بھی فراہم کئے گئے تھے۔ مگر اسکے باوجود باچا خان اور مرحوم خان عبدالولی خان کی سیاسی تحاریک کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی میں آنے جانے کے علاوہ نیشنل پروگریسیو پارٹی ۔ نیشنل پارٹی۔ قومی انقلابی پارٹی۔ پختونخوا قومی پارٹی۔ نیشنل عوامی پارٹی پاکستان۔ پشتون تحفظ تحریک اور اب نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ سمیت ایک درجن کے لگ بھگ پارٹیوں اور گروہوں کو قائم کرکے در اصل ان نام نہاد کمیونسٹوں نے پختونوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر اکتوبر 1978 کے انقلاب ثور میں سردار محمد داد خان کو خاندان کے اہم افراد سمیت قتل کرنے پر انہی نام نہاد انقلابیوں نے خوشیاں منائی تھیں۔ نور محمد ترکئی سابقہ سوویت یونین کے متحد کردہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کا تعلق خلق دھڑے سے تھا جبکہ شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کا تعلق پرچم پارٹی سے تھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے غازی امان اللہ خان اور باچا خان کی طرح نومبر 1987 میں قومی مصالحتی پالیسی کا اعلان کرکے نہ صرف افغانستان سے سوویت یونین کے افواج کی واپسی کی راہ ہموار کی تھی بلکہ انکے اس اقدام کا مقصد افغانستان میں قیام امن اور صلح بھی تھا ۔ مرحوم خان عبدالولی خان اور انکی عوامی نیشنل پارٹی نے شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کے اس اقدام کی مکمل حمایت کی تھی ۔ جبکہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے قومی مصالحتی پالیسی کے اعلان کے تیسرے چوتھے روز اپنے آپ کو مترقی یا کمیونسٹ کہلوانے والوں نے کابل کے ایک ہوٹل میں ایک نشست میں عوامی نیشنل پارٹی کے پیٹھ میں چھڑا گونپنے کے لئے ایک ترقی پسند جماعت بنانے کا اعلان کر دیا تھا جسے بعد میں 1989 میں اس وقت عملی شکل دی گئی جب عوامی نیشنل پارٹی نے باقاعدہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کی ۔ یہ علیحدگی مکمل طور پر 1988 کے انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں کے مابین ہونے والے عہد و پیمان کے ایفا نہ کرنے پرہھوئی تھی ۔ مگر محترم ترقی پسندوں نے اس علیحدگی کو چمک اور مسلم لیگ ن کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے اتحاد کے رد عمل میں بنانے کا دعوی کیا تھا ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انہی حلقوں کے ایک محترم بعد میں پاکستان مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے تھے ۔ مختصر یہ کہ اب بھی یہی عناصر اپنے مکروہ مقاصد کو چھپانے کے لئے عوامی نیشنل پارٹی کے موجودہ قائدین پر اس طرح کے الزامات لگاتے رہتے ہیں جس طرح انجمن زمینداران۔ سبھاس چندر بوش کی بھارتیہ سماج۔ مزدور کسان ۔ نیشنل پروگریسیو۔نیشنل پارٹی۔ قومی انقلابی پارٹی۔ پختونخوا قومی پارٹی اور نیپ پاکستان والے مرحوم باچا خان۔ مرحوم خان عبدالولی خان۔ مرحومہ بیگم نسیم ولی خان اور اسفندیار ولی خان پر لگاتے تھے ۔ فی الوقت امیر حیدر خان ہوتی اور ایمل ولی خان جیسے دو نوجوانوں کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی ایک بار پھر غیروں کی آنکھوں کا کانٹا بنی ہوئی ہے اسی وجہ سے دائیں اور بائیں بازووں سے منسلک ذرائع ابلاغ اور نام نہاد دانشور طبقہ انکے خلاف منظم پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اب پختونوں بالخصوص نوجوانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے آپکو اس منظم پروپیگنڈہ کا شکارہونے سے بروقت بچا لے ۔