''قدیم چرچ''  ایک جائزہ 

''قدیم چرچ''  ایک جائزہ 

    فاکہہ قمر

انسانی جبلت میں جہاں خوشی و راحت کا عنصر شامل ہے وہیں ڈر اور خوف کا عنصر بھی انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چھوٹی عمر میں بچوں کو مختلف چیزوں کا ڈراوا دے کر ان کے اندر ڈر بٹھا دیا جاتا ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہتا ہے۔ میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے۔ عرفان رامے کے سنسنی خیز ناول پڑھنے کے بعد میں نے توبہ کر لی تھی اب کوئی خوف پر مبنی لٹریچر نہیں پڑھنا، لکھنا تو بہت دور کی بات ہے اُن کی طرف نگاہ بھی نہیں کرنی ہے۔ ایک پیاری سی نو عمر لڑکی ''فلک زاہد'' جو بے پناہ حسین جذبوں اورخوبصورت سوچ کی مالک ہے، ان سے میرا غائبانہ تعارف تھا۔ انہوںنے مجھے اپنی کتاب  ''قدیم چرچ'' بطور تحفہ بھیجی ۔ ان کے خلوص کے پیش نظر میں نے کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ معصوم سی لڑکی تو ہارر رائٹر کے طور پر ادبی حلقوں میں خاصی مقبولیت رکھتی ہے۔ 

 

کتاب کا مطالعہ شروع ہوچکا تھا اور بیچ راستے سے چھوڑ کر بھاگنا اپنی عادت ہی نہیں ہے، ایسے میں مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ''جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو'' پڑھ کر خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ کتاب کا نام "قدیم چرچ"ہے لیکن یہ زیادہ خوف نہیں پیدا کرتا۔ سرورق کا بغور جائزہ لینے کے بعد نام پڑھنے پر ڈر محسوس ہوتا ہے کہ خدا جانے یہ کون سا اور کیسا قدیم چرچ ہے اور اس میں کیا کچھ ہے؟

 

فلک زاہد نے فرمانبردار بیٹی کی مانند اپنی کتاب کا انتساب والدین کے نام کیا ہے جو صحیح معنوں میں اس کے مستحق بھی ہیں۔ اس کتاب کا پہلا دیباچہ "مونا شہزاد"نے لکھا ہے جس میں فلک زاہد کے انداز تحریر کے متعلق مکمل طور پر معلومات ہیں کہ فلک زاہد کیسا لکھتی ہیں اور کن عوامل پر لکھتی ہیں۔کتاب کا دوسرا دیباچہ " توقیر ساجد کھرل(سب ایڈیٹر مارگلہ نیوز انٹرنیشنل، اسلام آباد(" نے لکھا ہے اور انہوں نے فلک کی تحاریر کے اسلوب اور انداز بیان کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں من و عن اس پر متفق ہوں۔ تیسر ا اور سب سے اہم دیباچہ " شاہد علی صاحب (ایڈیٹر:ڈر ڈائجسٹ ،کراچی) نے قلم بند کیا ہے۔ یہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے بہت ہی اہم اور خاص ہے کیونکہ یہ وہی پلیٹ فارم ہے جہاں پر فلک نے لکھا اور اپنی ادبی شناخت بطور ہارر رائٹر بنائی ۔یہ سب تو ہوگیا کتاب  کے آغاز اور مصنف کے بارے میں اب کچھ قدیم چرچ کا بھی تذکرہ ہو جائے۔

 

قدیم چرچ دراصل ایک ناول ہے جو کہ کیتھولک مذہب کے کرداروں کے گرد گھومتا ہے جس میں بظاہر کرداروں کی زندگی کا معمول  اور پریشانیاں بالکل ہم جیسی ہیں۔ بعض مذہنی عناصر کے علاوہ باقی سب باتوں اور حالات کو آپ خود سے منسلک کر سکتے ہیں۔ اس ناول کا آغاز بالکل ہلکے پھلکے  اور نارمل انداز میں کیا گیا ہے،یعنی کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مصنفہ نے ہاتھ ہولا رکھ کر آپ کو پہلے ذہنی طور پر تیار کیا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تجسس کے عناصر کے ساتھ ڈر کے ہلکے ہلکے جھٹکے بھی لگائے ہیں۔ یہاں پر یہ بات واضح کردوں کہ فلک کا انداز بیان نہایت سادہ اور دلکش ہے جسے پڑھ کر کوئی بھی باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ مصنفہ نے شروع سے آخر تک کہانی کے تسلسل اوردلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔پورے ناول میں کوئی ایسا منظر یا واقعہ نہیںہے جس سے آپ بوریت کا شکار ہوئے ہوں۔اصل مصنف وہی ہوتا ہے جو پہلی سطر سے آخر تک قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے تحریر کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ یہ ناول بظاہر تو مغربی تہذیب و تمدن اور مسلک کو ملحوظ خاطر رکھ کر لکھا گیا ہے لیکن اس میں مکمل طور پر تحقیق سے کام لیا گیا ہے۔اس ناول کا مرکزی تھیم درحقیقت ایک تھیوری ہے جس کو عموماََ بغیر تحقیق کے لفظوں میں بیان کرنا محال ہے۔ یہ کتاب آپ کو رلائے گی، جذباتی کرے گی اور بعض جگہوں پر جنونی بھی کردے گی،گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں محبت ،جذبات،نفرت،جدائی اور سب سے بڑھ کر پختہ ایما ن کا نچوڑ شامل ہے۔ 

 

یہ ناول آپ پر بہت سے ایسے حقائق عیاں کرے گا جس کو عموماََانسانی عقل سوچنے،سمجھنے اور ماننے سے ہی انکاری ہوتی ہے۔مصنفہ نے کم عمر ی میں اپنی محنت کے عوض بہت سے پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ ڈر لڑیچر محض جن،بھوت اور چڑیل کے گرد نہیں گھومتا بلکہ بدلتے زمانے کے ساتھ جہاں پر ضروریات اور سوچ بدل رہی ہے وہیں پر لڑیچر میں بھی تبدیلی لازم ہے۔ اس عمدہ کاوش پر میں مصنفہ کو داد دیتی ہوں جنہوں نے بظاہر ایک چھوٹی سی مختصر سی 96صفحات پر مبنی کتاب میں وہ مواد دلکھ ڈالا ہے جو 1000 صفحات پر لکھنے سے بھی لوگ قاصر ہیں۔ یہ میرے لیے باعث مسرت ہے کہ ہماری آج کی لڑکیوں کی سوچ منفرد اور پریکٹیکل ہے۔ اس کے ساتھ ہی فلک زاہد کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ اس نے میرے اندر چھپے ڈر کو کسی حد تک کم کردیا ہے ۔میں فلک زاہد کی اس جیسی مزید تحریروں کو پڑھنے کی خواہش مند ہوں۔ انہوں نے جس قدر خوبصورتی سے لفظوں کو مالا میں پرو کر شاہکار مرتب کیا ہے میرے الفاظ اس کے اعزاز میں بھرپور انداز میں تعریفی کلمات کہنے سے قاصر ہیں۔

 

 میرے ان ٹوٹے پھوٹے لفظوں نے آپ کو اس قدر متجسس کردیا ہوگا کہ آپ بھی اس کتاب کو اب پڑھنے کے خواہشمند ہوں گے تو پھر دیر کس بات کی ابھی گھر بیٹھے مصنفہ کے آٹوگراف کے ساتھ کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں۔

ٹیگس