طورخم بارڈر: پاک افغان ٹریڈ میں کمی، تاجروں کی مشکلات میں اضافہ کیوں؟

طورخم بارڈر: پاک افغان ٹریڈ میں کمی، تاجروں کی مشکلات میں اضافہ کیوں؟

  عزیز بونیرے

پاک افغان بارڈر طورخم پر مشکلات کی وجہ سے پاک افغان ٹریڈ میں مسلسل کمی کے باعث پاک افغان ٹریڈ سے وابستہ افراد کو کروڑوں روپے نقصان کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ طورخم بارڈر پر مختلف اداروں کی جانب سے مشکلات پیدا کرنے کی وجہ سے ٹریڈ میں مسلسل کمی کے باعث تاجروں اور کلیئرنگ ایجنٹس کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے، بارڈر پر تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو روزانہ کی بنیاد پر مشکلات کی وجہ سے اڑھائی ارب ڈالر کی پاک افغان ٹریڈ اب آہستہ آہستہ پچاس لاکھ ڈالر سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اس ٹریڈ سے موصول ہونے والے محاصل میں کئی گنا کمی آئی ہے۔ 

 

پاکستانی ایکسپورٹر عامر کے مطابق افغانستان کے ساتھ ٹریڈ کیلئے مختلف بارڈرز پر الگ الگ قانون کی وجہ سے تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے، ایک بارڈر پر ایکسپورٹ اشیاء کیلئے ویلیو کے ذریعے کلیئرنس ہوتی ہے تو دوسری سرحد پر گاڑی کے حساب سے مال کلیئر کیا جاتا ہے۔ شھباز کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی چاول ایکسپورٹ کرنے پر خرلاچی میں ایک گاڑی چار ہزار امریکی ڈالرز میں کلیئر کی جاتی ہے تو طورخم بارڈر پر کمزور چال پر پندرہ ہزار امریکی ڈالر چارج کئے جا رہے ہیں۔ ایک ہی ملک میں ہر بارڈر پر الگ الگ نظام کی وجہ سے پاکستانی ایکسپورٹروں کو مشکلات کے ساتھ ساتھ لاکھوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، ان مشکلات کی وجہ سے پاک افغان ٹریڈ میں مسلسل کمی آ رہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف تاجروں کو نقصان کا سامنا ہے بلکہ حکومتی محاصل میں بھی کئی گنا کمی آئی ہے۔



 

طورخم بارڈر پر تاجروں کو سب سے زیادہ مشکلات این ایل سی کی وجہ سے درپیش ہیں، مال کو سکینرز پر کلیئر کرنے کے باوجود دوبارہ مال کو کھولنا اپنی ہی مشینری پر عدم اعتماد ہے



دوسری جانب تاجروں کو مال کلیئر کرنے اور اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری اور بینک میں جمع کرنے میں بھی نقصان کا سامنا ہے۔ تاجروں کی جانب سے ڈیوٹی کی مد میں جمع کی جانے والی رقم بینک میں ڈالروں میں جمع کی جاتی ہے جبکہ بینک کی جانب سے واپسی پاکستانی کرنسی میں ہوتی ہے اس وجہ سے بھی تاجروں کو روزانہ کی بنیاد پر نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاک افغان ٹریڈ میں ایک طرف اگر بارڈر پر اداروں کی جانب سے مال کی کلیئرنس میں تاخیر تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کیلئے مشکلات کے ساتھ ساتھ ٹریڈ میں کمی کا باعث بن رہی ہے تو دوسری جانب سے افغانستان میں طالبان حکومت کی آمد اور اس باعث وہاں پر بینکی نظام مفلوج ہونے کی وجہ سے بھی ٹریڈ میں کمی آ رہی ہے۔ افغان تاجروں کی جانب سے مال امپورٹ کرنے کیلئے بینکی نظام نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی تاجروں کو مال کے آرڈر میں اسی فیصد تک کمی آئی ہے۔ اس وقت افغانستان میں بینکی نظام مفلوج ہونے کی وجہ سے پاکستانی تاجروں کو افغانستان سے ٹی ٹی کے ذریعے پیسے کی آمد بند ہو کر رہ گئی ہے۔

 

ایکسپورٹر عابد خان کے مطابق اس وقت طورخم بارڈر پر تاجروں کو سب سے زیادہ مشکلات این ایل سی کی وجہ سے درپیش ہیں، مال کو سکینرز پر کلیئر کرنے کے باوجود دوبارہ مال کو کھولنا اپنی ہی مشینری پر عدم اعتماد ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت طورخم بارڈر پر این ایل سی بڑی گاڑیوں سے3500  روپے چارج کرتا ہے جبکہ ایک ہزار سکینرز کا جبکہ چھوٹی گاڑیوں کو 2500 روپے اور سکینرز کے ایک ہزار روپے چارج کرنے کے باوجود مال دوبارہ کھولنے کی وجہ سے روزانہ تاجروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عابد خان کے مطابق اس وقت افغانستان کو پاکستانی ایکسپورٹ میں چاول، مچھلی، سبزی اور دیگر خوراکی اشیاء شامل ہیں جبکہ افغانستان سے فروٹ جس میں سیب، انار، انگور، خشک میوہ جات اور سوپ اسٹون شامل ہیں جبکہ اب حکومت نے کوئلہ کی امپورٹ کی بھی اجازت دے دی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت افغانستان جانے والی بمشکل دو سو کے قریب جبکہ افغانستان سے تین سو کے قریب گاڑیوں کو کلیئر کیا جاتا ہے، حکومت کی جانب سے بارڈر کو 24\7 کھلا رکھنے کی اجازت کے باوجود اتنی کم تعداد میں گاڑیاں کلیئر کرنا اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جبکہ اس سے قبل محدود وقت میں بارڈر پر گاڑیوں کی کلیئرنس کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی۔



بارڈر پر تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو روزانہ کی بنیاد پر مشکلات کی وجہ سے اڑھائی ارب ڈالر کی پاک افغان ٹریڈ اب آہستہ آہستہ پچاس لاکھ ڈالر سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہے



خیبر پختونخوا کسٹم کلیئرنس ایجنٹس کے صوبائی صدر ضیاء الحق سرحدی نے بتایا کہ جب تک پاکستانی حکام بارڈر سے غیرمتعلقہ اداروں کی مداخلت ختم نہیں کرتے اس وقت تک ٹریڈ میں یہ مشکلات موجود رہیں گی، ''اس وقت پاک افغان طورخم بارڈر پر ٹریڈ کی گاڑیوں کو کلیئر کرنے میں کمی کی سب سے بڑی وجہ طورخم بارڈر پر موجود این ایل سی ہے، یہاں پر این ایل سی کو یارڈ بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے مگر وہ اپک افغان ٹریڈ کی گاڑیوں سے سکینرز سمیت مختلف مدات میں ہزاروں روپے وصول کر رہی ہے، حکومتِ پاکستان کو پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ کو جلد فعال کرنا اور اس معاہدے میں تمام اسٹیک ہولڈروں کا اِن پوٹ لینا ہو گا، جب تک پاک افغان ٹریڈ منصوبہ کو حتمی شکل نہیں دی جاتی جس میں تمام مشکلات کو کلیئر کرنا ہو گا اس وقت تک دونوں طرف تجارت کو فروغ دینے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔'' انہوں نے مزید بتایا کہ پاک افغان بارڈر پر موجود مشکلات کو کم کرنے کیلئے گزشتہ دو ماہ میں دو دفعہ افغانستان سے پاک افغان چیمبر آف کامرس کے صدر خان جان الکوزئی کی سربراہی میں وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، انہوں نے یہاں کے کسٹم حکام، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے، این ایل سی اور منسٹری آف کامرس کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ 



 اس وقت طورخم بارڈر پر این ایل سی بڑی گاڑیوں سے3500  روپے جبکہ ایک ہزار سکینرز کا چارج کیا جاتا ہے

 



ضیاء الحق سرحدی کے مطابق کسٹم حکام چاہتے ہیں کہ بارڈر پر موجود تمام مشکلات کو حل کیا جائے، اس وقت بارڈر پر تاجروں کو کسٹم حکام سے کوئی مشکل نہیں ہے مگر دیگر غیرمتعلقہ اداروں کی جانب سے مال چیکنگ، مختلف مدات میں ٹرانسپورٹروں سے وصولی نے پاک افغان ٹریڈ کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ضیا  الحق نے مزید بتایا کہ طورخم بارڈر پر این ایل سی کی وجہ سے مشکلات میں جتنا اضافہ ہوا شائد ہی کسی دوسرے ادارے کی جانب سے ہوا ہو، ''حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر بارڈر پر موجود اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے کی ہدایات جاری کرے، اگر یہی صورتحال رہی تو پاک افغان ٹریڈ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔'' تاجروں اور کلیئرنس ایجنٹ کی جانب سے این ایل سی پر لگائے گئے الزامات کی بابت کئی بار این ایل سی کے نمائندہ عبدالستار سے رابطہ کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔