
پختونستان، حقیقت کیا، فسانہ کیا!
ساجد ٹکر
پختونستان کیا ہے۔ اس پر آج کل سوشل میڈیا پربحث کیوں چل رہی ہے۔ اس کی حقیقت کیاہے، اس کا پس منظر کیا ہے اور اس بارے تاریخ کیا کہتی ہے اس پر کچھ حقیقت حال پیش کرتے ہیں، پختونستان پر بحث تو ایک عرصے سے چل رہی ہے لیکن اس موضوع یا نعرے کو سمجھنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہا حقیقت کی بجائے زیادہ تر لوگ اسے جذباتی انداز میں پیش کرتے ہیں، آج ہم ان سطور میں پختونستان کی حقیقت، تاریخ اور آج کل اس پر ہونے والے بحث کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہوا یو ں کہ 4 فروری کو پشاور کے پولیس لائنز شہداء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے احتجاج کیا جارہا تھا۔ یہ ایک عوامی احتجاج تھا جس میںہر پارٹی کے لوگ شریک تھے۔ ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ یہ امن کے لئے تھا اس احتجاج میں کوئی بندہ اپنے ساتھ ایک جھنڈا لے کر آیا جس پر کہ پختونستان لکھا ہوا تھا ہم یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پشاور اولسی پاسون صرف اور صرف پولیس شہداء کے ساتھ اظہار یکجہتی اور امن کے لئے تھا لیکن اس ایک جھنڈے نے بحث کا رخ موڑ دیا اور یہ احتجاج جس غرض کے لئے کیا گیا تھا وہ پس منظر میں چلا گیا ہم اس کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ یہ احتجاج جس مقصد کے لئے ہوا تھا اس کی جگہ بحث کسی اور طرف چل نکلی۔
ہماری سیاسی جماعتوں اور نوجوانوں کو اپنا قیمتی وقت امن کے قیام اور اپنے لوگوں کی خدمت میں صرف کرنا چاہئے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈوں اور الزامات میں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست ہی جمہور کا اصل ہتھیار ہے۔ ہم سیاست ہی ذریعے اپنے اہداف پورا کرسکتے ہیں
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس احتجاج کے بعد سارے لوگ بیٹھ کر ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیتے اور حکومت پر پریشر ڈالتے کہ اس سرزمین پر امن کے لئے دیرپا اور سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیںتاہم ہوا کا رخ بدل دیا گیا بہر حال ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر کے طور پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ٹویٹ میں آئین ،قانون اور پاکستان کے اندر اپنی قوم کے حقوق کی بات کی۔ اس کے بعد ان کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا شروع کیا گیا، ان کی کردار کشی کی گئی اور ایسے ایسے طعنے دئیے گئے کہ الامان الحفیظ۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایمل ولی خان نے آخر ایسی کون سی غلط بات کہہ دی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی غلیظ پروپیگنڈا کیا گیا، انہوں نے تو آئین اور قانون کی بات اور جمہوریت کی بات کی۔ دراصل کچھ لوگوں کو ایمل ولی خان کے خلاف موقع کی تلاش ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اسی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب موقع ملے اور ایمل ولی خان کی کردار کشی کرے۔ ان کو طعنہ دیا گیا کہ ایمل ولی خان نے پختونستان سے رجو ع کیا۔ کچھ تاریخ سے نابلد لوگوں نے تو ان کو غدار بھی کہا۔ الغرض جتنی منہ اتنی باتیں۔ لیکن کسی نے بھی یہ کوشش نہیں کہ پختونستان دراصل ہے کیا۔ یہ قضیہ کیا ہے۔ اس کا پس منظر کیا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے اور تاریخ اس بارے کیا کہتی ہے۔ ہم اگر تاریخ پڑھتے یا کم ازم کم اس ضمن میں ولی خان مرحوم کی شہرہ آفاق کتاب ''باچاخان او خدائی خدمتگاری'' ہی پڑھ لیتے تو ان بے بنیاد باتوں کی نوبت نہ آتی۔ بہر حال ناسمجھی اور تاریخ سے بے خبری کیوجہ سے جو کچھ ہونا تھا وہ ہوگیا، ہم مگر تاریخ کی روشنی میں پختونستان کے معاملے پر بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
4 فروری کو پشاور کے پولیس لائنز شہداء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے احتجاج کیا جارہا تھا۔ یہ ایک عوامی احتجاج تھا جس میںہر پارٹی کے لوگ شریک تھے۔ ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ یہ امن کے لئے تھا اس احتجاج میں کوئی بندہ اپنے ساتھ ایک جھنڈا لے کر آیا جس پر کہ پختونستان لکھا ہوا تھا اس ایک جھنڈے نے بحث کا رخ موڑ دیا اور یہ احتجاج جس غرض کے لئے کیا گیا تھا وہ پس منظر میں چلا گیا
پختونستان کے حوالے سے اگر حقیقت کے بارے میں اگرکوئی جانکاری جاننا چاہتا ہے تو ان کے لئے ولی خان کی کتاب باچاخان اور خدائی خدمتگاری کا مطالعہ ضروری ہے۔ ہم یہاں قارئین کے سامنے ولی خان کی اسی کتاب یعنی ''باچاخان او رخدائی خدمتگاری'' سے ایک مفصل واقعہ سامنے رکھتے ہیں تاکہ سند رہے اور سچ اور پروپیگنڈے کا فرق بھی معلوم ہوسکے۔ سن 1994 کی پرانی اشاعت کے اس کتاب کے صفحہ نمبر 614پر ولی خان رقمطراز ہیں، ترجمہ وتلخیص: روان فرہادی صاحب کے ساتھ گفتگو کے سر خط ساتھ کہتے ہیں کہ''اسی سلسلے میں ویک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ باچاخان جب افغانستان میں تھے تو میں اور ہمارے گھر والے ان کو ملنے اکثر کابل اور جلال آباد جایا کرتے تھے۔میرا دنیا میں ایک ہی شوق ہے اور وہ ہے دنیا گھومنا۔ اپنے اسی شغل کے سلسلے میں کئی بار لندن اور کابل کے درمیان سفر بری راستے سے چارپانچ مرتبہ کرچکا ہوں۔میری بیگم نسیم ولی خان بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ایک بار لندن سے واپسی پر کابل میں رکے۔ باچاخان بھی وہاں تھے تو ان کے ساتھ چند دن گزارے۔ ان دنوں افغانستان میں جشن پختونستان ہورہا تھا۔ ہم پروگرام میں گئے۔ اس دوران وہاں روان فرہادی صاحب آگئے۔ انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ولی خان اچھا ہوا کہ آپ کو دیکھا کیونکہ آپ سے کچھ اہم باتیں کرنی تھیں۔ میں نے عرض کیا کہ ابھی توہفتوں سفر کرکے کابل پہنچا ہوں ، بہت تھکا ہوں تو باتیں کسی اور دن کریںگے اور آج ہمیں موسیقی کا محفل انجوائے کرنے دیں۔ لیکن فرہادی صاحب نے اصرار کیا اور بالاخر میں ان کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ روان فرہادی صاحب بولنے لگے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ باچاخان کی عمر بڑھ رہی ہے اور دن بدن ضعیف ہوتے جارہے ہیں۔ ہم جب ان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں فکر لاحق ہوتی ہے کہ ان کے بعد کیا ہوگا۔ لیکن جب آپ کو اور آپ کی سیاسی جدوجہد کو دیکھا تو سکون کا سانس لیا کہ چلو بابا کا ایک سیاسی وارث تو ہے جو ان کی مقصد کو آگے بڑھائیں گے۔لیکن آپ نے تو ہمیں بری طرح مایوس کیا کیونکہ تم نے پختونوں کی سیاست چھوڑ کر پاکستان کی سیاست شروع کر دی ہے (روان فرہادی صاحب کا اشارہ اس طرف تھا کہ اس وقت میں سارے ملک کے نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کا صدر منتخب ہوا تھا) اور اب تم پنجابی، سندھی، بلوچ اور یہاں تک کہ بنگالیوں کے حقوق کے لئے لڑ رہے ہو۔
باچاخان کی سیاسی جدوجہد اور خدائی خدمتگار تحریک کی تاریخ کا نہ تو یہ مقصد رہا ہے اور نہ کبھی تقسیم ہند کے دنوں کے علاوہ یہ نام کبھی منظر عام پر تھا۔ ولی خان، بیگم نسیم ولی خان ، اسفندیار ولی خان اور دیگر لیڈرز نے بھی کبھی اس کی وکالت نہیں کی ہے۔ ہاں مگر کچھ تاریخی حقائق ایسے ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ مخصوص وقت کے لئے تھے اور کوئی نظریاتی چیز نہیں تھی
انہوں نے مزید کہا کہ اب پختون کا کیا ہوگا۔ بلکہ پختون کیاکہ اب پختونستان کا کیا ہوگا؟۔میں نے ہنس کر کہا کہ فرہادی صاحب مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ آپ نے پختونستان کاذکر چھیڑ دیا کیونکہ میں یہاں لوگوں سے پوچھتا پھر رہا ہوں کہ تم لوگوں کا پختونستان سے کیا مطلب ہے لیکن کسی نے بھی آج تک مجھے تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے۔اسی غرض کے لئے میں اعلی حضرت بادشاہ صاحب کے پاس بھی گیا لیکن انہوں نے مشورہ دیا کہ اس سوال کے جواب کے لئے صدر اعظم کے پاس جاو۔ ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ تو آج میں خوش ہوں کہ آپ ملے تو شائد اس کا جواب آپ ہی مجھے دے دیں کہ آپ لوگوں کا پختونستان سے مطلب کیا ہے؟۔ فرہادی صاحب نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ یہ نام تو آپ لوگوں کی طرف سے نیچے سے آیا ہے اس لئے جواب بھی آپ ہی دیں گے۔ میں نے کہا چلو ایسا ہی کرتے ہیں۔
اس موضوع پر بہت کچھ کہا گیا، بہت بحث ہوگئی ، بحث اچھی بات ہے لیکن اگر بحث میں دلیل، مثال ، منطق اور حوالہ نہ ہو تو پھر شکوک شبہات جنم لیتے ہیں ، افواہیں پھیلتی ہیں اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اس بحث کا فائدہ یہ ہوا کہ کچھ تو حقائق سامنے آنے کا موقع ملا لیکن ساتھ ہی افواہوں، کردارکشی اور الزامات کا سلسلہ بھی جاری رہا، امن کے لئے اٹھنے والی تحریک بھی پس منظر میں چلی گئی، لیکن جو ہوا وہ ہوگیا، اب اس موضوع کو چھوڑ کر مسائل کی طرف آنا چاہئے، صوبے میں ایک بار پھر بدامنی کا راج ہے، دہشتگردی کے سائے بڑھ رہے ہیں، یہ وقت تمام لوگوں سے اتفاق کا تقاضا کر رہا ہے
عرض کیا کہ یہ نعرہ تب بلند ہوا جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوا اور انگریز پریشان ہوا کہ باقی صوبوں میں تو انتخابات مسلم لیگ نے جیتے ہیں لیکن صوبہ سرحد میں الیکشنز خدائی خدمتگار نے جیتے ہیں اور روس کے خلاف انگریز کی بین الاقوامی پالیسی میں اس صوبے کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہے۔ تو ان کے لئے مشکل تھا کہ اس صوبے کے ساتھ کیا کیا جائے کیونکہ باقی صوبوں میں تو اسمبلیوں سے رائے لی گئی تھی۔ لیکن یہاں وہ خوفزدہ تھے کیونکہ یہاں ہماری صوبائی اسمبلی میں قطعی اکثریت تھی۔ تو انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کریں۔ ہم نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم کی بات تو کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان طے ہوچکی ہے اور ہم کانگریس کے حامی تھے اور وہ فیصلہ ہم نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان بن رہا ہے تو یہ صوبہ اس میں شامل ہوگا۔ تو ایسے میں ریفرنڈم یا استصواب رائے کی کیا ضرورت ہے؟۔ لیکن انگریز کے اپنے اغراض تھے اور وہ پختونوں کی ذہنیت ختم کرنا چاہتے تھے اور اس کی شروعات صوبے میں حکومت کے خاتمے سے کر رہے تھے۔ جب ہم نے محسوس کیا کہ انگریز ریفرنڈم پر مصر ہے تو پھر ہم نے یہ تجویز دی کہ اگر وہ ہندوستان یا پاکستان پر مطمئن نہیں ہیں اور پختونوں کو حق خود ارادیت دینے کے لئے آمادہ ہو تو ہم نے کہا پھر ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ تیسرا آپشن خودمختار پختونستان کا بھی رکھا جائے۔ لیکن انگریز نے یہ تجویز نہیں مانی اور اس لئے ہم نے ریفرنڈم کابائیکاٹ کر دیا ۔ ویسے مزید اس معاملے کو چھیڑنا نہیں چاہئے۔جب پاکستان بنا اور باچاخان آئین ساز اسمبلی میں گئے تو وہاں ان سے پوچھا گیا کہ پختونستان سے آپ کا مطلب کیا ہے؟۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ٹویٹ میں آئین ،قانون اور پاکستان کے اندر اپنی قوم کے حقوق کی بات کی۔ اس کے بعد ان کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا شروع کیا گیا، ان کی کردار کشی کی گئی اور ایسے ایسے طعنے دئیے گئے کہ الامان الحفیظ۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایمل ولی خان نے آخر ایسی کون سی غلط بات کہہ دی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی غلیظ پروپیگنڈا کیا گیا، انہوں نے تو آئین اور قانون کی بات اور جمہوریت کی بات کی۔ دراصل کچھ لوگوں کو ایمل ولی خان کے خلاف موقع کی تلاش ہوتی ہے
باچاخان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان بن گیا ہے اور ہم نے انگریز کو بھگا دیا ہے۔یہ صوبہ جب انگریز سرکار کا حصہ تھا تو ان لوگوں نے اس پر اپنے مفادات کے لئے نام رکھا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ یہ ان کی سلطنت کا سب سے اہم سرحد ہے اس لئے اس بارے میں ہر انگریز بچے کو معلوم ہونا چاہئے۔ ایسا اس لئے تھا کہ اس کے قریب روس پڑا ہے جو ان کا دشمن ہے۔ لیکن اب تو یہ سرحدی صوبہ نہیں رہا کیونکہ پاکستان بن گیا ہے اور اب تو اس ملک کا ہر صوبہ سرحدی صوبہ ہے۔جو نام انگریز نے ہمیں دیا تھا اس کا قصہ اور افادیت ختم ہوگئی ہے۔ ان کے جانے کے بعد ان کا دیا ہوا نام ہمارے صوبے پر کیوں؟۔ پنجابیوں کا صوبہ پنجاب ہے، سندھیوں کا سندھ اور بلوچوں کا بلوچستان۔ تو اگر اس صوبے کو پختونستان بلایا جائے تو اس سے پاکستان کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔آگے ولی خان لکھتے ہیں کہ میں نے روان فرہادی صاحب سے کہا کہ نیچے سے تو دو قسم کے پختونستان کے نعرے آئے ہیں۔ ایک آزاد و خودمختار پختونستان اور دوسرا صرف نام بدلنے تک کا پختونستان ۔ میں نے روان صاحب سے پوچھا کہ اب مجھے بتائیں کہ آپ نے جو پچھلے کئی سالوں سے پختونستان کی آواز بلند کر رکھی ہے اور ہر سال جشن مناتے ہو تو یہ کون سے پختونستان کا قصہ ہے، آزاد و خودمختار پختونستان یا پاکستان کے اندر نام کے حد تک پختونستان؟۔
جب پاکستان بنا اور باچاخان آئین ساز اسمبلی میں گئے تو وہاں ان سے پوچھا گیا کہ پختونستان سے آپ کا مطلب کیا ہے؟۔ باچاخان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان بن گیا ہے اور ہم نے انگریز کو بھگا دیا ہے۔یہ صوبہ جب انگریز سرکار کا حصہ تھا تو ان لوگوں نے اس پر اپنے مفادات کے لئے نام رکھا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ یہ ان کی سلطنت کا سب سے اہم سرحد ہے اس لئے اس بارے میں ہر انگریز بچے کو معلوم ہونا چاہئے۔ ایسا اس لئے تھا کہ اس کے قریب روس پڑا ہے جو ان کا دشمن ہے۔ لیکن اب تو یہ سرحدی صوبہ نہیں رہا کیونکہ پاکستان بن گیا ہے اور اب تو اس ملک کا ہر صوبہ سرحدی صوبہ ہے۔جو نام انگریز نے ہمیں دیا تھا اس کا قصہ اور افادیت ختم ہوگئی ہے۔ ان کے جانے کے بعد ان کا دیا ہوا نام ہمارے صوبے پر کیوں؟۔ پنجابیوں کا صوبہ پنجاب ہے، سندھیوں کا سندھ اور بلوچوں کا بلوچستان۔ تو اگر اس صوبے کو پختونستان بلایا جائے تو اس سے پاکستان کو کیا نقصان ہو سکتا ہے،ولی خان
لیکن روان فرہادی صاحب تو سیانے تھے تو وہ آسانی سے اپنا موقف واضح نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال تو ہم پوچھنا چاہتے تھے۔تو میں نے عرض کیا کہ آپ لوگ پچھلے 20سال سے پختونستان کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کرسکے کہ کون سا پختونستان۔ بہر حال میں نے ان سے کہا کہ چونکہ آپ نے مجھ سے سوال پوچھا ہے تو میں جواب دیتا ہوں کہ ہمارا سیاسی اور تاریخی تجربہ یہ رہا ہے کہ پختون قوم ایک مقام رکھتی تھی۔ بادشاہتیں قائم کر رکھی تھیں انہوں نے۔ لیکن ان کے اندر نفاق پیدا کر دیاگیا۔ ان کی قوت کو ختم کیا گیا۔ ان پر مولوی اور خان کو مسلط کیا گیا۔اور جب انگریز آئے تو انہوں نے پختون کو تقسیم در تقسیم کیا۔اس لئے ہماری رائے یہ ہے کہ جب تک بٹے ہوئے پختون ایک نہیں ہوتے تب تک یہ اپنے مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔ ولی خان لکھتے ہیں کہ میں خود کو قطعا پختونستانی نہیں سمجھتا۔ ہمارا مقصد بس اتنا ہے کہ پختونوں میں اتفاق پیدا ہو۔ روان فرہادی صاحب نے یہ بھی پوچھا تھا کہ اس غرض کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے جس کا مفصل جواب بھی ولی خان نے اسی باب میں آگے دیا ہے۔
پختونستان کے حوالے سے اگر حقیقت کے بارے میں اگرکوئی جانکاری جاننا چاہتا ہے تو ان کے لئے ولی خان کی کتاب باچاخان اور خدائی خدمتگاری کا مطالعہ ضروری ہے
ہمارا غرض یہاں مزید بحث نہیں بس صرف آپ کے سامنے کچھ حقائق اور حوالے رکھنے تھے۔ ہمارے خیال میں ان سطور اور تاریخی حوالوں سے بہت سے لوگوں کے ذہنی ابہام اور فکری تضادات دور ہوچکے ہوں گے کہ پختونستان کا معاملہ کیسے پیدا ہو، اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کو فل سٹاپ کیسے لگ گیا۔ بدقسمتی سے یہاں ایمل ولی خان کے خلاف مسلسل ایک پروپیگنڈا جاری ہے۔ وہ اگر پختون کلچر کی بات کرتے ہیں تو بھی ان کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ وہ اگر انگازے کی بات کرتے ہیں تو بھی ان پر تنقید کے تیر برسائے جاتے ہیں اور وہ اگر ایک تاریخی حقیقت سے دلیری کے ساتھ پردہ اٹھاتے ہیں تو بھی لوگ ان کو معاف نہیں کرتے۔ لوگ ایمل ولی خان کے پیچھے ایسے لگے ہیں جیسے کہ انہوں نے کوئی بڑی بے وفائی کی ہو یا پارٹی کے منشور یا تحریک کی تاریخ سے غداری کی ہو۔ ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔ دراصل پختونستان نہ تو تحریک کا مقصد تھا اور نہ یہ پارٹی کا رہا ہے۔ باچاخان کی سیاسی جدوجہد اور خدائی خدمتگار تحریک کی تاریخ کا نہ تو یہ مقصد رہا ہے اور نہ کبھی تقسیم ہند کے دنوں کے علاوہ یہ نام کبھی منظر عام پر تھا۔ ولی خان، بیگم نسیم ولی خان ، اسفندیار ولی خان اور دیگر لیڈرز نے بھی کبھی اس کی وکالت نہیں کی ہے۔ ہاں مگر کچھ تاریخی حقائق ایسے ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ مخصوص وقت کے لئے تھے اور کوئی نظریاتی چیز نہیں تھی۔ جیسے کہ مئی 1947 میں جب کلکتہ میں تمام پارٹیوں کا اجلاس ہوا تو اس میں پنڈت جواہر لعل نہرو ہمارے صوبے کے لوگوں کو خودمختاری کا اختیار دینے کے حق میں تھے۔ لیکن جب 3 جون کا پلان سامنے آیا تو اس میں یہ بات نہیں تھی۔ اس پر باچاخان کافی ناراض ہوئے تھے اور انہوں نے وہاں پریس کانفرنس بھی کر ڈالی تھی۔
پختونستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے لیکن بہت ہی کم لوگ اس بارے میںحقیقت سے آگاہ ہیں، جو نام کبھی سیاسی مقاصد کے لئے تھا اس کو بدقسمتی سے جذبات کے ساتھ جوڑا گیا۔
کچھ لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اگر حقیقت یہ ہے تو پھر یہ نام پشتو گیتوں میں کیوں ہے۔ تو بھئی کسی کی خواہش پر کوئی پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن کسی کی خواہش کسی پارٹی کے منشور کا حصہ تو نہیں بن سکتی نا۔باچاخان نے بھی اس کی وضاحت کی تھی کہ چونکہ اب پاکستان بن چکا ہے تو ہم اس کے اندر صوبائی خودمختاری کی سیاست اور جدوجہد کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو وہ بھی کرنے نہیں دیا گیا۔ پاکستان بننے کے ایک ہفتہ بعد ہی پختونخوا میں خدائی خدمتگاروں کی منتخب حکومت گرا دی گئی اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔
ولی خان نے کہا تھا میں خود کو قطعاََ پختونستانی تسلیم نہیں کرتا
اس موضوع پر بہت کچھ کہا گیا۔ بہت بحث ہوگئی ۔ بحث اچھی بات ہے لیکن اگر بحث میں دلیل، مثال ، منطق اور حوالہ نہ ہو تو پھر شکوک جنم لیتے ہیں ، افواہیں پھیلتی ہیں اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس بحث کا فائدہ یہ ہوا کہ کچھ تو حقائق سامنے آنے کا موقع ملا لیکن ساتھ ہی افواہوں، کردارکشی اور الزامات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ امن کے لئے اٹھنے والی تحریک بھی پس منظر میں چلی گئی۔ لیکن جو ہوا وہ ہوا۔ اب اس موضوع کو چھوڑ کر مسائل کی طرف آنا چاہئے۔ صوبہ میں ایک بار پھر بدامنی کا راج ہے۔ دہشتگردی کے سائے بڑھ رہے ہیں۔ یہ وقت تمام لوگوں سے اتفاق کا تقاضا کر رہا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور نوجوانوں کو اپنا قیمتی وقت امن کے قیام اور اپنے لوگوں کی خدمت میں صرف کرنا چاہئے نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈوں اور الزامات میں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست ہی جمہور کا اصل ہتھیار ہے۔ ہم سیاست ہی ذریعے اپنے اہداف پورا کرسکتے ہیں۔