پختونخوا  رائونڈاَپ۔قسط16

پختونخوا  رائونڈاَپ۔قسط16

وصال محمدخان 
صوبے میں سردیوں کاموسم جوبن پرہے برفانی علاقوں کالام وغیرہ کادرجہ حرارت منفی 13تک گرچکاہے جبکہ میدانی علاقے بھی شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں ۔سی این جی بندش سے عوام اورٹرانسپورٹرزمشکلات کاشکارہیں اس حوالے سے ہڑتالیں اورمظاہرے بھی ہوئے مگرسی این جی بندش پرنظرثانی نہ ہوسکی۔ بجلی لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کی ناک میں دم کررکھاہے شہری علاقوں میں بیس بیس گھنٹے بجلی بندش سے معمولاتِ زندگی درہم برہم ہیں ۔ایسے میں وزیراعلیٰ محمودخان نے صوبائی اسمبلی تحلیل کرکے اپنی حکومت کاخاتمہ کردیاگزشتہ منگل رات دس بجے وزیراعلیٰ نے گورنرکواسمبلی تحلیل کی سمری ارسال کردی جس پرانہوں نے بلاتاخیر دوسرے دن صبح دستخط کردئے۔ اس طرح صوبے میں تحریک انصاف کی دوسری حکومت اورساڑھے نوسالہ دورکاخاتمہ ہوا۔ اس سے قبل پرویزخٹک نے 2013ء انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی پرجماعت اسلامی اورآفتاب شیرپائوکی معیت میںوزارت اعلیٰ کاعہدہ سنبھالااور2018ء تک اس پرمتمکن رہے۔ ۔2018ء انتخابات میں طوفانی کامیابی کے بعدتحریک انصاف میں وزارت اعلیٰ کیلئے دوامیدوارسامنے آئے ۔ مردان سے عاطف خان اورپرویزخٹک دونوں اس عہدے کے خواہشمندتھے اور دونوںنے اپنے اپنے گروپ بھی بنالئے تھے ۔مگرپرویزخٹک کووفاق میں وزارت دفاع کاقلمدان سونپاگیااورعاطف خان کوسینئرصوبائی وزیربنادیاگیا۔جبکہ وزارت اعلیٰ کی ہماغیرمتوقع طورپرسوات سے محمودخان کے سر بیٹھ گئی ۔محمودخان 17اگست 2018ء سے18جنوری2013 تک وزیراعلیٰ رہے ۔ انہوں نے بطورمنتخب وزیراعلیٰ 4سال 5ماہ اورایک دن کام کیا۔ ان کادورکئی حوالوں سے یادرکھاجائیگا۔انکے دورمیںوفاق کے زیرانتظام قبائلی ایجنسیاں صوبے میں ضم ہوکرضلع بن گئے۔ ان سات قبائلی اضلاع کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارصوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملی۔ 2019میں ضم ہونے والی قبائلی اضلاع میں صوبائی انتخابات کاانعقادہواجس کے نتیجے میںیہاں سے 21ممبران صوبائی اسمبلی کاحصہ بنے ۔ جس سے129رکنی ایوان میں ارکان کی تعداد بڑھ کر145ہوگئی ۔حکومتی ارکان کی تعداد100تھی۔ تحلیل ہونے والی اسمبلی نے صرف ایک مرتبہ 2021ء میںسینیٹ ممبران کاانتخاب کیا۔حکمران جماعت نے دوتہائی اکثریت کے بل بوتے10ممبران منتخب کئے ۔جبکہ اپوزیشن کے حصے میں صرف 2سینیٹرز آئے ۔ محمودخان حکومت نے اپنے پہلے برس648ارب روپے کابجٹ دیاجوصوبے کی تاریخ کاسب سے بڑابجٹ تھا۔اس حکومت نے2019  میںقبائلی اضلاع کیلئے الگ بجٹ سمیت 900ارب روپے ،2020ء میںایک ہزارارب کے لگ بھگ ،2021ء میں1118ارب جبکہ رواںمالی سال کیلئے2022ء میں1332ارب روپے کابجٹ پیش کیا۔ اس حکومت کاپہلابجٹ بھی صوبے کی تاریخ کابڑابجٹ تھاجبکہ آخری بجٹ بھی حجم کے لحاظ سے بڑابجٹ قرارپایا۔بجٹ 2022میں63ہزارسرکاری ملازمین کومستقل کیاگیا۔2020ء اور21ء  کے دوران کروناوباکے سبب حکومت اورعوام دونوں کوشدیدمشکلات کاسامنارہا۔ 2019ء میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی حد60 سال سے 63جبکہ 2021ء میںواپس 60سال کردیگئی ۔قبائلی اضلاع میں پولیس سٹیشنزکے قیام اوربندوبستی اضلاع کے طرزپرانتظامی اقدامات کئے گئے ۔حکومت کو2021ء میں نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں شکست کاسامناکرناپڑا۔ حکومتی رکن میاں جمشیدکی کروناکے باعث وفات سے خالی ہونے والی نشست پرضمنی انتخاب میں ن لیگ کے اختیارولی کوفتح ملی ۔19دسمبر 2021ء کوبلدیاتی انتخابات کاپہلامرحلہ منعقدہواجس میں حکمران جماعت کوجزوی شکست ہوئی۔ دوسرے مرحلے مارچ 2022ء میں حکمران جماعت نے خودکوسنبھالااوراس مرحلے کی فاتح رہی ۔ بلدیاتی ایکٹ میں متعددترامیم ہوئیں جسکے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیاگیا ۔بلدیاتی نمائندے حکومت کے آخری روزتک فنڈزفراہمی کے مطالبات دہراتے رہے ۔ انہوں نے اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرے بھی کئے ۔اسطرح اپوزیشن جماعتیں بھی فنڈزنہ ملنے پرنالاں رہیں ۔اورصوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپوزیشن ارکان اسمبلی نے وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا۔ محمودخان حکومت کے دوران طالبانائزیشن کوایک مرتبہ پھرفروغ ملا۔ وزیراعلیٰ ،گورنرشاہ فرمان اورکابینہ کے کئی وزراء پرطالبان کو بھتہ دیکر جان چھڑانے کے الزامات سامنے آئے ۔ ممتازمسیحی راہنماپادری ولیم سراج اورکئی سکھ تاجرٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے ۔ شیعہ جامع مسجد میں خود کش حملہ ہوا۔ جس میں57افرادجاں بحق جبکہ 196زخمی ہوئے ۔ یہ گزشتہ حکومت کے دوران سب سے بڑادہشت گردحملہ تھا۔ عمران خان حکومت کیلئے جب وزرائے خزانہ کی قحط پڑگئی توشوکت ترین کوخیبرپختونخواسے سینیٹرمنتخب کروایاگیا۔ ان کیلئے سینیٹر ایوب آفریدی کونشست خالی کرنی پڑی ۔حکومت کے بڑے منصوبوں میں سوات موٹروے کاافتتاح اورپشاورڈی آئی خان موٹروے کی منظوری شامل ہے ۔ ڈی آئی خان موٹروے پر300ارب روپے کے اخراجات آئیں گے ۔ رخصت ہونے والی حکومت نے پشاورمیں میٹروبس سروس کاافتتاح بھی کیاجوپرویزخٹک حکومت کاشروع کردہ منصوبہ تھا۔ منصوبے کاافتتاح وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں ہوا اس میگاپرا جیکٹ میں کئی بے قاعدگیاں سامنے آئیں،تاخیرکے سبب بجٹ میں بے تحاشااضافہ ہوا،کرپشن کی داستانیں الگ رہیں،کابینہ نے آئس کے خطرناک نشے کیلئے موت کی سزامقررکردی ۔ پلاسٹک شاپنگ بیگزپرپابندی عائدکی گئی مگراس پرعملدرآمدنہ ہو سکا ۔ طورخم بارڈر کو24گھنٹے کھلا رکھنے کافیصلہ کیاگیا۔حکومت نے خیبربینک کیساتھ فوڈکارڈسکیم کامعاہدہ کیامگراس پربھی عملدرآمدکی نوبت نہ آسکی۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کروناوباکے سبب طلبہ کوامتحان کے بغیرپاس کردیاگیا۔ حکومت نے اپنے آخری ایام میں اساتذہ کواپ گریڈیشن دی ۔ جس کے تحت پرائمری سے ہائیرسیکنڈری تک اساتذہ کواگلے گریڈزمیں ترقی دے دی گئی ۔ صوبے میں پہلی مرتبہ عمران خان نے چارقومی حلقوں سے کامیابی حاصل کی ۔صحت کارڈکوحکومت اپنافلیگ شپ منصوبہ قراردے رہی ہے ۔محمودخان حکومت میںپولیوپرقابو نہ پایاجاسکا۔پولیو ٹیموں اورپولیس پرحملوں کاسلسلہ جاری رہا۔عمران حکومت کے خاتمے پرصوبا ئی حکومت نے مرکزکیساتھ محاذآرائی کابازار گرم کئے رکھا۔ حکومت نے دولانگ مارچوںمیں شرکت کی اوروزیراعلیٰ نے مرکزکے خلاف صوبائی فورس استعمال کرنے کی دھمکی دی ۔ جس پرانہیں لعن طعن کاسامناکرناپڑا۔وفاق اورصوبے کے درمیان فنڈزفراہمی کامعاملہ تاحال حل طلب ہے ۔محمودخان اعلانات کے باوجودعدلیہ سے رجوع کاحق بھی استعمال کرنے سے قاصررہے۔ سابق حکومت کے ساڑھے چار سالہ دورکاجائزہ وقتاًفوقتاًانہی صفحات پرپیش کیاجائیگا۔ منگل17جنوری کووزیراعلیٰ نے اسمبلی تحلیل کرکے اپنی حکومت پرکامیاب خودکش حملہ کیا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سابق حکومت کے پاس خودکشی کا کوئی معقول جوازموجودنہیں ۔ اسے دوتہائی اکثریت حاصل تھی جونئے الیکشن کے بعدشائدممکن نہ رہے ۔نگران وزیراعلیٰ کیلئے اپوزیشن لیڈراکرم درانی اوروزیراعلیٰ محمودخان کے درمیان اعظم خان کے نام پراتفاق ہواہے ۔اعظم خان نگران وفاقی وزیراورچیف سیکرٹری سمیت دیگر اہم عہدوں پرفائزرہ چکے ہیں۔پرویزخٹک اوراس وقت کے اپوزیشن لیڈرمولانالطف الرحمان کے درمیان عدم اتفاق پرالیکشن کمیشن کوفیصلہ کرناپڑا جس نے سابق چیف جسٹس دوست محمدخان کاتقررکیاتھا۔ اکرم درانی نے دیگر جماعتوںسے بھی مشاورت کی ۔ انہوں نے محمودخان کی جانب سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کی دعوت مستردکردی ۔ جس پریہ ملاقات سپیکرہائوس میں ہوئی ۔حیرت انگیز طورپرپہلی بیٹھک میں ہی مسئلہ حل ہوگیا۔بیانات کے تبادلے سے کشیدگی میں اضافہ ہواتھا ۔مگرنتیجہ خیزملاقات خوشگوارماحول میں ہوئی ۔ اکرم درانی اور حیدرہوتی کے درمیان بھی اس قسم کامعاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوا تھا دونوں نے جسٹس ریٹائرڈطارق پرویزکے نام پراتفاق کیاتھا۔ حیدرہوتی کی دورِوزارت اعلیٰ میں بھی اکرم درانی اپوزیشن لیڈرتھے ۔سیاسی جماعتوں نے بھی اسمبلی کی تحلیل کیساتھ ہی سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ اے این پی اس سلسلے میں بازی لے گئی ۔اس نے ٹکٹوں کی تقسیم کامعاملہ تقریباًنمٹالیاہے ۔ جبکہ دیگرجماعتیں بھی تیاریوں میں مگن ہوچکی ہیں۔ اورامیدوارجنازوں میں نظرآنے لگے ہیں۔
ممتازقوم پرست سیاسی راہنما،آئین وقانون کی سربلندی ،جمہوریت اورانسانی حقوق کے علمبردار سپریم کورٹ بارکے سابق صدراوران گنت حوالوں سے خیبرپختونخواکی قدآورشخصیت عبدلطیف آفریدی عرف لطیف لالاکوہائیکورٹ کے احاطے میں قتل کردیاگیا۔لطیف لالا چھ مرتبہ ہائیکورٹ بارکے صدررہ چکے تھے ۔وہ سیاسی طورپراے این پی سے وابستہ تھے ۔ انہیں ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کاساتھ دینے پریونیورسٹی سے نکالاگیاتھا۔ 2007میں پرویزمشرف کی ایمرجنسی کے خلاف احتجاج کے دوران انکی ٹانگ پربکتربندگاڑی چڑھادی گئی ۔ جس کے سبب وہ لاٹھی کے سہارے چلنے پرمجبورہوئے ۔ لطیف لالابے سہاروں کاسہاراتھے ۔ انہوں نے ہمیشہ ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آوازبلندکی جس کے پاداش میں قیدوبندکی صعوبتوں کاسامناکیا۔ انہیں ہائیکورٹ بارکے احاطے میں جونیئروکیل عدنان سمیع نے گولی مار دی ۔ ملزم کوموقع سے گرفتارکیاگیاہے ۔ جس نے اس انتہائی اقدام کودشمنی کاشاخسانہ قراردیا۔ لطیف لالاکی عمر80برس تھی۔ ان جیسی نابغہء روزگارشخصیات صدیوں بعد پیداہوتی ہیں انکی ناگہانی موت نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کانقصان ہے ۔