پشتو ادب ، خوداحتسابی اورخودتنقیدی 

پشتو ادب ، خوداحتسابی اورخودتنقیدی 


 روخان یوسف زئی

اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے کہ پختون مزاجاً تنقید برداشت نہیں کرتے زندگی کے دیگر شعبوں کو چھوڑ کر اگر ہم صرف ادب کے شعبے میں دیکھیں تو وہاں بھی کسی فن پارے یا تحریر پر اعتراض ،نکتہ چینی اور تنقید کرنا بڑے دل گردے والے کاکام ہے۔اس کے باجود کہ ادب کے شعبے میں صوبے میں قائم بیشتر ادبی تنظیموں کا باقاعدہ ہفتہ وار اور ماہانہ تنقیدی مجالس بھی منعقد ہورہی ہے جس میں کسی شاعر ادیب کے فن پارے اور تخلیق پر تنقیدی بحث کی جاتی ہے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے بعض تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لکھاری تعمیری تنقید پر خوش بھی ہوتے ہیں اور اسے خندا پیشانی سے برداشت بھی کرلیا کرتے ہیں مگر مجموعی طور پر پشتو ادب،سیاست اورمعاشرت میں کسی پر تعمیری تنقید کرنا اپنے لیے مفت میں دشمنی پیدا کرنا ہوتی ہے۔اگرچہ ہمارے کلاسک شعراء میں عبدالقادرخان خٹک نے خدا سے اس بندے کو طلب کیا ہے جو اسے ان کی عیبوں یا خامیوں کی نشاندہی کرے جیسا کہ وہ اپنے اس شعر میں کہتے ہیں کہ
سوک چہ ماتہ زما عیب پیشکشی راوڑی
د دے ھسے یار لہ خدایا پہ غوختہ یم
یعنی جو مجھے میرے عیب پیشگی بتائے میں خدا سے ایسے یار کا طلبگار ہوں۔یہی وجہ ہے کہ خوداحتسابی اورخودتنقیدی ایک ایسی خوبی ہے جودنیا کی کسی بھی قوم کے افرادمیں پائی جاتی ہوتووہ زندگی کی دوڑ میں ہمیشہ آگے ہی کی جانب گام زن رہتی ہے اس کے برعکس جوقوم یا افراداس خوش فہمی یا''تہذیبی نرگسیت'' میں مبتلا ہو کہ وہ اپنے ماضی کوبھی اپنے لاڈلے بچے کی طرح سینے سے لگائے پھرتے ہوں،اپنے حال سے بھی مطمئن نہ ہوں اورمستقبل کے بارے میں بھی ان کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل موجود نہ ہو توایسی قوم یا افردازندگی کے تمام شعبوں میں روزبروز ترقی کے بجائے زوال کی جانب عازم سفررہتے ہیں،آج ہرکسی کی زبان پریہی ایک بات ہے کہ سائنسی علوم کواپنانا اور اسی کے ذریعے ترقی کرنی چاہیئے، ہمیں جدید اور جدیدیت کواپنانے کی اشد ضرورت ہے  نئی نسل کی اس بات سے انکارنہیں کیاجاسکتا ہے کیوں کہ جدیدیت کو اپنانا یا سائنسی علوم میں ترقی کی سوچ اور کوششں میں کوئی قباحت نہیں، کہ سائنس تاریخ کے ہر دور کا تقاضا رہی اور اگر سائنس ایجاد نہ ہوتی تو انسان موجودہ شکل کبھی اختیار نہیں کر سکتا تھا مگر یہ جذبہ اگر انسان پر اتنا حاوی ہو جائے کہ وہ کسی دوسرے جذبے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو پھر صرف سائنسی جذبہ تشدد اور جبر کی شکل بھی اختیارکرسکتاہے یک طرفہ سائنسی دوڑ اور اس کی جانب لوگوں کے بڑھتے ہوئے میلان سے دنیا کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور خدا نہ کرے کہ'' صرف سائنس'' کے بل بوتے پر چار دانگ عالم میں جبر و تشدد اپنا سر کچھ اس انداز سے اٹھانا شروع کر دے کہ اسے پھر کچلنے کے لیے ہمارے پاس کوئی ہتھیار ہی نہ ہو، سائنس جس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور اپنی تاریخ کی چند صدیوں میں جو ہزاروں سال سفر طے کیا ہے اورآئندہ توبقول علامہ اقبال کہ''محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی''  والی صورت حال سے دوچارہونا پڑے گا تاہم اسی سائنس سے ہم اپنی زبان، تاریخ،ادب اورثقافت کی بہت اچھے طریقے سے خدمت کرسکتے ہیں اوراسی کے پروں پراسے ترقی کے آسمان تک بھی پہنچاسکتے ہیں اپنی روایات اوراقدار میں مثبت تبدیلیاں لاسکتے ہیں اس کے برعکس اگرسائنس انسانی زندگی کو اس کے بنیادی اقدار سے محروم کرناچاہتی ہے یا انسان کو اپنے ماضی سے متنفر کرناچاہتی ہے تو بھلا کون اس قسم کی سائنس کوقابل تعریف یا قابل تقلید کہہ سکتا ہے خواہ بظاہر سائنس کی ترقی کتنی ہی خوش نماء اور دل فریب کیوں نہ ہو،سائنس کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ انسانی دماغ اور ہاتھ میں بڑھتے ہوئے فاصلوں کو گھٹائیں ، بے روزگاری، غربت،جہالت، مذہبی تنگ نظری، فساد اور تفرقہ بازی پر قابو پائیں آج کی دنیا نظریاتی، علمی اورسیاسی لحاظ سے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے ایک دنیا وہ بنتی جارہی ہے جودنیا میں پائے جانے والے بنیادی انسانی مسائل کوسیاسی بنیادوں پرحل کروانے کے لیے تگ ودود کررہی ہے جب کہ دوسری طرف کچھ قوتیں ایسی بھی ہیں جو اس دنیا میں امن  کے قیام کے لیے جبر اورتشدد کی راہ اپناناچاہتی ہیں اور جوہرمسئلے کا حل جنگ وجدل،تفرقہ بازی،تنگ نظری اورمذہبی جنونیت میں ڈھونڈتا ہے پہلی والی دنیا کا پیداواری نظام اتنا سائنسی اور طاقت ور ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی مخالف دنیا کے پیداواری نظام کو دباسکتاہے اگر پس ماندہ دنیا کی قوت خرید زوال پذیر رہے تو ترقی یافتہ دنیا کی تجارت فیل ہو جانے کا امکان ہے اس لیے تخلیق اور پیداوار کی ترقی میں کم زور دنیا کو اپنا تجارتی ساتھی رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی ایک عالمی ضرورت بن چکی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم ہمیں رحمان بابا کے ان دواشعار کا معنی اورمفہوم کوبھی مدنظررکھنا ہوگا جن میں آج سے تقریباً چارسوسال قبل انہوں نے ہمیں یہ مشورہ دیا ہے کہ
زورورچہ رسوی وچاتہ فیض
لہ دے فیضہ سرہ وگنڑہ ضرر
سربوی م قربانئی لرہ پوھیگم
داچہ کڑے ئے پہ ما باندے زڑہ سوے دے
 ''طاقت ورجب کسی کوکوئی فیض پہنچاتا ہے تواس فیض کے ساتھ کوئی نہ کوئی ضرریعنی نقصان بھی وابستہ ہوتا ہے'' '' مجھے قربانی ہی کے لیے فربہ کیاجارہا ہے اسی لیے تو وہ مجھ پردل سوزی کررہاہے'' رحمان بابا کے درجہ بالااشعارکی معنویت بڑی حدتک واضع ہے اور اس میں ہمارے  حکم رانوں اوران گروپوںکے لیے جوسبق ہے وہ یہ کہ آج امریکا اور یورپ جوآپ لوگوں کوڈالروں سے نوازتا ہے آپ سے یاری دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے آپ کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا ہے اوراسے آپ لوگ ان کا خلوص اورفیض قراردے رہے ہوتواس مہربانی اورفیض کے عوض آپ لوگوں سے کیامانگ رہاہے؟ ظاہرکہ جولوگ قربانی کے لیے جانورپالتا ہے تو اسے اچھا گھاس چارہ اس لیے دیاجاتا ہے کہ وہ قربانی کے دن فربہ ہو،اس کا گوشت زیادہ ہو، اب بھی اگرکوئی رحمان بابا کے اشعار کا مطلب نہیں سمجھا ہو تواس کی عقل کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ ہم اورکربھی کیا سکتے ہیں ؟ان حالات میں ہماری نئی نسل کے پڑھے لکھے اورباشعورافراد کی انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک وقوم پر چھائی ہوئی دہشت گردی اورشدت پسندی کے اندھیروں کواُجالوں میں بدلنے کے لیے اپنے حصے کا کردارادا کریں  لوگوں میں اس بات کا شعوراجاگرکریں کہ ہم ایک روشن خیال قوم ہیں مذہبی تنگ نظری،فرقہ پرستی اورنسل پرستی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اورجولوگ اس قسم کی سوچ کوپروان چڑھارہے ہیں وہ اس ملک اورقوم کی جڑوں کوکھوکھلا کررہے ہیں  یہ لوگ نہ صرف ملک دشمن اورہماری تاریخ اورثقافت کے قاتل ہیں بل کہ ہمارے روشن مستقبل کوبھی اندھیروں میں بدلنے کے آرزومندہیں ان عناصرکی بروقت نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کے نام ونشان مٹانا ہم سب پاکستانیوںکاانسانی،اسلامی اوراخلاقی فرض بنتاہے بقول صاحب سیف وقلم خوش حال خان خٹک کہ
رخنہ گردملک ھر گز د پریخو نہ دے
کہ ھر سو شفاعت کا شیخ ملا
ملک کے فسادی کواپنے ہرگز چھوڑنا نہیں چاہیئے
چاہے اس کی سفارش کوئی شیخ یا ملا ہی کیوں نہ کرے