
پشاور پولیس لائنز خود کش حملہ،دوجگری دوست بھی نشانہ بنے
شمیم شاہد
پشاورخیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے پولیس لائنز میں ہونے والے خودکش حملے میں ہلاکتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے ترجمان عاصم خان نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بدھ کی صبح تک اس واقع میں ایک سو ایک افرادہلاک ہوئے ہیں تاہم غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اب بھی 49 زخمی زیر علاج ہیں جن میں سات کی حالت تشویشناک ہے اور یہ تمام سات زخمی انتہائی نگہداشت وارڈز میں داخل ہیں ۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ آج صبح چار زخمیوں کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے ۔ پشاور پولیس لائنز کے جامع مسجد میں نماز ظہر کے دوران ہونے والے اس خودکش حملے میں مرنے والوں کی سب سے زیادہ افراد کا تعلق چارسدہ ہی سے ہے جن کی تعداد اٹھارہ بتائی جاتی ہے ۔ جبکہ پشاور اور چارسدہ کے علاوہ دیگر اہلکاروں کا تعلق لکی مروت ، مردان ، ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان۔ صوابی اور دیگر اضلاع سے تھا ۔دو دوست اور دو پیٹی بند ساتھی جن کاتعلق چارسدہ کے تحصیل تنگی کے علاقے امیر آباد کے گاؤں جان آباد سے تھا اورلگ بھگ تیس سال کے یہ دو دوست اور دو پیٹی بند ساتھی جو ایک ہی اسکول اور کالج میں اکٹھے پڑھتے رہے اس واقع میں اکٹھے نشانہ بن گئے اور ایک ہی وقت میں منگل کے روز ایک ہی وقت میں نماز جنازہ کے ادائیگی کے بعد ایک ہی قبرستان میں اکٹھے سپرد خاک کر دیئے گئے۔ افتخار علی اور ابن آمین کی قبریں بھی ساتھ ساتھ رکھی گئیںتاکہ موت کے بعد بھی یہ دو دوست ساتھ ہی رہیں اس موقع پر رقت امیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ دونوں کے ایک اور قریبی دوست جمیل خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افتخار علی اور ابن آمین نے تعلیم ایک ہی جگہ مکمل ضرور کی تھی مگر دونوں مختلف اوقات میں پولیس میں بھرتی ہوئے تھے ۔ انکے بقول افتخار علی 2011 کے اواخر میں پولیس میں بھرتی ہوئے تھے جبکہ ابن آمین 2015 میںبھرتی ہوئے ۔ اس دوران دونوں محکمہ پولیس کے مختلف اسٹیشن پر فرائض سر انجام دے رہے تھے مگر چندہفتے قبل دونوں پولیس لائنز میں دو مختلف اسائنمنٹ پر اکٹھے ایک ہی جگہ تعینات ہوئے تھے جمیل خان کے مطابق ابن آمین نے ایک بیوہ اور ایک ایک سال کے دو بچے جبکہ افتخار علی نے ایک بیوہ اور دو بچیوں کو سوگوار چھوڑ دیا ۔ افتخار علی کی دو بہنیں اور چار بھائی جبکہ ابن آمین کے دو بھائی اور ایک بہن حیات ہیں ۔ ابن آمین کا والد بھی پولیس میں افسر کے طور پر تعینات ہے ۔جمیل خان نے بتایا کہ افتخار علی کا ایک اور بھائی شکیل خان اسکول بھی سکاوٹ میں شامل تھا جو اسکول کے اسکاوٹس گروپ کے ساتھ اسلام آباد میں ایک سرکاری تقریب میں شرکت کے لئے جا رہا تھا کہ راستے میں گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی اور شکیل بھی دیگر ساتھیوں سمیت اس حادثے میں جاں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یو ںافتخار علی اس خاندان کا دوسرا فرد ہے جو ایک اور حادثے میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔جمیل خان نے بتایا کہ چارسدہ کے تحصیل تنگی کے علاقے امیر آباد سے تعلق رکھنے والا سینئر پولیس اہلکار گل شرف بھی پولیس لائنز کے خودکش حملے میں نشانہ بن گئے ۔ گل شرف ایلیٹ فورس پولیس کے اہلکاروں کو تربیت دینے کے فرائض سر انجام دے رہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ افتخار علی نے بھی ترقی کے لئے مختلف ٹریننگ اور کورسز مکمل کئے تھے۔ پشاور پولیس کے سینئر عہدیدار کمال حسین نے منگل کے روز ابن آمین کے ساتھ بنائی جانے والی سیلفی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا ہے۔ کمال حسین کے بقول ابن آمین نماز ظہر کے ادائیگی کے لئے جا رہا تھا اور اس دوران ان کے ساتھ یہ میری آخری یادگار تصویر بن گئی ۔جمیل خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان تینوں اموات پر نہ صرف تین گھرانوں بلکہ امیر آباد علاقے کے ہزاروں گھرانوں میں غم اور ماتم ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں افتخار علی کے بھائی بہار علی۔ اور اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے حسن خان اور محمد طاہر نے اس واقع کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اس قسم کے واقعات کو کنٹرول کرنے کی اپیل کی ہے ۔
(بشکریہ وائس آف امریکہ)