
پشاور کوایک بار پھر خون میں نہلادیا گیا
تاریخی شہر پشاورکو ایک بار پھرخون میں نہلادیا گیا۔ سوموار کے روز دہشتگردوں کا ہدف کوئی اور نہیں بلکہ مسجد تھا جہاں دو سو سے زیادہ پشتون مسلمان اللہ پاک کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ اس خود کش بم حملے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق تاحال شہدا کی تعداد 32تک پہنچ گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک سو پچاس سے بھی زیادہ ہے ۔ زخمیوں میں بعض کی حالت ابھی تک تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ ویسے تو پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں دہشت گردی پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے مگر رواں سال پشاور پولیس لائنز کی جامع مسجد میں یہ پہلا ہلاکت خیز واقع ہے ۔ پچھلے سال چار مارچ کو شہر کے وسطی علاقے قصہ خوانی کے کوچہ رسالدار کے شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے چند لمحے قبل خود کش حملہ آور نے اپنے جسم سے بندھے ہوئے بارودی مواد کو دھماکہ سے اڑا دیا تھا اس سانحے میں لگ بھگ 94 افراد شہید اور ایک سو نوے زخمی ہو گئے تھے ، پشاور میں سوموار کو ہونے والا خودکش حملہ چار مارچ 2022 کو کوچہ رسالدار کے امامیہ جامع مسجد پر ہونے والے خودکش حملے سے کسی بھی طور پر مختلف نہیں تھا دہشتگردی اور مذہبی انتہا پسندی دراصل اس افغان جنگ کے بباقیات میں سے ہیں جو صرف اورصرف امریکی مفادات کے لئے لڑایا گیا تھا ۔اس جنگ میں پاکستان ایک مکمل فریق بن گیاتھا اوراس وقت کے حکمرانوں اور بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں اور عہدیداروں کا موقف تھا کہ روس جیسے کمیونسٹ ملک کو بحیرہ ہند کے گرم پانی سے روکنے کے لئے افغانستان میں موجود روسی افواج کے خلاف امریکہ پاکستان ہی کی مدد کر رہا ہے اوراس وقت جماعت اسلامی کے ایک مرحوم رہنما اس امریکی تعاون پر شکریہ گزار بھی تھے جبکہ دیگر مذہبی جماعتیں یا تو مکمل طور پر امریکہ کے روس کے خلاف اس جہاد کے اتحادی تھے یا خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ۔ ویسے تو پاکستان کے مقتدر حلقے اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ روس کو شکست دینے کے بعد امریکہ واپس چلا جائیگا اور یہ مقتدر حلقے سابقہ سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد اسلام کے نام پر ایشیا ء کی ایک اور سپر پاور کے طور عالمی افق پر ظہور پذیر ہو جائے گا مگر پاکستان کے ان مقتدر حلقوں کو کیا معلوم تھاکہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اورہوتے ہیں امریکہ جہاں بھی گیا ہے وہاں سے کبھی بھی واپس نہیں ہوا۔ اپریل 1988 کو جنیوا معاہدے کے بعد امریکی جاسوسوں نے تو پشاور، کوئٹہ اور راولپنڈی ، اسلام آباد سے تو بوریا بستر گول کر لیا تھا مگر وہ اس خطے بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میںاپنے ہاتھوں کے تراشے ہوئے عسکریت پسندوں کے ذریعے موجود رہا ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر سابقہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی سرزمین سے لڑی جانے والی جنگ میں نہ صرف افغان مجاہدین بلکہ عرب دنیا سے جام شہادت نوش کرنے کے لئے آنے والے عرب انتہا پسند بھی امریکی اور برطانوی جاسوسی اداروں کے اتحادی تھے ۔ عرب مجاہدین بعد میں القاعدہ اور داعش بن گئے جبکہ افغان مجاہدین طالبان بن گئے جنہوں نے امریکی اتحادیوں اور آپس کی ملی بھگت سے جنگ و جدل ، دہشتگردی اور تشدد کے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ افغانستان کے جنگ سے قبل جنوبی ایشیاء واحد ایسا علاقہ تھا جہاں پر امریکی باشندے یا امریکی اڈے نہیں تھے ۔ بہر حال امریکہ اور برطانیہ کے اپنے مفادات ہیں جس کے حصول کے لئے کبھی وہ پیار اور کبھی غصے کے ساتھ کوشاں ہوتے ہیں مگر پاکستان کے اپنے مفادات ہیں اور وہ مفاد امن عامہ کا ہے ،پاکستان کسی بھی طور پر عالمی سطح پر جاری محاذ آرائی میں فریق نہیں بن سکتا۔ پاکستان معاشی اور انتظامی طور پر ایک پسماندہ ملک ہے اسکے عوام اور ادارے کسی بھی طور پر دہشتگردی کو برداشت نہیں کرسکتے مگر بدقسمتی سے ماضی کے حکمرانوں نے یا تو اپنے آپکو اقتدار میں رکھنے اور یا اپنے مالی فوائد کے حصول کے لئے مملکت عزیز کو عالمی سطح پر جاری محاذ آرائی میں فریق بنا دیا ۔ غیروں کی لڑائی میں فریق بننے کے پاکستان اور پاکستانی عوام بہت بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ حیرانگی کی انتہا ہے کہ تمام تر سیاسی جماعتوں اور رائے عامہ ہموار کرنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو اب غیروں کی لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہیے مگر کچھ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اکابرین اورچند مذہبی عناصر محاذ آرائی میں فریق بننے سے باز نہیں آتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2008 سے 2013 تک ملک بھر بالخصوص خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے بہت بڑی جدوجہد کی گئی تھی اور اس جدوجہد کی بہت بڑی قربانی بھی ادا کی گئی مگر 2013 کے بعد برسر اقتدار آنے والی پاکستان تحریک انصاف نے طالبان عسکریت پسندوں کو اپنا اتحادی بنا لیا تھا جبکہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد وہاں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوں کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات شروع کرکے نہ صرف انکی شرائط کو اصولی طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا بلکہ انکے جنگجوں کو دیر کے بن شاہی کے راستے مٹہ سوات تک بھی پہنچنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ سوات پہنچنے کے بعد اب پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں دہشتگردی عروج پر نہیں بلکہ انتہا کو چھو رہی ہے۔ ان حالات کے لئے کوئی اور نہیں وہ مقتدر حلقے جواب دہ ہیں جن کا نام استعمال کرکے پہلے سرحد پار افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان جنگجوں کے ساتھ مذاکرات اور سیلفیاں بنائی گئیں اور بعد میںانکو خیبر پختونخوا کے انیس اضلاع کی بھاگ دوڑ تحفے میں دینے کی یقین دہانیاں کی گئیں تھیں اب وقت ہے کہ ملک و قوم کے ان حقیقی غداروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔