ترقی پسند ادب

ترقی پسند ادب

 

روخان یوسف زئی
بقول شاعر
سمجھے تھے ہم کہ عشق ہے اک حسن اتفاق 
دیکھا توواقعات کا ایک سلسلہ ملا
درجہ بالا شعر میں جس طرح عشق کو مختلف واقعات کا سلسلہ قرار دیا گیا ہے اسی طرح ترقی پسندتحریک بھی کسی خودروپودے، اتفاقی واقعے اور حادثے کی پیداوار نہیں بل کہ انسانی تاریخ کے جدلیاتی عمل کے نتیجے میں ابھرکرسامنے آئی، ترقی پسندی قانون ارتقاء سے جڑی ہوئی ہے اور سماجی ارتقاء بھی اسی قانون ارتقاء کے تابع ہے آغازتمدن سے زندگی کوپیش رفت کی راہ پرگامزن رکھنے اور رہ نمائی کرنے والی فکرترقی پسند فکر ہے، ترقی پسند ادب نے ہمارے جمالیاتی ذوق کو نکھارنے میں، ہمارے نظام فکر و احساس کے افق کو وسیع اور روشن کرنے میں جو تاریخی کردار ادا کیا ہے اس سے انکار ممکن نہیں، ترقی پسندفکر وفلسفہ معاشرے کوتبدیل کرنے کا فلسفہ ہے جس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں انسانی فکرونظرپرکوئی قدغن نہ ہوجس میں کسی پرظلم وجبرنہ ہوجس میں کسی کااستحصال نہ ہوجہاں عدم مساوات اور ناانصافیاں انسان کی لکھی ہوئی تقدیر نہ گردانی جاتی ہو یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندتحریک اورفلسفے کواپنے فکرونظر کی وجہ سے تاریخ کے ہردور میں عزت وتوقیر ملتی رہی اوراس تحریک  نے ہمیشہ ظالموں کے خلاف مظلوموں کی حمایت میں،جابروں کے خلاف مجبوروں کی حمایت میں، طاقتوروں کے خلاف کم زورں کے حق میں، اندھیرں کے خلاف اجالوں کی حمایت میں، حاکموں کے خلاف محکوموں کی حمایت میں آواز بلند کی ہے اور اسی آواز نے انسانی معاشرے کوایک نئی سوچ،نیا زاویہ نگاہ اور انسان دوستی کا ایک نیا درس عطا کیا ہے آج اسی آواز کو بین القوامی پس منظر میں زیادہ مستحکم زیادہ واضح،باوقار،توانا اورحوصلہ مندبنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس دھرتی پرپھرسے انسان دوستی کی بالادستی قائم ہوسکے، مانا کہ سائنس اورٹیکنالوجی کی ترقی اور مسابقت کی اندھی دوڑ نے ادب،آرٹ اورکلچرکی معنویت اور اہمیت گھٹا دیا ہے جسکے باعث انسانی اقدار،اخلاقی پاس داریاں،روحانی سرخوشیاں اور بحیثیت فرد خودانسان کی بالا دستی پس پشت چلی گئی ہے کیا ہم اپنی توانیاں مشینوں کی مدد سے اشیائے صرف کوبنانے کے بجائے آدمی کوانسان بنانے پرصرف نہیں کرسکتے؟ کیا ہم انسان اور انسانیت کواسے وہ کھویا ہوامقام پھرسے عطا نہیں کرسکتے جسے صدیوں کے جان لیوا ریاض اور جدوجہدکے بعد ہمارے بزرگ دانشوروں،فنکاروں اورارباب علم وفن نے حاصل کیا تھا کیا ہم پھرسے انسان کوکائنات کا مرکزنگاہ نہیں بناسکتے کیا یہ دنیا انسانیت اورسچائی کے محورکے اطراف نہیں گھوم سکتی؟ بقول میرتقی میرکہ
خدا ساز تھا آذر بت تراش
ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں

 

ترقی پسند ادب نے ہمارے جمالیاتی 
ذوق کو نکھارنے میںاہم کردار ادا کیا ہے
 ہمارے نظام فکر و احساس کے افق کو وسیع اور روشن کرنے میںترقی پسند ادب نے جو تاریخی کردار ادا کیا ہے اس سے انکار ممکن نہیں٭آج کے حالات میں ادب اورآرٹ ہی ایک ایسا مشین ہے جس کی مدد سے انسانوں کوڈھالہ جاسکتا ہے اور یہ کام ترقی پسندشاعر،ادیب اور دانشورہی بہترطریقے سے انجام دے سکتے ہیں٭پیرروخان (پیرروشن) کی روشنائی تحریک ہو،خوشحال خان خٹک کی نظم ونثر ہویا رحمان بابا سے لے کراب تک کے شعراء وادبا کی تخلیقات ہوں'سب میں ترقی پسندی رچی بسی ہوئی ہے' لہٰذاپشتوشاعری میں ترقی پسندی کی روایت بہت پرانی اورتوانا رہی ہے

 


آج کے حالات میں ادب اورآرٹ ہی ایک ایسا مشین ہے جس کی مدد سے انسانوں کوڈھالہ جاسکتا ہے اور یہ کام ترقی پسندشاعر،ادیب اور دانشورہی بہترطریقے سے انجام دے سکتے ہیں، جہاں تک پشتوزبان وادب میں ترقی پسندتصورحیات، نظریات اورتحریک کا تعلق ہے تو مختصراً اتنا عرض کرتا چلوں کہ پشتوعوامی شاعری کی اولین صنف''ٹپہ'' جسے مصرعہ اورلنڈئی بھی کہاجاتا ہے اورجسے عورت کی ایجادتصورکیاجاتاہے، اس صنف سے لے کرپشتوکی کلاسک اورجدید شاعری میں غالب رجحانات وعناصر ترقی پسند ہیں، انسان دوستی،وطن پرستی،قوم پرستی،روشن خیالی،طبقاتی نظام اور فرقہ واریت کے خلاف آواز اورجدوجہد پشتوادب کے بنیادی عناصر ہیں پیرروخان (پیرروشن) کی روشنائی تحریک ہو،خوش حال خان خٹک کی نظم ونثر ہویا رحمان بابا سے لے کراب تک کے شعراء وادبا کی تخلیقات ہوں،سب میں ترقی پسندی رچی بسی ہوئی ہے، لہذاپشتوشاعری میں ترقی پسندی کی روایت بہت پرانی اورتوانا رہی ہے،بعض لوگوں کا کہناہے کہ موجودہ دورمیں مارکس ازم اورترقی پسندنظریات اپنی اہمیت اورافادیت کھوچکے ہیں اس قسم کی سوچ اورنظریہ پھیلانے والے دراصل سرمایہ دارانہ نظام اورسامراجیت کے خلاف اٹھنے والی آوازکا رُخ موڑنا چاہتے ہیں اگرآج بھی دنیا میں ظلم و جبرناانصافی،استحصال،غیرمساوی معاشرہ اورانسانوں کے درمیان اونچ نیچ اورغربت موجودہے تومارکس ازم اورترقی پسندنظریات کیسے ختم ہوسکتے ہیں؟ بل کہ آج توان کی اہمیت اورضرورت اس وجہ سے بھی بڑھ چکی ہے کہ جن جان لیوا معاشرتی امراض،دہشت گردی،مذہبی منافرت،انتہاپسندی اورتنگ نظری نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اسے جڑسے اکھاڑنے ان سے اپنی جان اوراپنی نئی آنے والی نسل کوبچانے کا ایک ہی راستہ کارآمد ثابت ہوسکتا ہے اوروہ ہے ترقی پسندی،روشن خیالی ،اعتدال پسندی اورسیکولرازم پرچلنے کا راستہ جسے اپنا کرانسا ن امن، جمہوریت،انصاف،مساوات اوراپنے  بنیادی انسانی حقوق حاصل کرسکتا ہے کیوں کہ نظریے اس لیے جنم لیتے ہیں کہ زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کو ان کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی موت اس وقت واقع ہوتی ہے جب وہ زندگی سے کٹ جائیں، ساکت یا جامد ہو جائیں اور ارتقاء پذیر زندگی آگے نکل جائے چناں چہ وہ نطریے جو ساکت و جامد نہیں ہیں اور جن کی اساس تاریخی ارتقاء کے اصولوں کو سمجھ کر رکھی گئی ہے اور جن کا بنیادی اصول ہی زندگی اور اس کی بدلتی ہوئی قدروں سے رابطہ قائم رکھنا ہو موت سے ہمکنار نہیں ہوتے ادب کا ترقی پسند نظریہ ایسا ہی ایک زندہ اور جاویدان نظریہ ہے، ترقی پسند ادب کے تقاضے آج بھی بنیادی طور پر وہیں ہیں جو تحریک کی ابتداء میں تھے سماجی تبدیلی کے عمل میں شعوری طور پر شرکت اور رجعت پرست طرز فکر و احساس سے نبرد آزمائی لیکن گذشتہ نصف صدی میں دنیا میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں ان دنوں جن مسائل سے دوچار ہے دور حاضر کا ادیب ان سے صرف نظر نہیں کر سکتا، مثلاً ایٹمی جنگ کاخطرہ کہ اب کے ایٹم بم گرے تو ایک دو شہر برباد نہ ہوں گے بل کہ دنیا کا کوئی گوشہ بھی ان کی ہلاکت آفرینیوں سے بچ نہ سکے گا اور ادب کا تو ذکر ہی کیا، بنی نوع انسان کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اس کے علاوہ ہماری سیاست اور معیشت پر، ہمارے تعلیمی اور تہذیبی اداروں پر، ہمارے افکاراور ادبی  اقدار پر سام راجی طاقتوں کا غلبہ، ارباب حل و عقد کی جانب سے توہم پرستی کی حوصلہ افزائی اور سائنسی سوچ اور خرد مندی کی مذمت، حقوق انسانی کی پامالی، تحریر و تقریر پر پابندی، ابلاغ عامہ کے ذرائع کا غلط استعمال اور جبر و استحصال کی قوتوں کی من مانی سرگرمیاں اور علاقائی تہذیبوں اور زبانوں سے ناروا سلوک غرض یہ کہ بے شمار ایسے مسائل ہیں جن سے ہمارے ادیبوں کو دن رات سابقہ پڑتا ہے اور جن کے باعث ان کی تخلیقی کاؤشیں مجروح ہوتی ہیں،لہذا عالم گیریت نامی دنیا جو  سامراجیت کی ایک اورنئی شکل کے طورپر سامنے آئی ہے اور جوپس ماندہ اورغریب ملکوں کے وسائل کو دونوں جبڑوں سے نگل رہی ہے آج ہمارا معاشرہ مختلف النوع سیاسی،اقتصادی اورتہذیبی تبدیلیوں کی زد میں ہے روز،روز نت نئے مشکلات، مسائل اورتضادات  سراٹھارہے ہیں،منڈی کی معیشت اورعالمی سرمایے نے دنیا کوایک بڑے بازار میں ڈھال دیا ہے، دوسری جانب ہمارا یہی معاشرہ داخلی انتشار،سیاسی بحران اورتقسیم درتقسیم کے تکلیف دہ مراحل سے دوچارہے فرقہ پرستی اور تقسیم کی قوتیں انتہائی بے رحمی کے ساتھ انسانوں کے درمیان دوریاں پیدا کررہی ہیں مذہبی انتہا پسندی ارتجاعیت ،وحشت، دہشت گردی اورنسلی ولسانی تفریق موت اورخوف کے مہیب سائے پھیلارہا ہے،آج بھی ہمارا معاشرہ جاگیردارانہ روایات کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے، جمہوریت،رواداری،روشن خیالی اوراعتدال پسندی کے لیے خوش گوارفضاء قائم کرنے کے لیے ماضی کی طرح ایک بارپھرتمام ترقی پسنداورروشن خیال قوتوں کوایک ہوناپڑے گا ورنہ تاریخ بڑی بے رحم ہے کسی کو بھی معاف نہیں کرے گی،شاعرانسانیت رحمان بابا نے معاشرے کے دانش وروں کومخاطب کرتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ 
چہ جامہ دہ چاکوتاہ یااوگدا شی
ورکوے شی ہنرمند لرہ پیغور

(اگرکسی کا لباس چھوٹا یابڑاہوجائے تواس بات کا طعنہ اس لباس کوبنانے والے کودیاجاتاہے)