آٹے کا شدید بحران اور پنجاب حکومت کی بے حسی

آٹے کا شدید بحران اور پنجاب حکومت کی بے حسی

پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں آٹے کا شدید بحران ہونے کی وجہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور فلور ملز کو گندم کا مناسب اجرا نہ کرنا ہے۔ پشاور میں آٹے کی قلت نے20  کلو تھیلے کی قیمت2300  روپے تک پہنچا دی ہے اور پنجاب سے آٹے کے  پرانے  نرخ پہ ملنے  والے تھیلے کے خیبر پختونخواہ میں8  پوائنٹ بنائے گئے تھے جن پر آٹے کی قیمت980  روپے تھی جو اب 13 سو کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ اس کے بھی صرف30,40  تھیلے پوائنٹ پر دیتے ہیں اور ٹرک اگلے پوائنٹ پر چلا جاتا ہے جبکہ باقی لوگ ٹرک کے پیچھے بھاگ کر ذلیل وخوار ہوتے ہیں کیونکہ23  سو روپے میں20  کلو آٹا خریدنے کی سکت ان میں نہیں ہے۔ غریب دو وقت کی روٹی کھانے کو ترس گیا ہے جبکہ پنجاب حکومت نے سستا آٹا سکیم ختم کر دی اور مارکیٹ میں سبسڈائزڈ آٹا بھی غائب کر دیا گیا۔ اس وقت آٹے کا20  کلو کا تھیلا1640  روپے میں دستیاب ہے اور اس کی قیمت بڑھانے کی وجہ پنجاب حکومت یہ دے رہی ہے کہ اگر آٹا پرانے ریٹ پر دیا جائے گا تو پنجاب حکومت کو دو ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا اسی لیے پنجاب نے فلور ملز کو گندم کا اجرا1765  روپے سے بڑھا کر2690  کرنے کی تجویز دی ہے کہ اگر سبسڈی کا بوجھ کم کرنا ہے تو گندم کا اجرا مہنگاکرنا پڑے گا کیونکہ کم قیمت پر بیچنے سے گندم جلدی ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے صوبوں میں اس کے نرخ زیادہ ہیں؛ کراچی میں ایک کلو آٹا130  روپے کا سن کر کراچی والوں کے ہوش اڑ گئے۔ غریب آٹے کو ترس گئے ہیں۔ یہی حال فیصل آباد ملتان کوئٹہ کی بھی ہے۔ اسلام آباد میں روٹی کی قیمت20  روپے اور نان 25 روپے کا ہے۔ اقتصادی کمیٹی نے جون میں ہی گندم کی پیداوار کم ہونے پر تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی تجویز دی تھی۔ صورتحال اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ آٹا مہنگا ہونے کے باوجود بھی دستیاب نہیں جبکہ پنجاب نے آٹا کی ترسیل نہ کی تو بحران کی کیفیت پیدا ہو جائے گی، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پہلے سے موجود بحران میں مزید شدت آ جائے گی تو بے جا ہ ہو گا۔ مجموعی طور پر آٹے کے تھیلے کی قیمت297  روپے بڑھی ہے اور ہفتہ وار مہنگائی کی سطح29.28  تک پہنچ گئی ہے۔ صوبائی حکومت سے پنجاب سے آٹے کی ترسیل کی اپیل بھی کی گئی ہے۔ دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت ہوئی، فاضل جج نے سبسڈائزڈ آٹے کی تقسیم کے حوالے سے جواب مانگ لیا کیونکہ خیبر پختونخوا کی عوام آٹے کی  غیرمساوی تقسیم سے پریشان ہے اور سبسڈائزڈ آٹے  کے تھیلے8  پوائنٹ پر بھی اتنی کم مقدار میں رکھے جاتے ہیں کہ عوام آٹا خریدنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ سیلابی ریلوں کی وجہ سے گندم تباہ ہوئی لہٰذا ذخیرہ اندوزوں کے خلاف شدید کارروائی کی جانی چاہیے۔ حالیہ سیلاب میں افغانستان سب سے پہلا ملک تھا جس نے ڈیوٹی فری پیازاور ٹماٹر بھیجا تھا اور اب پاکستان نے ان کی اشیائے خوردونوش اور مختلف اقسام کے پھل اور خشک میوہ جات وغیرہ سب پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس کی وجہ سے بہت سے ٹرک بارڈر سے ہی واپس چلے گئے۔ اس قدر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانا پاکستان کے افغانستان سے تعلقات خراب کرنے کے مترادف ہے، حکومت کو اس وقت ایسی پالیسیز پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جن کی مدد سے مہنگائی کم کی جا سکے اور غذائی قلت کے بحران پہ قابو پایا جا سکے۔ آٹے کی ترسیل سب صوبوں میں ضرورت کے مطابق مناسب قیمتوں پہ ہو، ذخیرہ اندوز اور منافع خوروں سے نپٹنے کے لئے مناسب اقدام اٹھائے جائیں، غریب کو دو وقت کی روٹی کے لیے ذلیل و خوار کرنا حکومت کی نااہلی اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کو گندم کی ترسیل میں صرف پرویز الہی حکومت ہی ٹال مٹول سے کام نہیں لے رہی بلکہ ایسا ہی سلوک اس صوبے کی عوام کے ساتھ نواز شریف دور حکومت میں بھی برتا جاتا تھا۔ تاہم اس وقت افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداریاں آج کی طرح بند نہیں تھیں تو صوبائی حکومت افغانستان سے گندم درآمد کر کے بحران پر قابو پا لیتی تھی۔ اب بھی اگر پنجاب حکومت اپنے اس اقدام پر نظرثانی کرے کیلئے تیار نہیں ہوتی تو خیبر پختونخوا حکومت کو افغانستان سے گندم درآمد کرنے سے متعلق اقدامات پر غور کر لینا چاہئے۔