سیاسی لیڈر شپ تخت پنجاب کی جنگ میں پشتونوں کو ایندھن بنانا بند کریں، ایمل ولی خان

سیاسی لیڈر شپ تخت پنجاب کی جنگ میں پشتونوں کو ایندھن بنانا بند کریں، ایمل ولی خان


عوامی نیشنل پارٹی کے صوبا ئی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ تمام سیاسی لیڈرشپ تخت پنجاب کی جنگ میں پشتونوں کو ایندھن بنانا بند کریں۔ مریم نوازشریف صاحبہ کو نہیں بھولنا چاہئیے کہ دہشتگرد تنظیمیں سب سے زیادہ پنجاب میں موجود ہیں جنکے خلاف کارروائیاں نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہیں۔ 

 

پی ایم ایل این کی چیف آرگنائزن مریم نواز شریف کی جانب سے پشتونوں کو دہشتگرد کہنے پر ردعمل دکھاتے ہوئے اے این پی پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پشتونوں کو پنجاب کے ہر لیڈر کی جانب سے تجربہ گاہ اور سپورٹ سسٹم کے طور پر ہی دیکھا گیا ہے چاہے ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی۔ عمران خان نے طالبان کو پشتون قومیت کی وجہ سے مضبوط تنظیم کہا اور 'جنگجوں' کو آباد کرنا چاہا تو آج ایک اور پنجابی لیڈر کہہ رہی ہے کہ دہشتگرد پختونخوا سے لائے گئے۔ 

 

ان کا کہنا تھا گننا شروع کرینگے تو کہانی لمبی ہوجائیگی لیکن ہم آج بھی کہتے ہیں کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب یا نسل نہیں ہوتا بلکہ دہشتگرد دہشتگرد ہوتا ہے چاہے پنجابی ہو یا پشتون۔ ویسے پختونخوا میں انہیں لانیوالوں کا تعلق بھی پنجاب ہی سے تھا۔ ضیاالحق سے مشرف، عمران خان اور فیض حمید تک، سب پنجابی تھے۔ 

 

ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ ان "مجاہدین" کی تربیت کہاں سے شروع ہوئی؟ پنجاب میں ان کے کتنے تربیتی مراکز ہیں؟ پنجابی طالبان کون ہیں؟ براہ کرم اسے قوموں سے دور رکھیں۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ 

 

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اور تحریک طالبان کا یہ گٹھ جوڑ پاکستان کو مزید جہنم بنا دے گا۔ عمران نیازی آج کل جو کچھ کر رہا ہے یہ سب دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں۔ نیازی اور اس کے غنڈوں کو دہشتگردوں کی طرح ہینڈل کیا جانا چاہیے جیسا کہ وہ سب ہیں اور انہیں پورے پاکستان میں دہشت گردوں کی ہی حمایت حاصل ہے۔ 

 

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پختونخواہ کے دہشت گرد وہاں (لاہور) میں ہیں تو اس کا الزام پختونخواہ پر نہ ڈالیں۔ پنجابیوں کے ہی ایک جتھے نے دہشت گردوں کو پاکستان میں لانے اوردوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس آگ میں ایک دفعہ پھر پختونخوا ہی جلے گا۔ عمران نیازی اور اسکی ٹیم دہشتگردوں کے سہولت کار ہیں۔ ہم کئی دفعہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ ان سے اس بارے پوچھا جانا چاہیئے تاکہ حقائق عوام کے سامنے لائے جاسکیں۔