
کہانی پاک امریکا تعلقات کی
تحریر: محمد طلحہ
پاکستان بننے کے بعد امریکا نے دو مہینے اور 6 دن بعد اسے تسلیم کر لیا تھا۔ تب دنیا میں2 بلاک تھے اور دونوں ایک دوسرے کیخلاف برسرپیکار تھے۔ ایک بلاک سرمایہ دارانہ نظام کا تھا جسے کیپیٹل ازم بھی کہتے ہیں اور اس کی امریکا سرپرستی کر رہا تھا۔ دوسرا بلاک اشتراکیت کا تھا جس کو کمیونزم بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی سرپرستی سوویت یونین کر رہا تھا۔ سرد جنگ کے دور میں بالآخر سوویت یونین کو شکست کھانی پڑی۔ اس وقت کمیونسٹ بلاک دنیا کے ممالک کو دعوت دے رہا تھا کہ وہ اس کی حمایت کریں تاکہ کمیونزم کا نظریہ پروان چڑھے۔ لیکن امریکا چاہتا تھا کہ کمیونزم ختم ہو جائے اور سرمایہ دارانہ نظام غالب آئے۔ یہ ایک نظریہ کی جنگ تھی۔ امریکہ نے پہلے پہل پاکستان پر زیادہ توجہ نہ دی۔1949 میں جب نہرو نے امریکا کا دورہ کیا تو امریکہ نے ان سے کہا کہ وہ سرمایہ دارانہ بلاک جوائن کر لیں لیکن نہرو نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ کسی بھی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ امریکا نے نہرو پر دباؤ ڈالا اور کہا کہ وہ ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کریں گے۔ نہرو پھر بھی نہ مانے۔ ادھرسوویت یونین نے بھارت کی مدد کرنا شروع کر دی کہ کہیں وہ امریکہ سے نہ مل جائے۔ امریکا نے بھی مدد کرنا شروع کر دی تاکہ وہ سوویت یونین سے نہ جا ملے۔ اس طرح بھارت دونوں طرف سے فائدہ اٹھاتا رہا حالانکہ امریکا نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ آپ کی کسی بھی قسم کی مدد نہیں کریں گے۔ سوویت یونین نے پاکستان کو بھی کمیونسٹ بلاک میں شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی۔ جیسے ہی اس نے دعوت دی امریکہ نے بھی پاکستان کو اپنے بلاک میں مدعو کر لیا۔ اب پاکستان کے لئے یہ مسئلہ بن گیا کہ وہ کس کو جوائن کرے۔ آخرکار پاکستان نے امریکن بلاک میں جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام تھا جو کہ برطانوی دور سے چلا آ رہا تھا۔ لیاقت علی خان نے 1950 میں امریکا کا دورہ کیا حالانکہ جون1949 کو ہی ان کو امریکا کی طرف سے دعوت نامہ مل چکا تھا لیکن وہ ملک کے اندرونی حالات کی وجہ سے جلدی نہ جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کو سب سے پہلے تو سوویت یونین کی طرف سے دعوت نامہ ملا تھا لیکن وہ امریکا کے دورے پر ہی کیوں گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جمشید مارکر جو پاکستان کی طرف سے32 ممالک میں سفارت کار کے طور پرخدمات سر انجام دے چکے ہیں، انہوں نے اپنی کتابThe Cover point میں لکھا ہے کہ انہوں نے سوویت یونین کے سفار ت خانے میں پورا ریکارڈ دیکھا لیکن کہیں بھی سوویت یونین کی طرف سے پاکستان کو کوئی دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا تھا۔1950 میں لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ کیا اور کہا کہ پاکستان اور امریکا دونوں نے ایک آزاد ملک حاصل کرنے کیلئے کافی جدوجہد کی۔ امریکا نے پاکستان کیلئے معاشی پیکج کا اعلان بھی کیا تھا۔ امریکہ نے1954 میں ایک معاہدہ کیا جس میں آٹھ ممالک شامل تھے اور1955 میں ایک اور معاہدہ کیا جس میں ترکی، عراق اور پاکستان وغیرہ شامل تھے۔ ان معاہدوں کا مقصد اپنے بلا ک کے حمایت یافتہ ممالک کی مدد کرنا اور کمیونزم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے 1949 میں امریکا نے نیٹوNATO بنائی تھی جس کا مقصد کمیونزم کا مقابلہ کرنا تھا۔ ان سب معاہدوں سے پاکستان کو کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ 1961 میں ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا، اس دورے میں صدر کو بہت زیادہ پروٹوکول دیا گیا۔ اس پروٹوکول میں امریکہ کے مفادات تھے۔ امریکا ہر کام اپنے مفاد کے لیے کرتا ہے، جس میں اس کا مفاد نہ ہو وہ اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی ملک دوسرے ملک کا نہ ہی ہمیشہ کے لئے دوست ہوتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ کے لئے دشمن ہوتا ہے۔ جس ملک کا جہاں بھی فائدہ ہو گا وہیں چلا جائے گا بھلے ہی اسے اپنے دوست ملک کی دیرینہ دوستی ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ امریکہ نے جنرل ایوب کو اسی لئے بھی عزت دی کہ اس وقت پاکستان معیشت میں ترقی کر رہا تھا۔ امریکہ نے جنرل ایوب خان کی مدد بھی کی۔1965 کی جنگ ہوئی تو بھارت جو کہ روس کو زیادہ سپورٹ کرتا تھا اس لئے روس نے اس کی کھل کر مدد کی جبکہ پاکستان نے امریکہ کی حمایت کی تھی تو امریکا نے پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا جس سے پاکستان کو غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا کہ بھارت نے روس کی حمایت کی ہے تو انہوں نے ان کی مدد کی ہے لیکن جب ہم نے امریکا کی حمایت کی ہے تو امریکہ نے مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ لیکن پھر بھی پاکستان نے اپنے تعلقات جاری رکھے۔1971 میں جب پاکستان دولخت ہوا تو تب بھی امریکہ نے مدد کرنے سے انکار کر دیا اور الٹا بھارت کی مدد شروع کر دی تھی۔1965 کی جنگ میں چین نے پاکستان کی مدد کی تھی۔ 1971 کی جنگ میں بھی چین نے پاکستان کی کافی ساری مدد کی تھی۔ پاکستان امریکا کی دوغلی پالیسی سمجھ گیا تھا۔ پاکستان کو سمجھ آ گئی تھی کہ امریکا سے دوستی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ امریکن وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکا کی دشمنی بھی خطرناک ہے لیکن امریکا کی دوستی دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ان حالات کے باوجود بھی پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات جاری رکھے۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ امریکہ کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے تو وہ پاکستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر لیتا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور جنرل بھی امریکہ کا حکم ماننے کے لیے بے تاب بیٹھے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارے جرنیل اور باقی قیادت انتظار میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح مائی باپ (امریکا) کا حکم آئے اور ہم اچھے بن کر ان کے حکم کی تعمیل کریں۔ (جاری ہے)