
سوات ایک بار پھر عسکریت پسندی کے دہانے پر
ویسے تواب نہیں عرصہ دراز سے مذہبی نعروں سے ہمیشہ استعماری قوتوں نے چھوٹے ممالک یا اقوام کی آزادی اور وسائل کو قبضہ کرنے یا بڑی قوتوں نے چھوٹی قوتوں یا ممالک کے خلاف جارحیت کے لئے استعمال کر کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ چند برس قبل جب امریکہ نے اپنے انتہائی وفادار مسلمان ملک قطر کے ذریعے تتر بتر طالبان رہنماووں اور کمانڈروں کو پہاڑوں اور کوئٹہ سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں کے پناگاہوں سے نکال کر دوہا میں شاہانہ طرز زندگی کے مواقع فراہم کر کئے تو پاکستان کے مخصوص ذہنیت کے حامل طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے یہ کہہ کر بغلیں بجھانا شروع کر دے کہ طالبان نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا مگر ماضی کے تلخ حقائق کو دیکھتے ہوئے روشن خیال حلقوں کے حامل افراد نے واضح طور پر کہہ دیا کہ سرد جنگ سے جنم لینے والی جنگ اب ایک اور طریقے سے لڑی جانے کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ اور اس نئی حکمت عملی کے تحت امریکہ تو بظاہر افغانستان سے نکل چکا ہے اور افغانستان کو طالبان کے حوالے کر دیا گیا ہے مگر در حقیقت اب امریکہ دور سے ڈوریاں ہلا ہلا کر افغانستان میں لگ بھگ سات صدی قبل سابق سوویت یونین کے خلاف شروع کردہ جنگ کو اب روس ۔ چین اور کئی ایک دیگر ممالک کے خلاف ایک اور طریقے سے آگے لیجانے کی کوشش میں ہے۔ چونکہ یہ ساری جنگ اور حکمت عملی ایک منظم سازش اور منصوبہ بندی سے آگے لیجایا جا رہا ہے اور اس میں اسلامی نعروں یعنی جہاد مدرسے ۔ تبلیغ اور طالبان کے نعرے بہت کارآمد ثابت ہوئے ہیں اسی لئے ان نعروں کو زندہ اور تابندہ رکھنے کے لئے پختونخوا کے دھرتی کو چنا گیا ھے ۔ ماضی میں اگر دیکھا جائے تو 9/11 کے واقعے کے بعد افغانستان کی سرزمین سے اٹھنے والے طالبان اور اسلام کے نعرے اور جذبے کافی حد تک خاموش ہوگئے تھے مگر جب سوات ہی میں مولوی سراج الدین اور ملا فضل اللہ جیسے افراد مل گئے تو انکے ذریعے نہ صرف عالمی سطح پر مہذب اور روشن خیال سوات کو مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ بنا دیا گیا بلکہ اسی سوات کے ذریعے پورے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کوپھیلانے کے لیے عسکریت پسندی کے مراکز کھول دیئے گئے ۔ اب بھی وہی کچھ کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہے مگر اس بار سوات اور ملحقہ اضلاع کے لوگوں نے متفقہ طور پر ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے وہ کسی بھی قیمت پر سوات کو عسکریت پسندوں کے حوالے کرنے کے لئے تیار ھی نہیں ۔ پچھلے اگست کے اوائل سے پر اسرار۔ خفیہ اور نادیدہ قوتوں نے نہ صرف خاردار بھاڑ کے عبور کرنے میں ان عسکریت پسندوں کی مدد کی بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سول انتظامی اور پولیس افسران کو خاموش تماشائی بننے پر مجبور کر کیا تاھم عام لوگوں نے ماضی کے طرح خاموش تماشائی بننے کے بجائے پر امن مخالفت شروع کرکے امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے جاسوسی اداروں کو حیران و پریشان کر دیا ہے ۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت کیا جا رہاہے جب ملک بھر میں عمران خان کے ذریعے سیاسی بحران کو بھی انتہا تک لیجایا جا رہا ہے ۔ ملک بھر کے اہم سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان تحریک انصاف۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور جمیعت العلما اسلام ف بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بالآخر سوات کے اسکول وین پرہونے والے حملے پر ایک مختصر بیان دیکر خاموشی توڑ دی ہے ۔ مگر یہ کام صرف اور صرف چھوٹے قوم پرست اور مترقی سیاسی جماعتوں کا تو نہیں۔ وزیر اعلی محمود خان بھی آبائی سوات میں دو مہینوں سے جاری بحران پر خاموش ہے ۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب سوات ہی کی دختر ارجمند ملالہ یوسفزئی سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کراچی پہنچ چکی ہیں ماضی کی طرح پر اسرار اور نادیدہ قوتیں بھی نہیں چاہتیں کہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اپنے بہن بھائیوں اور بزرگوں سے ملے ۔ راولپنڈی اسلام آباد میں براجمان دیدہ اور نادیدہ قوتوں کو چاہئے کہ وہ سوات کے لوگوں کی مزاحمت کو نوشتہ دیوار سمجھ لے ۔ سوات کے عوام اب کسی بھی طور پر اپنے اوپر عسکریت پسندوں کو سوار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ وزیر اعلی محمود خان اور صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماں کا فرض بنتا ھے کہ وہ ماضی کی طرح سوات کو عسکریت پسندوں کے قبضے سے دور رکھنے کے لئے فوری طور پر کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کرکے عوام میں بڑھتی ھوئی مایوسی کو قابو کرنے کے لئے متفقہ اقدامات اٹھائے ۔ یہی وقت ہے کہ عسکریت پسندوں کا راستہ روکا جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب افغانستان کے بعد پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا دہشت گردوں کا مرکز بن جائیگا ۔