ٹرانس جینڈر بل عریانی و فحاشی کا راستہ کھولنے کی سازش ہے، سراج الحق

ٹرانس جینڈر بل عریانی و فحاشی کا راستہ کھولنے کی سازش ہے، سراج الحق

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر قانون مکمل طور پر غیر شرعی، غیر قانونی، اسلامی معاشرت پر حملہ اور ملک میں عریانی و فحاشی کا راستہ کھولنے کی سازش ہے۔ مغربی لابی نے ایجنڈے کے تحت ٹرانس جینڈر قانون پاکستان پر تھوپا اور ملک کی حکمران سیاسی جماعتیں ان کی آلہ کار بنیں۔ 

 

تمام مذہبی جماعتوں، علما کرام اور دینی و نظریاتی فکر کی حامل شخصیات نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہے۔ حکومت نے 7اکتوبر تک ٹرانس جینڈر قانون واپس نہ لیا تو قومی اسمبلی، سینیٹ کے ساتھ ساتھ چوکوں چوراہوں میں بھی احتجاج ہو گا۔

 

 مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں، علما اکرام، مدارس کے سربراہوں اور وکلا کے مشاورتی اجلاس کی صدارت کی جس میں تمام شرکا نے فیصلہ کیا کہ 7اکتوبر کو مسجد شہدا کے سامنے مال روڈ پر ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف احتجاج ہو گاجس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ 

 

 سراج الحق نے کہا کہ ہم نے حکومت کو غیر شرعی قانون واپس لینے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔ حکومت جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے پیش کیا گیا ترمیمی بل منظور کرے۔

 

 انھوں نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی کسی صورت بھی خواجہ سراؤں کے حقوق کی مخالف نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ کمیونٹی کو مکمل حقوق ملیں۔ مگر جو قانون 2018ء میں ن لیگ کی حکومت کے آخری دنوں میں جلد بازی میں پاس ہوا وہ کسی صورت بھی خواجہ سراؤں کے حقوق کا محافظ نہیں بلکہ اللہ کی مخلوق میں انسانوں کو اپنی مرضی سے جنس تبدیلی کے اختیارات دیتا ہے۔ یہ قانون ایک فتنہ اور فساد ہے اور اس سے معاشرے میں بگاڑ کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ 

 

انھوں نے کہا کہ حکمران جماعتیں سیکولرازم کے ایجنڈے کی تکمیل میں ایک ہیں اور ان کی لڑائی صرف اور صرف اپنے مفادات تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں جماعتوں کے دور میں ملک میں ایسے قوانین پاس ہوئے جو آئین کے خلاف ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت ملک میں کوئی بھی غیر اسلامی قانون نہیں بن سکتا۔

 

 انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا جو ہمارے خاندانی نظام پر حملہ ہے۔ پی ٹی آئی، ن لیگ، پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ نے ایف اے ٹی ایف کی تابعداری میں بھی مل کر ایسے قوانین کو اپنایا جن سے آئی ایم ایف کا ملک پر کنٹرول مزید مضبوط ہوا۔ آج ہم اپنے فیصلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی مرضی کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔