عدلیہ کو اپنی وقار کی خاطر فیصلوں سے ثابت کرنا چاہئیے کہ وہ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اسفندیارولی خان

عدلیہ کو اپنی وقار کی خاطر فیصلوں سے ثابت کرنا چاہئیے کہ وہ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اسفندیارولی خان

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان نے کہا ہے کہ عدلیہ کو اپنی وقار کی خاطر فیصلوں سے ثابت کرنا چاہئیے کہ وہ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔گذشتہ ادوار میں بھی اس ادارے پر انگلیاں اٹھی، وقت آگیا ہے کہ انصاف سے تنقید کا جواب دیا جائے۔ کسی کو خوش کرنے کیلئے عدلیہ جیسے معزز ادارے کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ 

 

سپریم کورٹ میں جاری ازخود نوٹس پر ردعمل دیتے ہوئے اسفندیارولی خان نے کہا کہ معزز ججز صاحبان پر اعتراضات کے بعد اخلاقی طور پر انہیں بنچ سے الگ ہونا چاہئیے۔افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ ایک جج صاحب کی مبینہ آڈیو کا اپنے ادارے نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ آئینی معاملات پر غیرضروری نوٹسز پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کو کمزور کرسکتی ہے۔ 

 

اے این پی سربراہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں تاثر مل رہا ہے کہ عدلیہ بھی مخصوص فریق کے ساتھ کھڑی ہے، یہ تاثر ختم کیا جائے۔چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی کو بنچ کا حصہ نہ بنانا حیران کن ہے۔پاکستان بار کونسل کی جانب سے بھی ججز صاحبان پر اعتراضات کے بعد بھی بنچ تبدیل ہونا چاہیئے۔ سپریم کورٹ اگر واقعی انصاف پر مبنی فیصلے دینا چاہتی ہے تو بنچ تبدیل کریں یا فل کورٹ بنایا جائے۔

 

 اسفندیارولی خان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں ہر ادارے کا اختیار درج ہے اور اختیارات سے تجاوز کسی صورت قبول نہیں۔ عدلیہ بھی صرف آئین کی تشریح کرسکتی ہے، آئین لکھ نہیں سکتی۔پارلیمنٹ کی بالادستی کا واحد راستہ جمہوریت اور آئین پر عملدرآمد ہے