
بڈاگے معاشرے کا لٹمس ٹیسٹ
محمد سہیل مونس
شاید دیر کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک کردار جو بڈاگی کے نام سے مشہور ہے جن کی ویڈیوز ان کے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک عرصے سے وائرل ہو رہی ہیں جن میں اس کردار کا کرکٹ سے لگاؤ اور جوش و خروش کے ساتھ ساتھ جذباتیت کا عنصر دیکھنے والوں کے لئے کافی تفریح کا باعث ہوتا ہے۔ اس کردار کے مشہور ہونے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انور علی جیسے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی ان تک پہنچ گئے جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں سے اکثر ان کو سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں ۔اس کردار کے دیگر ساتھیوں کے میچز دوردراز علاقوں میں اب منعقد کئے جاتے ہیںاور ان مقابلوں میںبے روزگاروں، نکھٹوئوں اور ھڈ حراموں کی ایک جم غفیر ہوتی ہے اس کردار کے لئے بیرون ملک سے لوگ تحفے تحائف اور کئی قیمتی اشیا تک بھیجنے سے نہیں رکتے بلکہ دوردراز کے سوشل میڈیا والے کیمرہ اور مائیک اٹھا کر بڈاگی کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح بڈاگی کو غصے کے سوا کچھ نہیں آتا اور لوگ اس سے محضوص ہوتے ہیں اسی طرح کا ایک اور کردار فرمان کسکر کے نام سے بے حد مقبول ہوا تھا۔ اس بچے کے اول فول باتوں کو عوام نے شاعری سمجھ لیا تھا اور پھر ساری پشتون قوم ان کی اس قدر دلدادہ ہو گئی کہ سکول و کالجز کے فنگشنز میں اسے خرافات سنانے کے لئے بلایا جانے لگااور وہ بھی مقبولیت کے افق پر ایک جگمگاتا ستارا بن کر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگا۔ جب ایک قوم کا معیار اس قدر گر جائے کہ اسے صحیح و غلط، کھرے و کوٹھے، سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنا بھی نہ آئے تو اس سے خیر کی امید رکھنا نہایت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم بات ایک عام آدمی کی کررہے ہیں ہمارے ہاں اکادمی ادبیات والے جب علامہ اقبال کی یوم پیدائش پہ تقریب کا احتمام کر کے اس کا موضوع افکار اقبال اور سائنس رکھ کر بڑے بڑے ڈاکٹرز اور دانشور حضرات ادھر ادھر کی ہانک کر اپنی تقاریر اس بات پر ختم کر لیتے ہیں کہ ، تقریب کا انعقاد محض مل بیٹھنے کا بہانہ تھا ورنہ علامہ صاحب کا سائنس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا نہ ہی ان کی شاعری میں سائنس سے متعلق کوئی ایسی بات ملتی ہے جس کا احاطہ کیا جائے۔ اب ان حالات میں بندہ سر نہ پھیٹے تو اور کیا کرے جبکہ ان صاحبان نے حکومت کے پیسے پر کئی ممالک کے دورے کئے ہوتے ہیں اور اپنی درسگاہوں سے لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہوتے ہیں، حیرت اس بات کی ہے کہ یہ اپنے آنے والی نسل کو کیا منتقل کرپاتے ہیں۔ اس زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ اصل علم کے حصول میں ناکامی اور علم سے دوری ہی کہی جا سکتی ہے ورنہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی ہیں جو دور جدید میں جدید علوم کے بل پر اپنی نئی آنے والی نسلوں کو سیراب کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہم ہیں کہ بڈاگی اور فرمان کسکر جیسے کرداروں کے پیچھے لگ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے میں عار ہی محسوس نہیں کرتے۔ یہ سارے کا سارا کیا دھرا اس فرسودہ نظام کا اور اس کے چلانے والوں کا ہے جس کا پردہ اتنی تیزی سے چاک ہوچلا ہے کہ نہ تو معاشرے کا کوئی بڑا اور نہ چھوٹا محفوظ رہ پایا ہے۔ ہم چند ہی برس پہلے تک جن سیاستدانوں کو مسیحا جان کر ان کے لئے اپنوں کی دشمنیاں تک مول لیا کرتے تھے آج ان کا ہر جھوٹ ہمارے سامنے ہے اسی طرح کل تک جس فوج کے گن ہم گایا کرتے تھے ان کی قلعی ایسے کھل کر سامنے آگئی ہے کہ کسی کو ان پہ اعتبار تک نہیں رہا۔ ان کے علاوہ کیا ملا یا افسرشاہی اور کیا اس ملک کی عدلیہ سب کے سب ایک ہی حمام کے ننگے عوام کے سامنے کھڑے ہیں اور تو اور حد تو یہ ہو گئی ہے کہ اب اس ملک میں کسی کی عزت و آبرو تک محفوظ نہیں ۔ ہم جن جن لوگوں سے متائثر تھے جن کی باتوں پہ ہال تالیوں سے گونج جایا کرتے تھے اور جن کو لوگ اپنا رول ماڈل تصور کرتے تھے دھیرے دھیرے ان سب کی نازیبا ویڈیو نکل کر مارکیٹ میں آرہی ہیں۔ ہم ویسے کون ہیں اور کس لئے زمین پر رینگ رہے ہیں نہ ہم کسی اور کا بھلا کرنے کے قابل ہیں اور نہ خود اپنا بھلا کرنا جانتے ہیں، ہمیں اپنوں پرائیوں نے لوٹ لوٹ کر کھا لیا اور ہم صرف خدا کے آسرے پر بیٹھے ہیں جو ہماری کرتوتوں کے طفیل ہماری زندگیوں تک سے سکون اور برکت اٹھا چکا ہے۔ اب نہ تو کسی پیغمبر نے آنا ہے اور نہ خدا نے زمین پر آکر ہمارا نظام ٹھیک کرنا ہے جو کچھ بھی کرنا ہے ہم نے خود ہی کرنا ہے وہ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں لیکن ذرا رک جائیں کیا بڈاگی اور فرمان کسکر جیسے لوگوں کی ویڈیوز سے ہمیں فرصت ہے کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں اور جدید علوم کے حصول کی جانب جائیں؟ اگر اس کا جواب نفی میںہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہماری حالت اس سے بھی ابتر ہو جائے۔ اپنی حالت پر رحم کرو تاکہ اوپر والا تم پر رحم کرے ، لوگوں کا سہارا بنیں ، حسن خلق اور بردباری کا مظاہرہ کریں کیا خبر کس لمحے بلاوا آجائے اور اپنے گناہ بخشوانے کا بھی موقع ہاتھ نہ آئے۔