
تحریک انصاف کی واپسی
کومل خان
ملک بھر میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پھیلی تاریکی کے عالم میں آج دو اہم خبریں ملکی سیاست اور عوامی مزاج پر گہرا اثر مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کے 45 ارکان قومی اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن حاصل کرسکیں۔ بدقسمتی سے یہ فیصلہ بہت تاخیر سے کیا گیا ہے اور ملکی سیاست پر منفی اثرات کے علاوہ تحریک انصاف کی کمزور حیثیت پر مہر تصدیق ثبت کرے گا،دوسرا اہم واقعہ میں کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پانچ سال قبل پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کے الزام میں سابق ایس ایس پی ملیر را انوار اور اس جرم میں شریک دیگر سترہ پولیس اہلکاروں کو باعزت بری کر دیا ہے۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران استغاثہ کے متعدد گواہوں نے اپنے بیانات واپس لے لئے تھے، ملک بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے لوگوں اور گروہوں نے اس عدالتی فیصلہ کو ناقابل یقین قرار دیا ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے براہ راست حکم پر پارٹی کے 45 ارکان قومی اسمبلی آج قومی اسمبلی، اسپیکر کے گھر اور پھر الیکشن کمیشن کے دفتر کے چکر لگاتے رہے، دھرنا دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اسپیکر ان کے استعفے واپس دے دیں کیوں کہ اب وہ مستعفی نہیں ہونا چاہتے بلکہ قومی اسمبلی میں جاکر اپنا پارلیمانی کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔ عمران خان نے ایسے سیاسی حربوں کو چونکہ کھیلنے جیسی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے ، اس لئے اسپیکر راجا پرویز اشرف آج سارا دن ان ارکان کے ہاتھ نہیں آئے۔ اس کے بعد یہ احتجاجی ٹولہ الیکشن کمیشن پہنچا اور چیف الیکشن کمشنر سے درخواست کی کہ ہم مستعفی نہیں ہونا چاہتے، اسپیکر کہہ بھی دے تو بھی ہماری نشستوں کو خالی قرار نہ دیا جائے۔ قیاس تو یہی کہتا ہے کہ پرویز اشرف کو ان ارکان کی نئی درخواست ماننا ہی پڑے گی لیکن یہ بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک انصاف کی حکمت عملی میں یہ تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی ہے جب اسپیکر قومی اسمبلی نے پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کے بعد اچانک تحریک انصاف کے 70 ارکان کے استعفے قبول کر لئے تھے۔ اب حکومت کو گھٹنوں پر لانے کے لئے عمران خان کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ انہیں شاید اب یہ بات سمجھ آنے لگی ہے جو ملک کا ہر تجزیہ نگار پہلے دن سے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ سیاست میں رہنے کے لئے پارلیمانی نظام کا حصہ بنے رہنا ضروری ہے اور ضد اور انا کی بجائے مصالحت و مفاہمت کا راستہ تلاش کیا جائے۔دونوں اسمبلیاں توڑ کر اور قومی اسمبلی میں نصف سے زائد ارکان کی نشستیں گنوانے کے بعد اب عمران خان قومی اسمبلی واپس جا کر شہباز شریف کے خلاف عدم ا عتماد لانا چاہتے ہیں اور محسن نقوی کے وزیر اعلی بننے پر ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کر رہے ہیں عمران خان نے حال ہی میں کہا تھا کہ نواز شریف کو سیاست نہیں آتی تاہم اب انہیں خود سوچنا چاہئے کہ جو کھیل انہوں نے شروع کیا تھا، اس سے ملکی معیشت تو متاثر ہورہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کی سیاست بھی کنارے پرپہنچ چکی ہے۔